Friday, 28 April 2023

لسان قوم میں دین کی تبلیغ علماء کی خصوصی ذمے داری

 -------------------------------------------------------------------------------

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر


 [𝐓𝐡𝐞 𝐌𝐮𝐧𝐬𝐢𝐟 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲, 𝐇𝐲𝐝𝐞𝐫𝐚𝐛𝐚𝐝, 𝐕𝐨𝐥. 𝟒𝟕, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝐍𝐨. 𝟏𝟏𝟕, 𝐀𝐩𝐫𝐢𝐥 𝟐𝟖, 𝟐𝟎𝟐𝟑, 𝐌𝐢𝐧𝐚𝐫-𝐞-𝐍𝐨𝐨𝐫 (𝐒𝐮𝐩𝐩𝐥𝐞𝐦𝐞𝐧𝐭), 𝐏. 𝟎𝟓]



[Lisaan-e-Qaum Mein Deen Ki Tableegh ‘Ulamaa Ki Khusoosi Zimmedaari, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 11, Issue No. 119, Saturday, April 29, 2023, P. 06.]



[Link of Baseerat Online]


[Link of Qindeel Online]

بنی آدم پر اللہ رب العزت کے جو احسانات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے انہیں صرف اپنی طاعت  و عبادت کا مکلف ہی نہیں بنایا بلکہ وقفے وقفے سے ان کے درمیان انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرماکر اور ان پر کتب و صحائف نازل فرما کر ان کی ہدایت و رہنمائی کے اسباب بھی فراہم کئے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس سلسلے میں رب کریم کی طرف سے کچھ ضابطے اپنائے گئے جنہیں سنت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سب سے اول یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو ضرور مبعوث کیا جو عمومًا اسی قوم کے فرد ہوا کرتے تھے۔ ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس کے پاس کوئی رسول نہیں آیا ہو۔ قرآن کریم کی آیات: "اِنَّمَاۤ  اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ  لِکُلِّ  قَوۡمٍ  ہَادٍ◌" (الرعد: ٧) (مفہوم: آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں  اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے) اور "وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ◌" ﴿فاطر: ٢٤) (مفہوم: اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو) اس پر دال ہیں۔

دوسرا اہم ضابطہ رب کریم نے یہ قائم فرمایا کہ جس پیغمبر کو بھی کسی قوم کی طرف مبعوث کیا، وہ ان کی قومی زبان کے جانکار ضرور ہوا کرتے تھے۔ یہ اس لئے کہ پیغام رسانی اور تبلیغ دین میں ان کے اور قوم کے درمیان کوئی ترسیلی خلا (Communication gap) نہ پیدا ہو اور قوم کو یہ عذر نہ رہے کہ انہیں تو پیغمبر خدا کی بات ہی سمجھ میں نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللهُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ هُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ◌" ﴿ابراھیم: ٤) (مفہوم): "اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس کی قوم ہی کی زبان میں تاکہ وہ ان پر حق کو اچھی طرح واضح کر دے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے وہ ہدایت بخش دیتا ہے، اور وہ سب پر غالب و کمال حکمت والا ہے۔"

اسی سے متعلق یہ ضابطہ بھی رہا کہ ربانی ہدایات بھی ان کی قومی زبان میں ہی نازل کی گئیں خواہ وہ کتاب یا صحیفوں کی شکل میں ہو یا وحی غیر متلو کی شکل میں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گرچہ عالمی نبی تھے لیکن ان کے اولین مخاطب چونکہ عرب تھے اس لئے قرآن کریم ان پر عربی زبان میں ہی نازل کیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے: "وَكَذٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ" (الشورى: ٧) (مفہوم): "اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں اور جمع ہونے کے دن سے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔" 

پھر اللہ کا ضابطہ یہ بھی رہا کہ پیغمبروں کی دعوت و تبلیغ کی محنت کے نتیجے میں بعض لوگوں کو ہدایت مل جاتی تھی اور بعضوں پر گمراہی ثابت ہوجاتی تھی اور اکثر وہ عذاب الٰہی کا بھی شکار ہوجاتے تھے۔  قرآن اس کی گواہی یوں دے رہا ہے: "وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللهَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ ہَدَی اللهُ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَیۡهِ الضَّلٰلَةُ ؕ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَةُ  الۡمُکَذِّبِیۡنَ◌" (النحل: ٣٦) "اور بلاشبہ ہم نے ہر امت میں ایک رسول (اس ہدایت کے ساتھ) بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو، پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جن کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی اور بعض ایسے تھے جن پر گمراہی ثابت ہو گئی، پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟"

 ہدایت دینے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ضابطے کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے: "اللهُ یَجْتَبِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْۤ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ" (الشوریٰ: ۱۳) (مفہوم): "اللہ اپنے قرب کے لئے چن لیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے اور وہ ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اسے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔" اس آیت میں تقسیم ہدایت کے دو ضابطے بتائے گئے ہیں؛ ایک تو خاص ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے قرب کے لئے چن لیتا ہے۔ احقر کی نگاہ میں انبیاء کرام علیہم السلام کا انتخاب اسی زمرے میں آتا ہے۔ دوسرا ضابطہ عام ہے، وہ یہ کہ جن کے دل ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور جو صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور پیغمبر خدا کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرتے ہیں، اللہ انہیں ہدایت سے نواز دیتا ہے۔

اس کے برعکس جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے اور جو حق کے واضح ہوجانے کے باوجود نبی کی دعوت کو جھٹلاتے ہیں، ان کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں یا ان کی مخالفت کرتے ہیں، ایسے لوگ ہدایت سے محروم کردئے جاتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ”وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ“  (البقرة: ٢٦) (مفہوم): ”اور وہ گمراہ نہیں کرتا اس (قرآنی مثال) سے سوائے نافرمانى کا رویہ اختیار کرنے والوں کے۔" موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کے تذکرے میں یہ دستور خداوندی اور بھی واضح ہے: ”وَ اِذۡ  قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ  وَ قَدۡ تَّعۡلَمُوۡنَ  اَنِّیۡ  رَسُوۡلُ اللهِ  اِلَیۡکُمۡ ؕ فَلَمَّا  زَاغُوۡۤا اَزَاغَ  اللهُ قُلُوۡبَہُمۡ ؕ وَ اللهُ  لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ◌“ (الصف: ٥) (مفہوم): "اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے تکلیف کیوں پہنچاتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ بلاشبہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں؟ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو (مزید) ٹیڑھا کردیا، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔" چنانچہ ہدایت اور ضلالت کے یہی ضابطے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے دور میں نافذ رہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بھی رکھا کہ کسی قوم کی اس کی برائیوں کی وجہ سے تب تک پکڑ نہیں فرمائی جب تک کسی ہادی کو بھیج کر صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کے سلسلے میں ان پر حجت پوری نہیں کردی۔ اللہ کا ارشاد ہے: "وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْۤ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا ١ۚ وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرٰۤى اِلَّا وَ اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ◌" (القصص: ۵۹) (مفہوم) "اور آپ کا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ وہ بستیوں کو یوں ہی ہلاک کر ڈالے جب تک اس نے ان کے مرکزی مقام پر کوئی رسول نہ بھیجا ہو، جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور ہم بستیوں کو اس وقت تک ہلاک کرنے والے نہیں ہیں جب تک ان کے باشندے ظالم نہ بن جائیں۔" اللہ رب العزت نے اپنے اس ضابطے کی مزید وضاحت نبی آخرالزماں کے ہم عصروں کے سلسلے میں یہ کہہ کر فرمادی: "وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى◌" (طٰہٰ: ۱۳٤) (مفہوم): "اور اگر ہم اس (قرآن کے نزول) سے پہلے ہی انہیں کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی آپ کی آیتوں کی پیروی کرلیتے ؟" 

پھر جب اللہ کا رسول کسی قوم کے درمیان آجاتا ہے تو ہدایت اور ضلالت کی راہ اپنانے والوں کے درمیان فیصلہ ان کی حالت کے مطابق کردیا جاتا ہے یعنی ہدایت یافتہ گروہ غالب ہوجاتا ہےاور اخروی کامیابی بھی اس کے لئے مقدر ہوجاتی ہے اور گمراہ لوگ مغلوب ہوجاتے ہیں اور اکثر عذاب الٰہی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: ”وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ رَسُوۡلُہُمۡ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ“ (یونس: 47) "اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہے، سو جب ان کا وہ رسول آجاتا ہے تو ان کے درمیان فیصلہ انصاف کے ساتھ کردیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔"

دعوت و ہدایت کے یہ سارے ضابطے احقر نے یوں ہی نہیں بیان کئے بلکہ اس کا تعلق موجودہ ملکی و عالمی پس منظر سے ہے۔ آج مسلمان سارے عالم میں مغلوب ہیں، ہر طرف ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جتنے مسلم ممالک ہیں وہ بھی اندرونی و بیرونی خلفشار کے شکار ہیں اور عالمی منظرنامے میں ان کی حیثیت نہیں کے برابر ہے۔ ہمارے علماء کرام، ائمہ کرام اور بزرگان دین گمراہ قوموں کی ہدایت اور ظالموں کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ان کی دعاؤں میں کوئی اثر ہی نہیں۔ نہ تو گمراہ قومیں ہدایت پر آرہی ہیں اور نہ ہی ظالم لوگ ہلاک و برباد ہورہے ہیں۔ یہ صورتحال آخر کیوں ہے؟ اسے سطور بالا میں ذکر کئے گئے خدائی ضابطوں کی روشنی میں بہتر طور سے سمجھا جاسکتا ہے۔ آئیے ذرا اسے تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

آپ یہ سمجھ چکے ہیں کہ دعوت و تبلیغ، ہدایت کے نزول کے اسباب میں سے ہے۔ اسی ضابطے کو پورا کرنے کے لئے اللہ رب العزت وقتًا فوقتًا پیغمبروں کو مبعوث کرتے رہے۔ پھر آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو تب تک مغلوب یا عذاب میں مبتلا نہیں کرتا جب تک اس پر دین حق کی دعوت کی حجت پوری نہیں هوجاتی۔ ہم سب کا اس پر بھی ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ خاتم الأنبیاء ہیں یعنی ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں  قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے نبی آپ ہی ہیں اور ان کی دنیوی و اخروی کامیابی آپ کے لائے ہوئے دین کی اتباع میں ہی مضمر ہے جیسا کہ قرآن گواہی دے رہا ہے: "قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللهِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا ۨ الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللهِ وَ رَسُوۡلِهِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللهِ وَ کَلِمٰتِهِ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ" (الأعراف: ١٥٨) (مفہوم): "آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بے شک میں رسول ہوں اللہ تعالیٰ کا تم سب کی طرف جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں ہے، نہیں ہے کوئی معبود اس کے سوا، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو کہ یقین رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے سب کلاموں (احکام) پر اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔" 

پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کو صرف ۲۳ سال ہی کار دعوت کے لئے ملے اور اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کی ساری اقوام تک آپ کا لایا ہوا دین پہنچانے کی ذمے داری آخر کس کی ہے؟ پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو جو کتاب ملی اور آپ کی جو ہدایات ہیں وہ سب عربی زبان میں ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ رہا ہے کہ ہر قوم کو ہدایات ان کی قومی زبان میں ہی دی گئی ہیں۔ دنیا کی یہ ساری قومیں کل خدا کے سامنے یہ حجت کرسکتی ہیں کہ آخر ہم نے کون سا قصور کیا تھا کہ ہمارا نبی بھی ہماری قوم سے نہیں تھا اور ان کے ذریعے جو ہدایات بھیجی گئیں وہ بھی ہماری زبان میں نہیں تھیں؟ تو کیا اللہ رب العزت نے خود انہں یہ حجت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے؟ نہیں! بلکہ اس نے ساری قوموں تک لسان قوم میں دین کی دعوت پہنچانے کی ذمے داری امت مسلمہ یعنی ہم سب کے اوپر ڈالی ہے۔ قرآن کا پیغام ہے: ”کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللهِ“ (آل عمران: ١١٠) یعنی "تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔" 

 یعنی یہ امت لوگوں کی ہدایت و اصلاح  کے لئے ہی پیدا کی گئی ہے تاکہ انہیں بھلائیوں کی طرف بلائے اور منکرات سے روکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ یہ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کار دعوت میں شریک ہے۔ اب اس کی یہ ذمےداری ہے کہ تمام قوموں تک لسان قوم میں دین کی دعوت کو پہنچائے۔ قرآن کی یہ آیت بھی اس پر صریح دلالت کر رہی ہے۔ "قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُوْٓا إِلَى اللهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ" (يوسف: ١٠٨) یعنی "آپ فرما دیجئے کہ میری راہ یہی ہے کہ بلاتا ہوں (لوگوں کو) اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ، میں (بھی) اور وہ (بھی) جو میرا اتباع کرنے والے ہیں اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ "

نیز یہ بھی فرمایا: ”کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ“ (البقرة: ١٤٣) (مفہوم): "ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول  (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں."

 لوگوں پر گواہ ہونے کا مطلب ظاہر طور پر یہی ہے کہ ان تک ان کی زبان میں دین کی دعوت پہنچادی جائے اور ہدایت یا ضلالت جس راستے کو بھی وہ اختیار کریں اس پر گواہ بن جایا جائے۔ آیت کی اس تاویل سے ان روایات کا قطعاً انکار لازم نہیں آتا جن میں یہ مذکور ہے کہ امت محمدیہ پچھلے نبیوں کی پیغام رسانی کے حق میں بھی گواہی دے گی۔ بہرحال مذکورہ آیات سے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ دعوت وتبلیغ کی یہ ذمےداری رسول پاک ﷺ کے ایک ایک امتی پر ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے پوری کی پوری شریعت کا عالم ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ دین کا جو کچھ بھی علم ہو اسے دوسروں تک پہنچانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: "بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً " یعنی ”میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو ۔" (صحیح بخاری، رقم الحديث ٣٤٦١) 

لیکن علماء کے سلسلے میں آپؑ کا یہ فرمانا کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں ان کے اوپر ایک خصوصی ذمے داری عائد کرتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ دعوت و تبلیغ کا حق بھی وہی لوگ ادا کرسکتے ہیں جو علم والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ" "بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبویؑ اور وراثت نبویؑ سے) پورا پورا حصہ لیا“ (ترمذی، رقم الحديث ٢٦٨٢، بروایت ابو الدرداء رضی الله عنہ)۔ 

حدیث کے الفاظ یہ اشارہ کرتے ہیں کہ ہر وہ شخص عالم ہے جس نے علوم نبوت سے وافر حصہ جمع کرلیا ہو اور جس کی قرآن و سنت پر گہری نگاہ ہو خواہ اس نے وہ علم کسی ذریعہ سے حاصل کیا ہو؛ رسمی (formal) یا غیر رسمی (informal)۔ چنانچہ ایسے ہر شخص پر علوم نبوت کا وارث ہونے کی حیثیت سے دعوت دین کی خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں ”علماء“ کی ایک خاص اصطلاح ہے جس سے مروجہ مدارس کے فارغین ہی مراد لئے جاتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو خود کو ہی علوم اسلامیہ کا خاص ماہر، اسرار الٰہیہ کا واقف کار اور انبیاء کا وارث خیال کرتا ہے جس میں وہ کسی حد تک حق بجانب بھی ہے۔ لیکن اس طبقے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ دین کی دعوت کو دوسری قوموں کی زبان اور زمانے کے اسلوب میں پیش کرنے پر قادر نہیں الا ماشاءالله ۔ بلکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ یہ طبقہ اپنوں کے درمیان بھی دین کو کتاب و سنت کے حوالوں اور منطقی دلائل کے ساتھ پیش کرنے پر قادر نہیں ہوتا، الا ماشاءاللہ ۔ نیز اس طبقے میں شامل افراد کے اوپر جذبات اور مسلک کا شدید غلبہ ہوا کرتا ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی سے ان کے بیان کردہ مسائل کے صرف حوالے مانگ لیجئے تو وہ آپ پر چراغ پا ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ اس قدر جذباتی ہوں وہ غیروں کو دین کی دعوت کس طرح دے سکتے ہیں اور ان کے تیکھے سوالات کو کیسے جھیل سکتے ہیں؟

دوسری طرف کالجوں و یونیورسٹیوں کے فارغین کا طبقہ ہے جن کے پاس دوسری زبانوں اور عصری اسلوب میں اپنی باتیں رکھنے کی پوری صلاحیت ہوتی ہے لیکن ان کی اکثریت دین اور دینی علوم سے ہی نابلد ہے۔ ان میں سے کوئی اگر قرآن و سنت اور دعوت و تبلیغ کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تو مروجہ علماء کا طبقہ بجائے اس کو اپنا معاون و مددگار سمجھنے کے، اپنا رقیب سمجھنے لگتا ہے اور بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے اس پر بری طرح سے حملہ آور ہوجاتا ہے اور عوام کو اس کے تئیں بدظن کرنے میں لگ جاتا ہے حالانکہ تجربے و مشاہدے سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ طبقہ اگر دعوت و تبلیغ پر کھڑا ہوجائے تو یہ اپنے طبقے کے ساتھ دوسری قوموں پر بھی زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ عالمی منظرنامے پر ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوسری قوموں تک ان کی زبان و اسلوب میں دعوت پہنچانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کو دنیا کی تمام اقوام کی زبانوں میں منتقل کیا جائے جس میں اس عصری علوم سے وابستہ طبقے کی معاونت ضروری ہوگی بلکہ ان کی مدد کے بغیر اس حدف کو حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔

 اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طبقے کو دین اور دینی علوم سے قریب لایا جائے، انہیں ان کی ذمے داری کا احساس دلایا جائے، ساتھ ہی انہیں یہ سجھایا جائے کہ وہ دین کی ترویج و اشاعت کے لئے اپنی صلاحیتوں سے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کے معاون بن کر دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کا کام کریں تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن علماء جب تک اپنی روایتی سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے اور مسلک سے اوپر نہیں اٹھیں گے، یہ کام نہیں ہو سکتا۔ انہیں فروعی مسائل کے اختلافات سے چشم پوشی کرکے اصول دین اور ان کی دعوت پر باہم متحد ہونا چاہیے۔ نیز ان کو اپنے مدارس کے نصاب میں  بھی ضروری تبدیلی لانی چاہیے اور اس کا رخ مختلف اقوام کے لئے داعیوں کی تیاری کی طرف موڑنا چاہیے۔ الحمد للہ کچھ علماء کرام کے ذہن میں یہ باتیں آئی ہیں اور بعض اداروں میں یہ کام شروع بھی ہوچکا ہے لیکن وہ کافی نہیں ہے۔  زیادہ تر مروجہ اداروں کا نصب العین اپنے مسلک کا تحفظ ہی بن رہ گیا ہے۔

 یاد رہے کہ جب تک ہم دوسری اقوام تک ان کی زبان و اسلوب میں دعوت پہنچا کر حجت پوری نہیں کردیں گے، نہ ان کی عمومی ہدایت کے فیصلے ہوں گے، نہ ہی ہمارے لئے اللہ کی مدد و نصرت آئے گی اور نہ ہی ظالموں کے لئے ہلاکت یا مغلوبیت کے فیصلے ہوں گے خواہ ہم کتنی ہی دعائیں کرتے رہیں کیوں کہ یہ ضابطہ خداوندی یا سنت الٰہیہ کے خلاف بات ہے جس کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ ہماری اکثریت کا معاملہ تو یہ ہے کہ اسے اپنی اس ذمے داری کا احساس بھی نہیں، وہ  دوسروں کے دین  و ایمان کی فکر کیا رکھیں جب کہ خود دین سے بیگانہ ہوکر زندگی گزار رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہم خود ظالم بن چکے ہیں کیوں کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی ذمے داری کو نہیں نبھایا، دین و ایمان کا جو سرمایہ ہمارے پاس ہے، ہم نے دنیا کی اقوام تک اسے نہیں پہنچایا اور ہم انہیں عذرتراشی کا یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ بروز حساب اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ کہیں کہ ہمارے پاس تو کوئی نذیر نہیں آیا اور جب یہ معاملہ پیش آئے گا تو بالآخر کون پکڑا جائے گا؟

اس لئے ہمیں اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں احساس ذمے داری کے ساتھ اپنا قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ ایک تو ہمیں اپنے علم میں روز افزوں اضافہ کرنا چاہیے کہ لاعلمی کسی نظام میں عذر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دوسرے، ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو کچھ بھی جانی، مالی، ذہنی و علمی صلاحیتیں دے رکھی ہیں ان کا استعمال دین کی ترویج و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لئے کیسے ہو سکتا ہے، اس پر غور کرنا چاہیے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس حقیر کو بھی علم کی دولت سے مالامال فرمائے اور اپنے دین کی دعوت کے لئے اس کی صلاحیتوں کو بھی قبول کرلے۔ آمین !

(رابطہ: mwzafar.pu@gmail.com)


٭٭٭٭٭








Monday, 10 April 2023

روزوں سے آخر کیا مطلوب ہے؟

 ------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر


[Rozon Se Aakhir Kiya Matloob Hai, The Daily Siyasi Taqdeer, New Delhi, Vol. 11, Issue No. 326, April 10, 2023, P. 05]
 

[Rozon Se Aakhir Kiya Matloob Hai, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 11, Issue No. 100, April 10, 2023, P. 07]



[Rozon Se Aakhir Kiya Matloob Hai, Pindar Urdu Daily, Patna, Vol. 50, Issue No. 97, April 10, 2023, P. 07.]


Link of Baseerat Online 


جس طرح اللہ رب العزت نے دنیا میں کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو کہ بے فائدہ یا بلا مقصد ہو، ٹھیک اسی طرح اس نے جن و انس پر کوئی ایسا حکم بھی عائد نہیں کیا جو بے فائدہ یا بلا مقصد ہو یا پھر ان کی استطاعت سے باہر ہو۔ درحقیقت پوری کی پوری شریعت اسلامیہ جن و انس کے دنیوی یا اخروی فوائد پر ہی مبنی ہے جسے معمولی غور و فکر سے سمجھا بھی جا سکتا ہے لیکن عام طور لوگ چونکہ تشریعی احکام کی حکمتوں پر غور نہیں کرتے اس لئے وہاں تک ان کی رسائی نہیں ہوتی اور وہ احکام شریعت کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں اور بعض تو ان کی مخالفت پر بھی اتر آتے ہیں۔  پھر جو غور کرنے والے ہیں ان کے غور و فکر کے بھی مختلف زاویے ہیں؛ کوئی احکام کو فقط دنیوی فوائد کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو کوئی انہیں فقط اخروی فوائد کے زاویے سے دیکھتا ہے جو یقیناً دنیوی فوائد کے مقابلہ میں برتر،  پائیدار اور حتمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

یہی معاملہ روزے کے ساتھ ہے کہ میڈیکل سائنس اور طب سے جڑے لوگوں نے اپنی اپنی پرواز کے مطابق اس کے فوائد اور انسانی صحت پر پڑنے والے اس کے اثرات کو نمایاں کیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن وہ سب اس کے ضمنی فوائد ہیں اصل مقصد جو ان سب سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے اسے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں خود بیان کردیا ہے۔ فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ◌" (البقرہ: ۱۸۳) (مفہوم): "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے اس توقع پر کہ تم پرهیزگار بن جاؤ۔"

اس آیت پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ روزے سے یہ توقع ہے کہ انسان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو کیوں کہ لفظ لَعَلَّكُمْ میں لَعَلَّ حرف مشبہ بفعل ہے اور عربی میں اندیشہ، امید، توقع اور امکان بالوثوق کا مفہوم ادا کرنے کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ تقویٰ کی یہ صفت کیا ہے اسے اس روایت کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے: 

"قال رجل لأبي ه‍ريرةؓ ما التقوى؟ قال: أخذت طريقاً ذا شوك؟ قال: نعم، قال: فكيف صنعت ؟ قال: إذا رأيت الشوك عدلت عنه أو جاوزته أو قصرت عنه، قال: ذاك التقوى" (كتاب الزهد الكبير للبيهقيؒ، دار الجنان ومؤسسة الكتب الثقافية، بيروت، لبنان، الطبعة الأولىٰ ١٩٨٧م، رقم الحديث ٩٦٣) 

(مفہوم): "ایک شخص نے ابوہریرہؓ سے پوچھا: تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے کبھی کانٹے دار راستہ اختیار کیا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر تم نے گزرتے وقت کیا کیا تھا ؟ اس نے کہا: جب میں کانٹا دیکھتا تو اس سے ہٹ جاتا یا اس سے بچ کر نکل جاتا یا اس سے نہیں گزرتا۔ فرمایا: یہی تقویٰ ہے۔" 

مذکورہ مکالمے میں تقویٰ کی بہترین تشریح موجود ہے کہ جس طرح جھاڑی دار اور کانٹے دار راستے پر چلتے وقت انسان اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر بچتا بچاتا گزرتا ہے، ٹھیک اسی طرح زندگی کے سفر میں گناہوں، آلائشوں، نفس کی بے جا خواہشوں، شیطانی وسوسوں اور اللہ کو ناراض کرنے والی چیزوں سے بچتے بچاتے گزر جانے کا نام تقویٰ ہے۔ گویا تقویٰ ضبط نفس (Self-Control) یا برائیوں سے بچنے کی استعداد کا نام ہے۔ یہ بات چونکہ روزے سے بہتر طریقے پر حاصل کی جاسکتی ہے اس لئے اللہ رب العزت نے اسے نہ صرف ہم پر فرض کیا ہے بلکہ پچھلی امتوں پر بھی فرض کیا تھا۔ 

دراصل "الصَّوْمُ" کے اصل معنی ہی کسی کام سے رک جانے یا باز رہنے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں کسی مکلف شخص کا روزہ رکھنے کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے، عمداً قے کرنے اور جماع (Sexual Intercourse) سے رکے رہنے کو صیام کہتے ہیں اور یہاں صیام کے معنی رمضان کے روزے ہیں۔  (انوار البیان فی حل لغات القرآن از علی محمد، مکتبہ سید احمد شہیدؒ، لاہور، ۲۰۰۵ء،جلد ۱، صفحہ ١٤٢)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں، وہ اس کے حکم کے پیش نظر ایک معین وقت کے دوران مذکوره باتوں سے رک جاتے ہیں۔ حلال اور بہترین غذائیں ان کے سامنے ہوتی ہیں اور خوبصورت شریک حیات بھی ان کے قریب ہوتی ہیں لیکن وہ تب تک خود کو قابو میں رکھتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی اجازت کا معین وقت نہ آجائے۔ وہ وضو کے دوران منہ میں پانی بھی لیتے ہیں، کلی کرتے ہیں لیکن ایک گھونٹ پانی حلق کے اندر نہیں جانے دیتے جب کہ اگر وہ ایسا کرلیں تو کوئی دوسرا آدمی اسے دیکھ یا سمجھ بھی نہیں سکتا۔ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہوتا ہے؟  کیوں کہ انہیں اس بات کا استحضار ہوتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ان کا رب انہیں دیکھ رہا ہے۔ اب آپ غور کیجئے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس کی حلال کردہ چیزوں سے بھی ایک معینہ مدت تک رک جائے، کیا وہ گوارا کرے گا کہ اسی دورانیہ میں اس کی حرام کرده چیزوں کی طرف اپنا قدم بڑھائے۔ اگر وہ حرام کردہ چیزوں کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے روزہ رسماً رکھا ہوا ہے، اسے نہ ہی روزے کی سمجھ ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا استحضار۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: «مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ وَالجَهْلَ، فَلَيْسَ للهِ حَاجَةٌ أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» (صحیح البخاریؒ، مكتبة الرشد، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠٠٦م، رقم الحدیث ٦٠٥٧ بروایت ابوہریرہؓ) (مفہوم): "جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے ۔" 

ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت نے اس پر روزے صرف اسی لئے فرض کئے تھے کہ اس کے اندر گناہوں سے بچنے کی استعداد پیدا ہو مگر جب وہ روزے کے دوران ہی الله تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا رہا تو گویا ایسا ہے جیسے اس نے تقویٰ کے حصول کا ارادہ ہی نہیں کیا تو الله تعالیٰ کو اسے بھوکا پیاسا رکھنے سے کیا غرض ہے؟ نتیجے کے اعتبار سے اس کا روزہ ایسا ہی ہے جیسے بھوکا پیاسا رہ جانا۔ 

اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے: "كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ" (مسند الدارمیؒ، دار ابن حزم، بيروت، الطبعة الأولىٰ ٢٠٠٢م، رقم الحديث ٢٧٥٤، بروایت ابوہریرہؓ)۔

(مفہوم): ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزے سے پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام اللیل کرنے والے ایسے ہیں جنہیں اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘ 

ظاہر ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو روزے کے دوران نہ جھوٹ، غیبت اور فحش گوئی سے بچتے ہیں اور نہ ہی دھوکہ دھڑی اور حرام خوری سے، نہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور نہ ہی الله تعالیٰ کے دوسرے احکام کی۔ حالانکہ تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ وہ منہیات اور محرمات سے تو کیا مشتبہات سے بھی پرہیز کرتے اور الله تعالیٰ کے احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی گزارتے جیسا کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: «إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ" (صحيح مسلم، دار السلام، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠٠٠م، جزء من رقم الحديث ٤٠٩٤)، بروایت  نعمان بن بشیرؓ)

(مفہوم): ’’بلاشبہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہات ہیں جن کو لوگوں کی بڑی تعداد نہیں جانتی، پس جو شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ بالآخر حرام میں بھی پڑگیا، جیسے چرواہا جو (شاہی محفوظ) چراگاه کے اردگرد (بکریاں) چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس (چراگاه) میں داخل ہو کر چرنے لگیں (اور وہ شاہی مجرم قرار پائے)، دیکھو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی چراگاه اس کی حرام کرده اشیاء (یا حدود اللہ) ہیں۔"

اس لئے تقویٰ کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے اور ان چیزوں سے بھی جو کراہت کے ساتھ جائز ہیں کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود کے قریب جانے کے مترادف ہے۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا: 

"لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ" (سنن الترمذيؒ، دار الحضارة للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠١٥م، رقم الحديث ٢٤٥١، بروایت عطیه سعدیؓ)

(مفہوم): ”کوئی بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو کہ جس میں کوئی حرج نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے، جس میں حرج (برائی) ہے“۔ 

اس طرح جو شخص پورے ایک مہینے اللہ تعالیٰ کے استحضار اور اس کے فرامین کا لحاظ رکھتے ہوئے روزے کا اہتمام کرے گا تو اس سے امید ہے کہ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا پاس و لحاظ رکھے گا۔ اگر یہ کیفیت پیدا ہو گئی تو سمجھیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ کامیابی کے ساتھ گزرا اور روزے اپنے مقصد کو پہنچے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو سمجھ لیں کہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مرجھائے ہوئے چہرے اور سوکھے ہوئے جسم کو نہیں دیکھتا، وہ تو آپ کے دل کی کیفیت دیکھتا ہے کہ وہ کس درجہ میں مطیع ہے اور صدق واخلاص سے کس درجہ میں معمور؟ روزے سے آپ نے تقویٰ کے حصول کی نیت کی ہے یا کچھ اور وہ یہ بھی جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ رمضان کے بعد آپ کے ارادے تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارنے کے ہیں یا شریعت کی پابندیوں سے یکسر آزاد رہ کر۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ تقویٰ یہاں ہے یعنی دل میں ہے۔ (دیکھیں صحیح مسلم، رقم الحدیث ٦٥٤١ اور ٦٥٤٢)۔ 


اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آخر تقویٰ پر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں؟ تو جان لیجئے کہ تقویٰ ہی وہ صفت ہے جو ایمان کے بعد اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کا ارشادِ ہے: "اِنَّ  اَکۡرَمَکُمۡ  عِنۡدَ الله  اَتۡقٰکُمۡ "یعنی بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ (سورة الحجرات: ١٣)

یہی تقویٰ ساری عبادتوں کا مقصود ہے اور یہی ایک مسلمان کی عملی زندگی کا نصب العین بھی ہے۔ اسے قرآن کی اس آیت کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے: 

"یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ◌" ﴿سورة البقرۃ:٢١﴾

(مفہوم): "اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔"

اسی تقویٰ پر دنیا میں مومنوں کے ساتھ نصرت، رحمت اور برکت کے وعدے ہیں ۔ مثال کے طور پر اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں: 

"وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا  کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ◌" (سورة الأعراف: ٩٦)

(مفہوم): "اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا ۔" 

اسی تقویٰ پر الله ربّ العزت نے گناہوں کی بخشش اور ایک خاص قسم کی ایمانی بصیرت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے جس سے حق و باطل کے درمیان تمیز کی قوت پیدا ہوتی ہے۔۔

"یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ  ذُو الۡفَضۡلِ  الۡعَظِیۡمِ◌" ﴿سورة الأنفال: ٢٩﴾ 

(مفہوم): "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کروگے تو وہ  تمھیں فرقان (حق و باطل کی تمیز کی قوت) عطا فرمائے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالٰی بڑے فضل والا ہے ۔" 

اور اسی تقویٰ پر آخرت میں نجات کا انحصار ہے۔

"وَ یُنَجِّی اللهُ  الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا بِمَفَازَتِہِمۡ ۫ لَا  یَمَسُّہُمُ السُّوۡٓءُ  وَ لَا  ہُمۡ  یَحۡزَنُوۡنَ ◌" ﴿سورة الزمر: ٦١﴾

(مفہوم): "اور جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، الله ان کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا، انہیں کوئی برائی (تکلیف) چھوئے گی بھی نہیں اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ۔" 

اور اسی تقویٰ پر آخرت میں بہترین اجر اور جنت کا وعدہ ہے۔

"وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا  یَتَّقُوۡنَ ◌" ﴿سورة يوسف: ٥٧﴾

(مفہوم): "آخرت کا جو اجر ہے وہ ان لوگوں کے لئے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ایمان لاتے اور تقویٰ پر کاربند رہتے ہیں۔" 

اور فرمایا: "اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ ◌" (سورة القمر: ٥٤)

(مفہوم): "بے شک متقین (جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی ہے) باغات اور نہروں میں ہوں گے۔

نیز فرمایا:

"مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ تَجۡرِیۡ مِنۡ  تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اُکُلُہَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّہَا ؕ تِلۡکَ عُقۡبَی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا ٭ۖ وَّ عُقۡبَی الۡکٰفِرِیۡنَ النَّارُ ◌" ﴿الرعد: ۳۵﴾

(مفہوم): "وہ جنت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اس کے پھل بھی سدا بہار ہیں اور اس کی چھاؤں بھی - یہ ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور کافروں کا انجام کار دوزخ ہے۔"

یہ ہے اس تقویٰ کی اہمیت جس کے حصول میں معاونت کے پیش نظر ہم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں الله تعالیٰ کے انعامات کے جتنے وعدے ہیں وہ سب ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج جو لوگ با ایمان ہونے نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھنے کے دعوے رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر کا تقویٰ سے دور دور کا تعلق نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے ہمارے ساتھ دنیوی زندگی میں پورے نہیں ہورہے جو اس نے ایمان والوں سے کئے ہوئے ہیں اور آخرت کی کامیابی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ تقویٰ کی روش اختیار کرنے کو ہم اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں گو اس راہ میں ہمیں کتنے ہی مجاہدے برداشت کرنے پڑیں اور روزوں سے بھی اس کے حصول کی نیت رکھیں اور سارے آداب کی رعایت کرتے ہوئے ان کا اہتمام کریں تبھی ان کے ثمرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ الله پاک اس حقیر کو بھی عمل کی توفیق عطا کرے اور تقویٰ کی دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین!

*******