Thursday, 30 May 2024

اپنے متعلقین کی نماز جنازہ خود پڑھائیں

-------------------------------------------------------------------------

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر 


[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Siyasi Taqdeer, New Delhi, Vol. 12, Issue No. 361, Thursday, 30 May 2024, P. 05.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 12, Issue No. 146, Thursday, 30 May 2024, P. 06.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Jamhuriyat Times Urdu Daily, Ranchi, Vol. 15, Issue No. 101, Thursday, 30 May 2024, P. 05.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Aawami News, Kolkata, Vol. 11, Issue No. 146, Thursday, 30 May 2024, P. 07.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Haqeeqat Today, Lucknow, Vol. 13, Issue No. 179, Thursday, 30 May 2024, P. 04.]

اپنے متعلقین کی نماز جنازہ خود پڑھائیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام کے جملہ احکام پر عمل پیرا ہونے کے لئے جہاں یقین محکم (Conviction) اور عزم مصمم (Determination) کی ضرورت ہوتی ہے وہیں علم شریعہ کا ہونا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ علم کو عمل کا امام کہا گیا ہے، اگر علم ہی نہ ہو تو چاہ کر بھی انسان شریعت کے احکام پر کاربند نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے دینی معاملات میں علم کے اعتبار سے ہر مسلمان کو خود کفیل بننے کی کوشش کرنا چاہیے یعنی اسے بنیادی دینی مسائل کو ضرور سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے مذہبی امور کو خود بحسن خوبی انجام دے سکے۔ یہ ہر مسلمان کے اوپر ایک فرض ہے۔ اور اسلام کی یہ بہت بڑی خوبی بھی ہے کہ یہاں دینی علوم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی دینی علوم پر اجارہ داری ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے، اسلام کا مزاج نہیں ! یہ کوئی پنڈتوں والا دین نہیں ہے کہ ہر معاملہ میں جب تک علاقہ کے پنڈت جی نہیں آئیں گے آپ کا کوئی مذہبی امر پورا ہی نہیں ہو گا ۔

اسی سلسلے کی ایک چیز نماز جنازہ بھی ہے ۔ ہر شخص کو نماز جنازہ پڑھنے یا پڑھانے کا طریقہ سیکھنا چاہیے اور حسب ضرورت اپنے والدین، اولاد یا متعلقین کا جنازہ خود پڑھانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ آپ جس محبت اور خلوص سے نماز پڑھائیں گے اور میت کی مغفرت کی دعا فرمائیں گے وہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا اور جو پروفیشنل امام ہے وہ تو قطعاً نہیں کرسکتا الا یہ کہ اسے میت سے کوئی مخلصانہ تعلق رہا ہو۔ احقر نے بعض پروفیشنل امام کو نماز جنازہ پڑھاتے وقت ایسا رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے مانو وہ میت کے ورثاء پر کوئی احسان کررہے ہوں حالانکہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ مرجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور جنازے کے ساتھ قبرستان جائے۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث 2736)۔

اور ہاں نماز بھی ایسی کہ اللّٰہ کی پناہ، جیسے تیسے جلدی جلدی بس پڑھ ڈالی، اطمینان و سکون تو گویا لوگوں کی نماز سے اٹھ ہی چکا ہے۔ ان پروفیشنل لوگوں کو اگر سماج کی لعنت ملامت کا خوف نہ ہو تو یہ لوگ نکاح کی طرح نماز جنازہ کی بھی فیس باندھ لیں لیکن شکر ہے کہ ابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ البتہ خفیہ طور پر نذرانہ دینے کی بنیاد پڑ چکی ہے ۔ اس کی اطلاع احقر کو چند دنوں قبل ہی ایک رفیق نے دی۔ ان کے ایک عزیز کے یہاں کسی کی وفات ہوئی تھی اور وہ جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے تھے تو انہوں نے بچشم خود میت کے وارث کو امام جنازہ کو پانچ سو روپے نذرانہ دیتے ہوئے دیکھا جسے اس پروفیشنل امام نے خاموشی سے اپنی جیب میں رکھ لیا اور ایک بار بھی دینے والے کو یہ نہیں کہا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ کیا پتا کل کو اس کے جواز کا کوئی فتویٰ بھی لے آئیں! یہ کہیں اور کی نہیں پٹنہ کی ہی بات ہے۔ انہوں نے جب یہ واقعہ سنایا تو بے ساختہ میرے منہ سے انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا۔ افسوس کہ ہم کہاں پہنچ گئے، ہم نے اسلام کو پنڈتوں والا دین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔

احقر نے ان پروفیشنل لوگوں کو عوام کو اپنے مذہبی امور میں ان پر منحصر ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے بھی سنا ہے، اگر آپ ان کی اصلاح کی کوئی بات کہہ دیں جسے یہ لوگ اپنی تنقید اور مخالفت سمجھتے ہیں تو یہی کہیں گے کہ مولویوں کی مخالفت کرتے ہو، مولوی کے بغیر تمھارا عقیقہ، قربانی، نکاح اور جنازہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا، گویا یہ خود کو اسلام کے پنڈت سمجھتے ہیں۔ افسوس ہے ایسی سوچ کے لوگوں پر، ان پر یہ ذمےداری عائد تھی کہ وہ عوام کو ضروری دین سکھاتے اور ان معاملات میں انہیں خودکفیل بناتے لیکن یہ پنڈت بن بیٹھے، اور اپنی ناکارکردگی پر افسوس کرنے کے بجائے اس کے نتائج پر الٹا انہیں طعنے دینے لگے ۔ دراصل جن لوگوں نے دین کو کمانے کھانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ دین کے معاملے میں خود کفیل ہوں۔ وہ تو یہی چاہیں گے کہ آپ جاہل بنے رہیں تاکہ دین کے نام پر وہ آپ کا استحصال کرتے رہیں۔

آپ اپنے اطراف میں غور کیجئے، آپ کو شاید ہی کوئی ایسا امام ملے جس نے اپنے تمام یا اکثر مقتدیوں کی نماز ہی درست کرادی ہو یا اس کی فکر رکھتا ہو اور متعلقہ کوششوں میں مصروف ہو، کامل نماز تو چھوڑ دیجئے کسی نے اپنے سارے مقتدیوں کو نماز جنازہ ہی سکھا دیا ہو الا ماشاء اللّٰہ ۔ اگر کوئی ایسا مل جائے تو ان کی قدر کیجئے اور ان کا ساتھ دیجئے، ایسے لوگ علماء سلف کے نمونے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ۔ ایسا اس لئے کہ یہ ان کا مشن ہی نہیں ہوتا، وہ دیگر لوگوں کی طرح اپنی نوکری کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اگر وہ چاہیں اور ٹھان لیں تو ان کو اتنے مواقع میسر ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مقتدین کو کچھ بھی سکھا سکتے ہیں اور ان کی فکروں کو کسی بھی مثبت رخ پر موڑ سکتے ہیں لیکن آپ کو ایسا دیکھنے کو شاید ہی ملے۔ ہاں ان کے جمعہ کے بیانات ضرور لچھے دار اور فلسفیانہ ہوسکتے ہیں جن کا اکثر اوقات عام لوگوں کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان کے مقتدیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وضو کیسے ٹوٹ جاتا ہے یہ انہیں معلوم نہیں!

اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہر شخص ضروری دین سیکھے اور دینی معاملات میں خود کفیل بنے۔ یہی اسلام کا مزاج بھی ہے، مطالبہ بھی اور ہماری آپ کی ذمےداری بھی۔ نماز جنازہ کوئی ایسی مشکل چیز نہیں جو آدمی نہیں سیکھ سکتا ہو۔ نماز جنازہ میں چار چیزیں پڑھی جاتی ہیں، ثناء، سورۃ الفاتحہ، درود شریف اور جنازے کی دعا ۔ ثناء، سورۃ الفاتحہ اور درود شریف تو لگ بھگ سارے مسلمانوں کو یاد ہوتا ہی ہے یا کم از کم ان کو جو نماز کے پابند ہوتے ہیں، صرف جنازے کی دعائیں یاد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کتب احادیث میں جنازے کی کئی دعائیں وارد ہوئی ہیں، ان میں سے کسی ایک یا دو کو نماز یا مسنون دعاؤں کی کسی مستند کتاب سے یاد کر لینا چاہیے اور اس کے معنی کو بھی سمجھ لینا چاہیے تاکہ دعا مانگتے وقت زبان اور دل کے مابین مطابقت ہو۔ کسی امام کے پیچھے بھی جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہو تو دعا مقتدیوں کو پڑھنا ہی ہے لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی یہ دعا یاد نہیں ہوتی ۔ یہ سخت محرومی کی بات ہے ۔ افسوس تب ہوتا ہے جب ایک شخص دور دراز سے سفر کر کے اپنے والدین یا کسی رشتے دار کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لیے آتا ہے لیکن نماز جنازہ دوسروں سے پڑھواتا ہے اور خود اس میں دعا بھی نہیں پڑھ پاتا کیوں کہ یاد ہی نہیں ہوتی۔

کچھ۔ لوگ نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے، ایسے لوگوں سے نماز جنازہ کی امامت بالکل نہیں کروانی چاہیے کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز جنازہ کی سنت ہے اور صحیح روایت سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے فرمایا : "صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , قَالَ : لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ " (مفہوم): "میں نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورۃ فاتحہ (تھوڑا جہر کے ساتھ) پڑھی، پھر فرمایا: (ایسا میں نے اس لئے کیا) تاکہ تم جان لو کہ یہی سنت نبوی ہے ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 1335، نیز سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 3198)۔

اس لئے جو لوگ جان بوجھ کر نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے وہ سنت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف بعض فقہاء نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کی فرضیت کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز جنازہ ایک نماز ہی ہے کیونکہ کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صَلُّوا عَلىٰ صَاحِبِكُمْ" "تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔" (صحيح بخارى، رقم الحدیث 2295) اور نماز کے لئے آپ نے فرمایا ہے: "لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" یعنی سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 756)۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ سورۃ الفاتحہ نماز جنازہ میں ضرور ہی پڑھی جائے اور جو لوگ نہیں پڑھتے ان سے نماز نہ پڑھوائی جائے۔

نماز کا مختصر طریقہ یہ ہے: سب سے پہلے نماز جنازہ کی نیت کرنا چاہیے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں۔ کچھ لوگ لمبی چوڑی نیت کے الفاظ یاد کرواتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں۔ صرف دل میں یہ نیت رکھیں کہ میت کی مغفرت کے لئے اور اللّٰہ کو راضی کرنے کے جذبہ سے نماز جنازہ پڑھتا ہوں پھِر اللّٰہ اکبر (پہلی تکبیر) کہیں، اس کے بعد نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر ثناء اور سورۃ الفاتحہ پڑھیں پھر اللّٰہ اکبر (دوسری تکبیر) کہیں، اس کے بعد درودشریف پڑھیں جو عام  نمازوں میں پڑھتے ہیں پھر اللّٰہ اکبر (تیسری تکبیر) کہیں،  اس کے بعد میت کے لئے دعائیں ہیں، جو دعا یاد ہو وہ پڑھ لیں۔ نماز جنازہ کی ایک دعا یہ ہے: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ" (ترجمہ): "اے اللّٰہ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللّٰہ ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔" (سنن ترمذی، رقم الحدیث 1024)۔ اس دعا کے بعد پھر اللّٰہ اکبر (چوتھی تکبیر) کہیں۔ اس کے بعد سلام پھیر کر نماز ختم کریں۔ بعض روایات میں چوتھی تکبیر کے بعد بھی مختصر سی دعائیں وارد ہوئی ہیں پھر سلام ہے تو ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ یہ سنت بھی ہمارے دیار میں متروک ہے۔ اس جگہ بعض فقہاء کے مطابق "ربنا آتنا فی الدنیا" والی دعا پڑھی جاسکتی ہے جو عموماً سب کو یاد ہوتی ہے۔ مختصر بات یہ کہ جب علم حاصل کریں گے تب ہی عبادات کو سنت کے مطابق ادا کرسکیں گے اور عبادات میں حسن پیدا ہوگا۔ جب علم ہی نہیں ہوگا تو اس کا احساس بھی نہیں ہوگا کہ ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے؟

ہاں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام مسجد سے نماز جنازہ پڑھوانے میں کوئی فضیلت ہے اور بعض فقہاء نے نماز جنازہ کی امامت کے مستحقین کے سلسلے میں لمبی چوڑی ترتیب بھی لکھ دی ہے۔ سنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا واقعہ ہوا ہے کہ کسی صحابی یا صحابیہ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا اور ان کی تجہیز و تکفین ہوگئی اور  آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بعد میں اس کی اطلاع ہوئی ۔ اگر نماز جنازہ میں امیر شہر، قاضی یا حاکم یا امام وقت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا تو لازماً رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی آپ نے اس کی تاکید کی۔ اس لئے اس کی کوئی اصل نہیں، اپنے قریبی متعلقین میں سے جو شخص علم اور تقویٰ کے لحاظ سے برتر ہو وہ نماز جنازہ پڑھائے یہی بہتر ہے۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قریبی رشتے داروں کا دل اس حادثہ کی وجہ سے مغموم اور ٹوٹا ہوا ہوتا ہے اور اللّٰہ کے یہاں ٹوٹے ہوئے دل کی بڑی قدر ہوتی ہے، اس لئے وہ جو دعائیں کریں گے وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہوگی۔ تاہم اگر مرنے والے شخص نے کسی کو اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کردی ہو تو سب سے پہلا حق امامت کا اسی شخص کو ہوگا یعنی مرنے والے شخص کی وصیّت کا لحاظ رکھا جائے گا، صحابہ کرام کے طرز عمل سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ حضرت عمر ان کے جنازے کی نماز پڑھائیں، اسی طرح حضرت عمر نے حضرت صہیب، حضرت عائشہ نے حضرت ابوہریرہ، اور حضرت ام سلمہ نے حضرت سعید بن زید کے بارے میں اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کی تھی جس کا صحابہ کرام نے لحاظ رکھا ۔ اس۔ لئے اگر آپ چاہیں تو اپنی نماز جنازہ کی امامت کے لئے کسی متقی اور پرہیزگار شخص کے بارے میں وصیت کر سکتے ہیں جو آپ سے محبت رکھتا ہو۔ امید ہے کہ میری یہ تحریر آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور ہی جھنجھوڑے گی اور عملی اقدام پر آمادہ کرے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے علم پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین! وما علینا الاالبلاغ!




Thursday, 2 May 2024

والدین بچوں پر اپنا پسندیدہ سبجیکٹ نہ تھوپیں

 -------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

[Walidain Bachchon Per Apna Pasandeedah Subject Na Thopen, Haqeeqat Today, Lucknow, Vol. 13, Issue No. 150, 01 May 2024, P. 04.]

[Walidain Bachchon Per Apna Pasandeedah Subject Na Thopen, The Daily Lazawal, Jammu, Vol. 39, Issue No. 116, Wednesday, 01 May 2024, P. 07.]



[Walidain Bachchon Per Apna Pasandeedah Subject Na Thopen, Aawami News, Kolkata, Vol. 11, Issue No. 118, 01 May 2024, P. 07.]



[Bachchon Per Apna Pasandeedah Subject Na Thopen, Daily Srinagar-e-Jang, Kashmir, Vol. 27, Issue No. 98, Wednesday, 01 May 2024, P. 06.]

Qindeel Online Link:

https://qindeelonline.com/walidain-bachchun-par-apna-pasandeeda-subject-na-thupen/01 May 2024


والدین بچوں پر اپنا پسندیدہ سبجیکٹ نہ تھوپیں!


سیکنڈری ایجوکیشن سے فراغت کے بعد یعنی میٹرک پاس کرنے کے بعد بچے بچیوں کے لئے جو سب سے مشکل مرحلہ سامنے آتا ہے، وہ ہے آگے کی تعلیم کے لئے سبجیکٹ اسٹریم (subject stream) کا انتخاب۔ مروجہ سبجیکٹ اسٹریمس میں سائنس (Science)، آرٹس (Arts) اور کامرس (Commerce) ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب ہی اعلی تعلیم کے لئے ضروری خیال کیا جاتا ہے حالانکہ کئی طرح کے ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسیز بھی متبادل کے طور پر موجود ہوتے ہیں جن کی طرف طلباء کا رخ موڑا جا سکتا ہے لیکن عام طور پر لوگ ان تین تعلیمی شعبوں میں ہی خود کو محصور رکھتے ہیں۔ اس مرحلے کی سب بڑی مشکل یہ ہوتی کہ زیادہ تر بچے بچیاں اس لائق نہیں ہوتے کہ وہ خود فیصلہ لے سکیں کہ آگے انہیں کیا پڑھنا ہے اور کس پروفیشن (profession) کو اختیار کرنا ہے۔ ایسے میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین بچوں پر اپنا پسندیدہ سبجیکٹ تھوپ دیتے ہیں جس میں سائنس اول نمبر پر، کامرس دوئم اور آرٹس سوئم نمبر پر ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں سائنس کی مقبولیت بالعموم دو پروفیشنز کی وجہ سے بہت زیادہ ہے؛ ایک میڈیکل اور دوسرے انجینئرنگ ۔ ہر والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ ان کا بچہ یا بچی پڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے بلکہ اس تمنا کو لوگوں نے بچوں کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی سے جوڑ رکھا ہے جو کہ ایک انتہائی غلط تصور ہے۔ 

یہ تصور بچوں کے ذہن میں ابتدا سے ہی اس درجہ راسخ کردیا جاتا ہے کہ جب بچے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ سمجھ کر کہ ان کی زندگی ناکام ہوچکی ہے، خودکشی تک پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ صرف کوٹا، راجستھان جو میڈیکل اور انجینئرنگ کی کوچنگ کا گزشتہ کئی سالوں سے مرکز بنا ہوا ہے، سے 2015 میں 18، 2016 میں 17، 2017 میں 07، 2018 میں 20، 2019 میں 18، 2022 میں 15، 2023 میں 27 اور 2024 میں اب تک 07 طلباء کی خودکشی کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیں۔ 2020 اور 2021 میں ایسا کوئی واقعہ اس لئے پیش نہیں آیا کیوں کہ کرونا وائرس کی وبا پھیل جانے کی وجہ سے کوچنگ سینٹرس بند تھے۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے خودکشی کے ایسے واقعات کی ظاہر ہے کوئی مخصوص رپورٹ موجود نہیں ہے جس سے مجموعی تعداد کا پتا لگایا جا سکے لیکن کوٹا کے مذکورہ اعداد وشمار ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ جو بچے خودکشی سے بچ جاتے ہیں ان میں کچھ تو ڈپریشن (depression) کا شکار ہو جاتے ہیں، کچھ مختلف قسم کے ڈرگس (drugs) اور نشہ خوری کے عادی، کچھ جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیتے ہیں اور تعلیمی کیریئر تو کتنوں کا تباه و برباد ہوتے احقر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان سارے نتائج بد کے ذمےدار اصل میں ان کے والدین یا سرپرست ہوتے ہیں جنہوں نے ان معصوموں پر اپنی پسند تھوپی ہوتی ہے۔ 

یہ جاننا چاہیے کہ ماہرین تعلیم کی متفقہ رائے ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کی ذہانت (intelligence)، فطری  صلاحیت (natural ability)، ذاتی دلچسپی (interest)، اور فطری رجحان (aptitude) کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن میں ہر بچہ دوسروں سے قدرے مختلف ہوتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ سبجیکٹ کے انتخاب یا تعلیمی حصولیابیوں (educational achievements) میں ہم اپنے بچوں کا مقابلہ دوسروں کے بچوں سے ہرگز نہ کریں۔ ہمیں اپنے بچوں کی ذہانت،  استعداد، دلچسپیوں اور رجحانات کا جائزہ لینا چاہیے اور ان کے مطابق ہی ان کی رہنمائی کرنا چاہیے۔ اس عمل میں ان کی سابقہ حصولیابیوں کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم یافتہ والدین اپنے بچوں کی ان امتیازی خصوصیات کو سمجھنے کے لئے پیشہ ور اکیڈمک یا کیریئر کاؤنسلرس کی مدد لیتے ہیں جو باقاعدہ جانچ پڑتال کے بعد ہی اپنے مشوروں سے نوازتے ہیں اور والدین ان کے مشوروں کا لحاظ بھی رکھتے ہیں لیکن ہمارے دیار میں بچوں کی ان امتیازی خصوصیات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس مقابلہ آرائی میں کہ فلاں پڑوسی یا فلاں رشتے دار کے بچے نے میڈیکل یا انجینئرنگ کے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کر لی ہے، ہم بھی اپنے بچوں کو ان ہی اہداف کے ساتھ سائنس اسٹریم میں جھونک دیتے ہیں اور یہ بالکل نہیں دیکھتے کہ ان کی استعداد کیسی ہے اور ان کا اپنا ذوق کیا۔ پھر ان سے اتنے اونچے توقعات وابستہ کرلئے جاتے ہیں کہ بچہ ان ہی کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے۔ 

انٹرمیڈیٹ میں داخلہ ہوتے ہی ہر سبجیکٹ کی کوچنگ کا غیر معمولی اور لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ سبجیکٹ کی بنیادی معلومات کی کمی یا خلا کو کس درجہ میں پُر کیا جاسکتا ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سے بچے میڈیکل یا انجینئرنگ تو دور کی بات ہے ، انٹرمیڈیٹ ہی پاس نہیں کر پاتے۔ دو تین بار امتحانات میں بیٹھنے کے بعد بالآخر تارک تعلیم (dropout) ہوجاتے ہیں۔ اس مرحلے سے آگے نکلنے والے بچے معمول کے تعلیمی سلسلے کو چھوڑ کر تین تین، چار چار بار بلکہ بعض تو اس سے بھی کچھ زیادہ بار مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھتے ہیں جن میں چند کو چھوڑ کر اکثر کو ناکامی ہی ہاتھ آتی ہے اور ان کی زندگی کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اس ناکامی کے نتیجے میں بچے جس مایوسی (frustration)، احساس محرومی اور احساس کمتری (inferiority complex) کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے جو نتائج بد سامنے آتے ہیں ان کا ذکر سطور بالا میں کیا چکا ہوں۔ ان کا یہ احساسِ محرومی اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے دوسرے ساتھی گریجویشن کے آخری مرحلے میں حتیٰ کہ کچھ پوسٹ گریجویشن میں پہنچ گئے ہیں اور ان کے پاس انٹرمیڈیٹ کے سرٹیفکٹ کے علاوہ کچھہ بھی نہیں ہے۔ اس مرحلے پر کچھ والدین پیسہ کے بل پر اپنے بچوں کو پرائیویٹ میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں داخلہ کروا دیتے ہیں جہاں مالی استحصال اور تعلیم و مہارت کے نام پر ہورہی ٹھگی کی الگ کہانی ہے۔ نااہلوں کی فوج کھڑی کرنے میں ان کالجوں کا یہ عالم ہے کہ بی ٹیک اور ایم ٹیک کر کے بچے اب ہمارے یہاں بی ایڈ اور ایم ایڈ کرنے آرہے ہیں کیوں کہ جاب مارکیٹ میں وہ کسی لائق تصور نہیں کئے جاتے۔ اگر والدین تھوڑا حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرلیں اور بچوں کو ان کی صلاحیت اور ذوق کے مطابق سبجیکٹ کا انتخاب کرنے دیں تو وہی بچے جو ایک اسٹریم میں ناکام ہوئے، دوسرے اسٹریم میں بہت کامیابی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور اپنا نام روشن کر سکتے ہیں۔  ایسی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ملیں گی کہ سائنس میں ناکام بچوں نے جب سوشل سائنس (social science) یا علوم بشریہ (humanities)؛ ادب، فلسفہ، لسانیات وغیرہ کا رخ کیا تو غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ آج بھی سائنس سے گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کرنے والے اکثر بچے بچیاں جب سول سروسز کے مقابلہ جاتی امتحانات میں بیٹھتے ہیں تو سوشل سائنس اور لٹریچر وغیرہ کا ہی انتخاب کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان ہی موضوعات (subjects) کو ابتدا سے ہی پڑھتے تو شاید اور بھی اچھا کرتے اور اُن کو اِن پر اضافی محنت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ لیکن ہمارے سماج میں ایک عجیب سوچ ہے کہ لوگ سوشل سائنس یا آرٹس پڑھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور والدین شرم کے مارے لوگوں کو یہ نہیں بتانا چاہتے کہ ان کے بچوں نے ان موضوعات کا انتخاب کیا ہے کیوں کہ اس سے ان کے بچوں کی ذہانت سماج میں مشکوک ہو جائے گی۔ یہ انتہائی نامعقول اور احمقانہ تصور ہے۔ سوشل سائنس، لٹریچر اور آرٹس میں بھی آگے اچھے مواقع میسر ہیں جہاں ذہانت کی بنیاد پر بڑی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کامرس، مینجمنٹ (management)، قانون (law) اور تعلیم (education) کے شعبوں میں بھی اچھے مواقع موجود ہوتے ہیں جن کو ہدف بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ بہت طرح کے ووکیشنل (vocational) کورسیز وجود میں آچکے ہیں، ان کی طرف بھی بچوں کو بھیجا جاسکتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس دنیا میں صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی کامیاب ہیں، باقی سارے لوگ ناکامیاب۔ سماج میں ہر شعبہ کے ماہرین کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ جو کچھ بھی پڑھ رہےہیں، وہ کتنی سنجیدگی، شدت اور لگن کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس میں کتنی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ میں تو پوسٹ گریجویشن کے طلباء کو دیکھتا ہوں کہ ان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ برجستہ کسی موضوع پر دو چار صفحات لکھ سکیں الاماشاء اللّٰہ، کلاس میں کسی موضوع کو پڑھاتے وقت جن بنیادی نکات (basic points) کو پاور پوائنٹ سلائیڈ پر لکھ دیتا ہوں، وہ بھی امتحان میں اسی طرح لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی وضاحت تک اپنی زبان میں نہیں کر پاتے جب کہ کلاس میں ساری باتیں وضاحت کے ساتھ بتائی گئی ہوتی ہیں، اب ایسے طلباء اپنے لئے آگے کیا توقعات رکھتے ہیں؟

اس لئے تمام والدین سے احقر کی ایک مؤدبانہ گزارش ہے کہ للہ بچوں پر اپنی پسند کا سبجیکٹ اور پروفیشن تھوپ کر ان کی زندگی کو برباد نہ کریں۔ اپنی ذہانت کی بنیاد پر اگر وہ آپ کی منشاء کے مطابق کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو بھی ان کو پیشہ ورانہ اطمینان (job satisfaction) کبھی نصیب نہیں ہوتا جو کہ ایک بہت ہی اہم چیز ہے اور زندگی بھر ان کو اس کا افسوس رہتا ہے کہ وہ اپنا شوق پورا نہیں کرسکے۔ اصولی طور پر اساتذہ، والدین یا سرپرستوں کو یہ کرنا چاہیے کہ بچے کے لئے آگے کیا کیا متبادل (alternatives) موجود ہیں، ان سے متعلق کیا مواقع (opportunities) میسر ہیں اور ان کی حصولیابیوں میں کیا چیلنجز (challenges) درپیش ہیں، یہ ان کے سامنے رکھ دیں اور انہیں خود اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق سبجیکٹ کا انتخاب کرنے دیں۔ طلباء کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیت کو آنکیں اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے سبجیکٹ اسٹریم کا انتخاب کریں نہ کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی یا مقابلہ آرائی میں۔ یہی بات تمام مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہر آدمی اپنی صلاحیتوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ایک مخصوص مقابلہ جاتی امتحان میں شامل ہونے کی بنیادی صلاحیت آپ کے اندر واقعتاً موجود ہے یا جو کمی ہے اس کی تلافی آپ کرسکتے ہیں، تب ہی آپ اس کی تیاری میں لگیں ورنہ دوسرا متبادل دیکھیں۔ کوچنگ سینٹرس والے تو آپ کو سبز باغ دکھائیں گے کیوں کہ اس میں ان کے اپنے اقتصادی مفادات ہیں لیکن آپ کو اپنی صلاحیت، اپنی کمزوریوں اور درپیش چیلنجز کو دیکھنا ہے۔ تمام متعلقہ پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر جب آپ اپنے لئے ایک حقیقت پسندانہ اور قابل تسخیر ہدف قائم کرتے ہیں، پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے صحیح منصوبہ بندی اور سخت محنت کرتے ہیں تو کامیابی کے امکانات بھی زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، نیز صحت، وقت، محنت اور وسائل کے نقصانات سے بھی آپ بہت حد تک محفوظ ہوجاتے ہیں۔ احقر کی اس تحریر کا مقصد آپ کو ان ہی نقصانات سے بچانا ہے نہ حوصلہ شکنی کرنا۔ امید ہے کہ یہ تحریر والدین، اساتذہ اور طلباء سب کے لئے مفید ثابت ہوگی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔