Wednesday, 3 December 2025

𝐓𝐚𝐪𝐬𝐞𝐞𝐦-𝐞-𝐇𝐢𝐝𝐚𝐲𝐚𝐭 𝐊𝐚 𝐊𝐡𝐮𝐝𝐚𝐢 𝐙𝐚𝐛𝐭𝐚 𝐐𝐮𝐫𝐚𝐧-𝐞-𝐇𝐚𝐤𝐞𝐞𝐦 𝐤𝐢 𝐑𝐨𝐬𝐡𝐧𝐢 𝐌𝐞𝐢𝐧

 --------------------------------------------------------------------------------


تقسیم ہدایت کا خدائی ضابطہ قرآن حکیم کی روشنی میں

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

            انسان کی فطرت میں جستجو، شعور راست، حق اور مقصد حیات کی تلاش ایک بنیادی جذبہ ہے۔ انسان ہمیشہ یہ سوال کرتا رہا ہے کہ زندگی کا صحیح راستہ کون سا ہے؟ یعنی وہ کون سی راہ ہے جس پر چل کر ایک انسان اپنی منزل مقصود کو پا سکتا ہے اور اپنی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں ‘‘ہدایت’’ کا تصور ابھرتا ہے۔ لفظ "ہدایت" عربی مادّہ "ھ د ی"  سے مشتق ہے جس کے بنیادی معنی "رہنمائی کرنے، صحیح سمت کی طرف رہبری کرنے، سیدھی راہ دکھانے، نشان دہی کرنے، منزل مقصود تک پہنچانے" وغیرہ کے ہیں۔ اس کی ضد غوایت، ضلالت یا گمراہی ہے۔ امام راغب اصفہانیؒ کے مطابق "ہدایت"  (اَلْھِدَایَۃُ) کے اصل معنی لطف و کرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ (المفردات في غریب القرآن، مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز، الجزء الثاني، صفحہ۷۰۰)۔ ظاہر ہے کہ اس سے وہی رہنمائی مراد ہے جو خیر و بھلائی پر مبنی ہو اور کسی کو منزل مقصود تک پہنچنے میں مددگار ہو۔

            انسان یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر موڑ پر اپنے بشری تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی نہ کسی کی ہدایت و رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے لیکن یہاں جو ہدایت زیر بحث ہے وہ "ربانی رشد و ہدایت" ہے جو اس دنیا میں انسان کی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت ہے اور جس کے بغیر وہ مقصد حیات کو پاسکتا ہے نہ حتمی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ خالق کائنات نے اس ضرورت کے پیش نظرانسان کی ہدایت کا ایسا نظم قائم فرمایا اور تقسیم ہدایت کے ایسے ضابطے بنائے کہ اگر کوئی اسے سمجھ لے اور اپنی زندگی کو ان سے ہم آہنگ کرلے تو ہر طرح کی فکری گمراہی، اخلاقی بے راہ روی، نظریاتی افراط و تفریط، اور روحانی بے سمتی سے محفوظ رہ سکتا ہے ، نیز حتمی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ قرآن حکیم جو خود ایک کتاب ہدایت ہے، خدائے تعالیٰ کے اس نظم و نسق اور ضابطے کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ یہ ہدایت کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو فطرت، عقل و شعور، وحی، دعوت الی الخیر، ارادہ و اختیار، اور اخلاق و عمل کے جامع نظام کی نمائندگی کرتا ہے لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اکثر لوگ اسے نہیں سمجھتے اور فہم ہدایت کے تعلق سے افراط و تفریط کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی محسوس ہوئی کہ اس کی وضاحت کی جائے تاکہ ہدایت کا ایک متوازن تصور لوگوں کے درمیان قائم ہو اور وہ اپنی فطرت، اپنے اختیارات، اپنی ذمے داریوں اور ربانی ہدایت کے تعلق کو سمجھیں اوراس سے مستفیض ہوں۔ انھیں روز روشن کی طرح یہ عیاں ہوجائے کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے، ہدایت اور سلامتی کی راہ ایمان و اسلام کی راہ ہے، اور انسان کی حتمی کامیابی اس کے اخروی نجات میں مضمر ہے۔

            قرآن حکیم میں "ہدایت"  کا لفظ مختلف صیغوں اور سیاقوں میں تقریباً  ۳۱۶ مقامات پر آیا ہے۔ یہ استعمالات مختلف معنوی جہتوں اور درجوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہدایت کا پہلا درجہ فطری (natural)، تکوینی یا جبلی (innate) ہے جو اللہ تعالی نے عقل و فطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے سے کی ہے۔ ہدایت کا یہ درجہ عام ہے جو کائنات کی تمام اشیا اور مخلوقات کی تمام قسموں اجرام فلکی (celestial bodies)، فرشتے، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان اور جنات سب کو شامل ہے اور ہر شے کو اس سے حسب ضرورت تکوینی طور پر بہرہ مند کیا گیا ہے۔ اسی ہدایت عامہ (universal guidance) کا ذکرقرآن کریم کی آیت ﴿قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طٰہٰ: ۵۰﴾ میں ہے یعنی فرمایا  (موسیٰ ؑنے کہ)  ہمارا  رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ عطا کی، پھراس کی رہنمائی بھی فرمائی۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی ہ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ہ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی﴾ "اپنے رب کے نام کی تسبیح کیجیے جو سب سے بلند ہے، جس نے (ہر چیزکو) پیدا کیااور درست تناسب قائم کیا ، اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص اندازبخشا، پھر راہ دکھائی۔" (الأعلیٰ: ۱-۳)۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص صورت اور خاص فطرت پر وجود بخشا، اس کے ذمے کچھ خاص خدمتیں سپرد کیں، اس کا دائرۂ کار متعین کیا اور اسی کے مناسب اسے ہدایت کردی۔ اسی ہدایت عامہ کی وجہ سے کائنات کی ہر چیز اپنے حصے کے فرائض کو نہایت خوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔ اسی ہدایت عامہ کے تحت انسان کے اعضا و جوارح بھی اس کے شعور و ارادے کے بغیر اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور بچپن سے بڑھاپے تک کے جسمانی اور ذہنی تغیرات رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔

            اس ہدایت عامہ کے تحت ایک دوسرے قسم کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے مقصد حیات کے پیش نظر اس کی شعوری و اخلاقی زندگی کے لیے عطاکی کہ اسے علم و عقل اور فکر و فہم کی صلاحیتیں بخشیں اور اخلاقی حس سے نوازا جن کی بدولت وہ خیر و شر، بھلائی و برائی اور حق و باطل میں امتیاز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَنَفْسٍ وَّ مَا سَوَّاھَا ہ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا﴾ "اور قسم ہے نفس (انسانی) کی اور اس ذات کی جس نے اسے درست کیا، پھر اس پر بدی اور پرہیزگاری کا الہام کیا۔" (الشّمس: ۷-۸)۔ نیز فرمایا: ﴿وَھَدَیْنٰہُ النَّجَدَیْنِ﴾ "ہم نے اس کو (خیر و شر) دونوں راستے بتادیے ہیں۔" (البلد: ۱۰)۔ خیر و شر کے ان دونوں راستے کا الہام انسان کی آزمائش کی خاطر ہے کہ وہ شکرگزاری کا پہلو اختیار کرتا ہے یا ناشکری کا؟ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَ إِمَّا کَفُورًا﴾  "ہم نے اسے راستہ دکھایا کہ یاتو وہ شکرگزار ہو یا ناشکرا بن جائے۔"  (الدّھْر: ۳)۔ یعنی درست ساخت، راست فطرت، علم و عقل اور اخلاقی حس کی نعمتوں کے ساتھ انسان کو اللہ رب العزت نے اختیار و ارادے کی نعمت سے بھی نوازا تاکہ وہ اپنی مرضی سے جو راہ چاہے اختیار کرے۔ اگر انسان اپنی عقل اور حق و باطل کی اس معرفت کو جو اللہ نے اس کی فطرت میں ودیعت کر رکھا ہے، صحیح طور پر استعمال کرے اور اپنے جذبات و خواہشات اور بشری کمزوریوں کو ان پر غالب نہ ہونے دے، تو راہ ہدایت کو پہچاننے اور اختیار کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اسی لیے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ "اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، یہی بالکل سیدھی راہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔" (الروم: ۳۰)۔ یعنی انسان کی فطرت میں یہ شعور رکھا گیا ہے کہ اس کا کوئی خالق و رب ہے اور وہی معبود اور مطاع حقیقی ہے، اگر وہ اس پر قائم رہے اور حق پرستی کے جذبے سے غور و فکر کرے توراہ ہدایت اس پر منکشف ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔

            ہدایت کا دوسرا درجہ ارشادی (instructional) و تشریعی (explanatory) ہے۔ یہ عقل و استدلال کے توسل سے وحی الٰہی کی روشنی میں کسی کو راہ دکھانے کا عمل ہے۔ اس سے راہ حق کی طرف وہ رہنمائی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کی ہدایات اور اس کی نازل کردہ کتابوں کے ذریعے ہر جن و انس کو پہنچتی ہے جسے قبول کرکے کوئی مومن و مسلم اور رد کرکے کوئی کافر ہوجاتا ہے۔ اسی معنی میں قرآن کریم کا اعلان ہے: ﴿وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ﴾  "ہر ایک قوم کے لیے ہادی ہوا کرتے ہیں۔" (الرعد: ۷)۔ نیز اسی معنی میں فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِأَمْرِنَا﴾ "اور ہم نے ان (بنی اسرائیل) میں سے ایسے پیشوا بنادیے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کیا کرتے تھے۔"  (السجدۃ:۲۴)۔ اس آیت سے یہ واضح ہوا کہ علماء ، فقہاء اور داعیان حق کی طرف سے کی گئی رہنمائی ہدایت کے اسی درجہ میں ہے۔ اور اسی معنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو  یوں مخاطب کیا گیا: ﴿وَإِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ یعنی "بے شک آپ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتے ہیں۔" (الشوریٰ: ۵۲)۔ اور اسی معنی میں آپؐ کے ہم عصر کفار و مشرکین کے تعلق سے یہ ارشاد فرمایا گیا: ﴿وَلَقَدْ جَآءَ ھُمْ مِنْ رَّبِّھِمُ الْھُدٰی﴾ "اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے۔"  (النجم: ۲۳)۔ نیز اسی درجہ کی ہدایت کے رد و قبول کے اختیار کو جس میں آزمائش کا پہلو شامل ہے، قرآن نے یوں پیش کیا ہے: ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ "آپ کہہ دیجیے کہ (یہ قرآن) حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔" (الکھف: ۲۹)۔ ہدایت کا یہ درجہ انسان و جنات کے لیے خاص ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان ہی دو مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کی نعمت سے نوازا ہے اور انھیں ارادے و اختیار کی آزادی بخشی ہے۔ وہ زندگی کے مختلف مسائل پر غور و خوض کرکے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے لے سکتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں لیکن اس راہ میں انھیں کچھ مغالطے درپیش ہوسکتے تھے نیز فطرت کے مقتضیات کو سمجھنے میں انھیں کچھ دشواری پیش آسکتی تھی، اس لیے اللہ رب العزت نے یہ کرم فرمایا کہ پیغمبروں، وحی اور کتب وصحائف کے نزول کے سلسلے کے ذریعے انھیں دور کرنے کا انتظام کردیا۔ اگر جن و انس اپنی عقل و فطرت سے بالکل انحراف نہ کرے اور مطلقاً سرکشی پر آمادہ نہ ہوجائے، تو ہدایت کے یہ ذرائع ان کے لیے کافی ہو جائیں گے۔

            ہدایت کا تیسرا درجہ توفیق الٰہی (divine grace) کے معنی میں ہے یعنی ایسے اسباب اور حالات کا پیدا کردینا کہ پیغمبروں اور داعیان حق کی دعوت و رہنمائی اور کتب الٰہی کی ہدایات کو قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہوجائے۔ یہ وہ ہدایت ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اس کی طرف سے بلاواسطہ جن و انس پر فائض ہوتی ہے اور اس کے قلب میں ایمان کا نور پیدا کرتی ہے۔ مومن یا کافر ہونے کا انحصار اسی ہدایت کے ملنے یا نہ ملنے پر موقوف ہے۔ یہی ہدایت انسان کے اندرونی تزکیہ اور روحانی اصلاح سے وابستہ ہے اور اسے تقویٰ، صبر و شکر، عدل و احسان اور عمل صالح کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ نیز یہی وہ ہدایت ہے جس کے سلسلے میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ یہ کسی عام داعی یا مصلح تو کیا، پیغمبروں کے بس میں بھی نہیں ہوتی۔ اسی معنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا: ﴿إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ﴾ "بے شک آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور ہدایت پانے والوں کو وہ خوب جانتا ہے۔" (القصص: ۵۶)۔ اس ہدایت کو سمجھنے میں عام لوگ غلطی کرتے ہیں۔ بعض اسے جبری نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور قرآن کے پیغام ﴿یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾کی جبری تعبیر کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اپنے قبضۂ قدرت اور اختیار کلی سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم کردیتا ہے بلکہ گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ اس نظریہ کی وجہ سے بعض گمراہ لوگ خود کو مجبور محض سمجھ کر یہ عذرپیش کرتے سنے جاتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں ہدایت نہیں دی تو اس عدم اطاعت میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی اطاعت شعاری کی راہ پر گامزن ہوتے اور متقی لوگوں میں شامل ہوتے۔ دوسری طرف بعض لوگ اسے معجزاتی اور کرامتی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے اختیارات اپنے خاص بندوں کو تفویض کردیتا ہے اور وہ جس کو چاہتے ہیں ہدایت دے دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے اس مصرعے "نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں"  کو کچھ لوگ اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں اور اسی نظریہ کے تحت اکبر الٰہ آبادی نے فرمایا:

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے                                                                                                                                                                                                                                                                                           کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

            حالاں کہ مذکورہ دونوں نظریہ جادۂ اعتدال سے دور ہے۔ خدا ئے تعالیٰ عادل ہے، یہ اس کے عدل کے خلاف ہے کہ وہ کسی شخص کو ہدایت یا گمراہی پر مجبور کرے، پھر اسے اس کی جزا یا سزا بھی دے۔ دوسری طرف اگر کسی کی نظر ونگاہ سے ہدایت مل جاتی اور تقدیریں بدل جایا کرتیں تو پیغمبروں بالخصوص امام الانبیاء کی نگاہوں سے زیادہ بابرکت اور پُر اثر نگاہ کس کی ہوسکتی تھی؟ آپؐ کی نگاہیں حضرت عمرؓ اور ابوجہل دونوں پر پڑیں بلکہ دونوں کے لیے آپ ؐنے دعائیں بھی کیں لیکن ہدایت حضرت عمرؓ کے حصے میں آئی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ابوجہل کو ہدایت نہیں دی تو وہ کیا کرے؟ حالاں کہ درست اور حق بات یہ ہے کہ ہدایت تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے لیکن اس نے اس کے لئے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن کے تحت وہ کسی کو اس سے نوازتا ہے اور کسی کو اس سے محروم رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْٓ إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ﴾ "اللہ تعالیٰ منتخب کرلیتا ہے اپنی طرف جس کو وہ چاہتا ہے، اور وہ اپنی طرف ہدایت دیتا ہے اس کو جو انابت اختیار کرتا ہے۔" (الشوریٰ:۱۳)۔ اس آیت میں ہدایت کے دو ضابطے بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا ضابطہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت اور اپنے قرب کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ ضابطہ فرشتوں اور انبیاء علیہم السلام کے طبقے کے لئے خاص ہے اور اس میں صرف اس کی عنایت کا دخل ہے۔ اسے دوسری جگہ یوں فرمایا: ﴿اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ﴾ "اللہ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والوں کو منتخب فرما لیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔"  (الحج: ۷۵)۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو فریضۂ رسالت کے لیے منتخب کرلیتا ہے تو اسے علم، ہدایت، حکمت، معرفت اور تقویٰ کے اعلیٰ مقام فائز کردیتا ہے۔

            توفیقی ہدایت کا دوسرا ضابطہ جو عام ہے، یہ بتایا گیا کہ ہدایت اسے ملتی ہے جو انابت اختیار کرتا ہے۔ اسی ضابطہ کو قرآن کریم نے دوسری جگہ یوں بیان کیاہے: ﴿قُلْ إِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْٓ إِلَیْہِ مَنْ أَنَابَ﴾  "آپ فرمائیے کہ بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور رہنمائی فرماتا ہے اپنی (بارگاہ کی) طرف اسے جو انابت اختیار کرتا ہے۔" (الرعد: ۲۷)۔ ایک اور جگہ یوں ارشاد ہے: ﴿وَ مَا یَتَذَکَّرُ إِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ﴾  "اور نصیحت نہیں قبول کرتا مگر وہی جو انابت اختیار کرتا ہے۔" (مومن: ۱۳)۔ 'انابت' کے معنی بار بار لوٹ کر آنے اور رجوع ہونے کے ہیں۔ مولانا محمد عبدالرشید نعمانی کے مطابق انابت الی اللّٰہ کے معنی اخلاص عمل اور دل سے اللہ کی طرف رجوع ہونے اور توبہ کرنے کے ہیں۔ ( لغات القرآن ، مکتبہ حسن سہیل، لاہور، ، جلد ۱، صفحہ۲۶۳)۔ امام راغب اصفہانیؒ نے لکھا ہے کہ "والإِنابۃُ إِلی اللّٰہ تعالی"  کا مطلب ہے: "الرُّجُوعُ إلیہ بالتَّوبۃِ وَ إخلاصِ العَمل"  یعنی"توبہ اور اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہونا"۔ (المفردات في غریب القرآن، الجزء الثاني، صفحہ۶۵۷)۔ اس طرح قاضی محمد ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ کے مطابق: "والإِنابۃ طلب التوفیق لإِصابۃ الحق فیما یأتي ویذر من اللّٰہ والاستعانۃ في مجامع الأمور والإِقبال علیہ بشر أشرہ" یعنی 'انابت' کے معنی ہے کہ کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے میں حق تک پہنچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرنا، تمام امور میں اس سے ہی مدد کا طلب گار رہنا اور کامل طور پر اس کی طرف متوجہ رہنا ہے۔ (تفسیر المظہري، دار احیاء التراث العربي، بیروت - لبنان، الطبعۃ الأولی ۲۰۰۴م، الجزء الرابع، صفحہ ۴۱۸)۔

            ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص حق کا متلاشی اور ہدایت کا طالب ہوتا ہے اور پہلے درجہ میں ملی ہدایت یعنی عقل و شعور کا صحیح استعمال کرکے دوسرے درجہ کی ہدایت یعنی انبیاء کرام علیہم السلام، داعیان حق اور کتب سماویہ کی رہنمائی و دعوت پر غور و فکر کرتا ہے اور جب حق اس پر واضح ہوجائے تو شرک و نافرمانی سے توبہ کرکے صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل جو شخص عقل و شعور اور حواس ظاہری کی ناقدری کرتا ہے اور ان کا صحیح استعمال نہیں کرتا، انبیاء کرام علیہم السلام، داعیان حق اور کتب سماویہ کی رہنمائی ودعوت پر غور و فکر نہیں کرتا یا حق کے واضح ہوجانے کے باوجود تسلیم و رضا اور رجوع و اطاعت کا پہلو اختیار نہیں کرتا بلکہ تکبر، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت سے نہیں نوازتا بلکہ گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات قلب پر مہر تک لگا دیتا ہے جس سے قبول حق کی صلاحیت اس کی ختم ہوجاتی ہے۔ قرآن میں اسی کو اللہ تعالیٰ کے ذریعہ گمراہ کرنا قرار دیا گیا ہے جو درحقیقت خود اس شخص کی ضد، اولاً اپنے اختیار سے گمراہی کو اپنانے اور اس پر اڑے رہنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ کو ہدایت اس لیے مل گئی کیوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت ان کو غلط اور خود کو صحیح راستے پر سمجھنے کی وجہ سے کررہے تھے لیکن جس لمحہ ان پر حق واضح ہوگیا اور انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، انہوں نے انابت کا پہلو اختیار کیا اور صدق دل سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع ہوگئے۔ ان کے بالمقابل ابوجہل کو ہدایت اس لیے نہیں ملی کیوں کہ اس پر یہ بات منکشف ہوچکی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  حق پر ہیں، اس کے باوجود اس نے تکبر کیا اور اپنی سرداری کے زعم میں حق کو قبول کرنے سے روگردانی کی۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دعوت اور دعا ہدایت کے نزول کے اسباب میں سے تو ہیں لیکن یہ مفید اسی کے حق میں ہوتی ہیں جو انابت اور اطاعت کا پہلو اختیار کرتا ہے۔

            ہدایت کا چوتھا درجہ مدارج قرب و رضا کی طرف رہنمائی کا ہے جو مومنین ، متقین اور ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے خاص ہے جس کی وسعت لامحدود اور درجات غیرمتناہی ہیں۔ یہی درجہ ایک مومن کی ترقی کا میدان ہے، مجاہدہ اور اعمال صالحہ کے ساتھ اس درجۂ ہدایت میں ترقی ہوتی جاتی ہے ۔ قرآن پاک کی متعدد آیات میں اس زیادتیِ ہدایت کا تذکرہ ہے۔مثلاً فرمایا: ﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ﴾ "اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے، وہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔" (التغابن: ۱۱)۔ اور فرمایا: ﴿وَیَزِیْدُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اہْتَدَوْا ہُدًی﴾ "اور جن لوگوں نے ہدایت پائی، اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت میں مزید اضافہ فرماتا ہے۔" (مریم:۷۶)۔ نیز فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّ اٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ﴾ ”وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔"  (محمد: ۱۷)۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ تقویٰ کی بنیادی اہلیت اپنی سعیِ مسلسل اوراطاعت گزاری کے ذریعہ انہوں نے اپنے اندر پیدا کرلی ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں یہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا﴾ "اور جن لوگوں نے ہماری خاطرمجاہدہ کیا ، ہم انھیں ضرور اپنی راہیں دکھادیں گے۔" (العنکبوت: ۶۹)۔ ہدایت خاصہ (specific guidance) کا یہی وہ درجہ ہے جس میں بڑے سے بڑا نبی و رسول اور ولی اللہ بھی اخیر عمر تک زیادتی توفیق اور مرتبہ اعلیٰ کا طالب نظر آتا ہے۔

ُٓ            ہدایت پانچویں درجہ میں قرآن کریم میں آخرت میں منزل مقصود یعنی جنت کی طرف رہنمائی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِإِیْمَانِہِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الأَنْہٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْم﴾ "یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے، ان کا رب انھیں ان کے ایمان کے سبب ایسے نعمتوں والے باغات کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔"  (یونس: ۹)۔ نیز فرمایا: ﴿سَیَہْدِیْہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ ہ وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ﴾ "وہ انھیں منزل مقصود تک پہنچادے گا ، اور ان کی حالت سنوار دے گا اور انھیں جنت میں داخل کرے گا جس کی انھیں خوب پہچان کرادی ہوگی۔"  (محمد: ۵-۶)۔ اسی طرح جنت میں پہنچ جانے کے بعد مومنوں کی شکرگزاری کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰـذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ أَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ﴾ "تمام تر شکر اللہ کا ہے جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔"  (الاعراف: ۴۳)۔

            اس طرح ہدایت قرآن کریم میں عقل و فطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے، حق کی طرف رہبری کرنے، ایمان و طاعت کی توفیق عطا کرنے، خدائے تعالیٰ کے مدارج قرب یا جنت کی طرف رہنمائی کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جو دراصل پانچ مختلف درجوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہر درجہ اپنے سے پہلے درجے کی ہدایت کی حصولیابی کو لازم کرتا ہے۔ جو پہلے ہی درجے کی ہدایت یعنی عقل و شعور کے جوہر سے محروم ہو، وہ شریعت کا مکلف ہی نہیں رہتا۔ لیکن جو پہلے درجے کی ہدایت سے بہرہ یاب ہو، وہ آگے کے مدارج ان ہی ضابطوں کے مطابق طے کرسکتا ہے جو سطور بالا میں بیان ہوئے جس میں اس کی طلب، نیت و ارادے اور سعی کا دخل ہوتا ہے۔ بے طلبوں، بے انصافوں، نفس پرستوں، متکبروں، سرکش نافرمانوں، ظالموں، حد سے تجاوز کرنے والوں، دنیا کے طالبوں، کفر و ضلالت کے خواست گاروں ، جھوٹے ناشکروں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیا کرتا جس کا اظہار قرآن مجید میں جابجا کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ ایسے لوگ ہدایت کے بنیادی ضابطے کی خلاف ورزی کررہے ہوتے ہیں۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، وہ اسے بے طلبوں اور ناقدروں کو نہیں دیا کرتا۔ اگر وہ ہدایت لوگوں پر تھوپ دے تو انسان کی جو آزمائش مقصود ہے ، اس کا کیا ہوگا؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا جو نظم قائم فرمایا ہے اور اس کی تقسیم کے جو ضابطے بنائے ہیں، وہ جن و انس کے تخلیقی منصوبے کے عین مطابق ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان ان ضابطوں کو سمجھے اور اپنی زندگی کو ان سے ہم آہنگ کرلے، ان شاء اللہ وہ ہدایت بھی پائے گا، حتمی کامیابی سے سرفراز بھی ہوگا، اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ کر اپنے رب کی رضا کا پروانہ بھی حاصل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان باتوں پر غور کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے۔ آمین!

٭ ٭ ٭ ٭ ٭




[Taqseem-e-Hidayat Ka Khudai Zabta Quran-e-Hakeem ki Roshni Mein, Pindar, Patna, Vol. 52, Issue No. 327, Wednesday, 03 December 2025, P. 07 & 11.]


Friday, 17 October 2025

𝐊𝐞𝐲𝐚 𝐒𝐡𝐚𝐝𝐢 𝐒𝐚𝐝𝐠𝐢 𝐒𝐞 𝐍𝐚𝐡𝐢 𝐇𝐨 𝐒𝐚𝐤𝐭𝐢

------------------------------------------

کیا شادی سادگی سے نہیں ہو سکتی ؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

            یوں تو احقر اپنے سن شعور سے ہی شادیوں میں دولت کی نمائش، بے جا اخراجات، تلک و جہیز کے مطالبات اور بارات کی رسم کا شدید مخالف رہا ہے لیکن وہ واقعہ جو اس تحریر کا سبب بنا سنہ۲۰۱۱ء کا ہے۔ بندہ حسب معمول جامع مسجد، فقیر باڑہ، پٹنہ جو شعبۂ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی کے قریب ہی واقع ہے، میں ظہر کی نمازادا کرنے گیا تھا۔ جیسے ہی فرض نماز ختم ہوئی ادھیڑ عمر کے ایک صاحب جو اپنی ظاہری ہیئت سے ہی بڑے مفلوک الحال نظر آرہے تھے،  وسط مسجد میں دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور نہایت ہی الحاح و زاری کے ساتھ چاروں طرف کے مصلّیان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بچی کی شادی میں مالی امداد کی درخواست کی۔ لڑکی کی شادی کے لیے امداد کی درخواست کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو میرے سامنے پیش آیا، آئے دن مسجدوں میں اس طرح کی درخواست کبھی کسی مفلوک الحال باپ کی طرف سے تو کبھی کسی غریب اور یتیم بھائی کی طرف سے سننے کو ملتی ہے لیکن اس دن درخواست کنندہ کی حالت اور ان کی درخواست کے انداز نے اس ناچیز کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔  مجھے نہیں معلوم کہ اور لوگوں کے دلوں پر کیا گزری لیکن میں یہی سوچتا رہا کہ ان نبیؐ کا امتی جنھوں نے لڑکیوں کو رحمت اور اس نکاح کو جس میں کم سے کم اخراجات کئے گئے ہوں، برکت والا نکاح بتایا، مسلم معاشرے کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے آج اپنی بیٹی کی خاطر بھرے مجمع میں کیسے ذلیل ہو رہا ہے؟ اس واقعہ کو ۱۴؍ سال گزر گئے لیکن وہ منظر آج بھی میری یاددں کے نہاں خانے میں محفوظ ہے جسے کسی بیٹی کا مفلس باپ یا بھائی اپنی اسی قسم کی درخواست سے اکثر تازہ کرجاتا ہے۔ اصلاح معاشرے کی تمام تر کوششوں جلسے جلوس، تحریر و تقریر کے باوجود حالات لگ بھگ جوں کا توں ہیں۔ آئے دن ہم کسی مسلم بیٹی کے نادار باپ یا بھائی کو لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوتے دیکھتے ہیں لیکن ہائے افسوس کہ اس کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں اور ہمارا ضمیر بیدار نہیں ہوتا!

            جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو کتنا آسان بنایا تھا لیکن غیروں سے متاثر ہوکرہم نے اپنے معاشرے میں ایسے رسومات داخل کرلیے جن کی وجہ سے نکاح مشکل ہو گیا۔ کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں میں اپنے سہاگ کا سپنا سجائے بوڑھی ہو رہی ہیں، زنا جیسی برائی مسلم معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں سے اوباش لڑکوں یہاں تک کہ غیر قوموں کے لڑکوں کے ہمراہ فرار ہورہی ہیں اور مرتد ہورہی ہیں، کتنی جسم فروشی کے دھندھوں میں پھنس رہی ہیں، کتنے گھرانے مقروض ہورہے ہیں اور کتنے سود کی لعنت میں گرفتار ہوکر تباہ و برباد ہو رہے ہیں لیکن ہماری آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ کیا تعلیم یافتہ اور کیا جاہل، کیا عالم اور کیا غیر عالم، کیا امیر اور کیا غریب اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں۔ ہمیں تو اپنا بینک بیلنس بڑھانا ہے، اپنے مکان کی تعمیر بھی کرنی ہے، اور اسے عیش و عشرت کے سامانوں سے مزیّن بھی کرنا ہے اور اپنی زندگی کے اور بھی بہت سے شوق و ارمان پورے کرنے ہیں لیکن یہ سب دوسرے یعنی بیٹی والے کے پیسے کے بل بوتے پر کرنے ہیں۔ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ پیسے کہاں سے آرہے ہیں؛ کسی کے قرض لی گئی رقم سے، سود کی رقم سے، رشوت خوری سے یا کمائی کے دیگر حرام ذرائع سے یا پھر عوامی چندہ اور بھیک کی رقم سے۔ لالچ اور جھوٹی شان کے مظاہرے کی آرزونے ہماری عقلوں کو بالکل ماؤف کردیا ہے۔

            یوں تو مسلم گھرانے کی شادیوں میں اب سوائے خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کے کچھ بھی اسلامی نہیں رہا لیکن بندہ کی نظر میں ان سے متعلق تین برائیاں نہایت ہی سنگین نوعیت کی ہیں جنہوں نے معاشرے کو تباہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ تین ہیں؛ تلک یعنی لڑکی والوں سے شادی کے نام پر موٹی رقم کا مطالبہ، جہیز یعنی ضروریات زندگی سے متعلق تمام اشیاء بلکہ یہ کہا جائے کہ عیش و عشرت کی تمام اشیاء کا لڑکی والوں سے مطالبہ یا ان کی امید رکھنا اوربارات لے کر جانا اور لڑکی والوں سے ان کی اعلیٰ سے اعلیٰ ضیافت کی توقع رکھنا۔ اول الذکر دو چیزوں کے پیچھے لالچ کار فرما ہے اور آخر الذکر کے پیچھے جھوٹی شان کا مظاہرہ۔ ان تینوں مطالبات یا  توقعات کو پورا کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہے اور یہی سارے فتنوں کی جڑ ہے۔

            جہاں تک تلک کا تعلق ہے اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ شریعت نے نکاح کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کی تمام تر ذ مہ داری مردوں پرڈالی ہے اور اسی کو ازدواجی زندگی میں مردوں کی قوامیت اور برتری کی بنیاد قرار دیا ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر ۳۴؂ اس امر پر شاہد ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَّ بِمَآ أَنفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ﴾۔ (ترجمہ) : " مردنگراں ہیں عورتوں پر اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔" چنانچہ مہر کی ادائیگی کو مرد کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے لیکن ہمارے معاشرے نے اس کا تعلق بھی طلاق سے قائم کردیا حتیٰ کہ بہت سے نوجوان تو مہر کی ادائیگی کی نیت بھی نہیں رکھتے اور اس طرح بعض روایات کے مطابق تاعمر زنا کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو یہ روایت ملاحظہ کیجیے: "قَالَ النَّبِیُّ ﷺ: مَنْ نَکَحَ امْرَأَۃً وَھُوَ یُرِیْدُ أَنْ یَذْہَبَ بِمَھْرِہَا فَھُوَ عِنْدَاللّٰہِ زَانٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ" (ترجمہ): "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کی نیت یہ تھی کہ اس (عورت) کا مہر اپنے پاس رکھے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن زنا کرنے والا شمار ہوگا۔" (المصنف لابن أبي شیبۃؒ، حدیث نمبر۱۷۶۸۸، نیز دیکھیں مجمع الزوائد و منبع الفوائد للھیثمیؒ، حدیث نمبر ۶۶۵۴)۔ اسی طرح ولیمہ کے اخراجات اوردلہن کا نان و نفقہ سب مردوں کے ذمے ہے۔ لیکن افسوس ہم لڑکی والوں کو ان کا حق کیا دیتے الٹا ان سے ہی وصول کرلیتے ہیں اور فرمان خدواندی ﴿وَلَا تَاْکُلُوٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۔ البقرۃ: ۱۸۸﴾ (ترجمہ: "اور تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ") کے تحت حرام خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور کچھ افراد تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ولیمہ بھی لڑکی والوں سے اینٹھی ہوئی رقم سے کرتے ہیں اور اس طرح اپنی حرام خوری میں اپنے تمام متعلقین کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔

            جہیز کے سلسلے میں بھی اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ حضرت فاطمہؓ کو دئے گئے چند سامان کو بنیاد بناکر لوگ جہیز کے لین دین کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ حضرت علیؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہی کفالت میں تھے اور ان کی خانگی ضروریات کی فکر کرنا آپؐ کے ہی ذمے تھا۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکمؒ، حدیث نمبر ۶۴۶۳)۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ انتظامات حضرت علیؓ کی رقم (۴۸۰؍ درم ) سے کئے جو انھوں نے اپنی زرہ بیچ کر مہر کے عوض میں آپؐ کے حوالہ کیا تھا ۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للھیثمیؒ، حدیث نمبر ۱۵۲۱۰، ۱۵۲۱۱)۔ اس لیے یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا، قطعاً غلط ہے ۔ اگر جہیز دینا شریعت میں درست ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مساوات کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی دوسری بیٹیوں کو بھی جہیز دیتے لیکن ایسا کسی روایت سے ثابت نہیں اور نہ ہی کسی روایت سے کسی صحابی کا اپنی بیٹی کو جہیز دیناثابت ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کئی نکاح کئے جن میں سے دو بیویاں حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ آپ کے دو جانثار صحابہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی(علی الترتیب) بیٹیاں تھیں، جو اپنے مال و دولت کو رسول پاکؐ کے قدموں پر نچھاور کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے لیکن کسی کا بھی اپنی بیٹی کو جہیز دیناثابت نہیں۔ اس لیے حضرت فاطمہؓ کے واقعہ کو جہیز کے لین دین کے لیے دلیل بنانا قطعاً درست نہیں۔

            دلہن کی رخصتی کے لیے بارات لے کر جانا بھی ایک غیر اسلامی تصور ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ یہ دوسرے کی جیب کے بل پر اپنی شان دکھانے کے مترادف ہے۔ لوگ صرف اپنی شان دکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں باراتی لے کر جاتے ہیں اور لڑکی والوں سے ان کی بہترین ضیافت کی توقع رکھتے ہیں بلکہ بعض کم ظرف تو کھانے کا مینو تک بتاتے ہیں۔ لڑکی والے طوعاً و کرہاً ان کے پرتکلف قیام و طعام کا نظم کرتے ہیں جس میں اچھی خاصی رقم کا صرفہ ہوتا ہے جس کا بوجھ لڑکی کے اولیاء کی جیب پر ہی پڑتا ہے۔ بعض دفعہ باراتیوں کی تعداد کو لے کرفریقین کے مابین تنازعہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مسلمان کے مال کو اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنے کو ناجائز بتایاہے، اس لیے لڑکی کے اولیاء کے دل میں بارات کی آمد یا باراتیوں کی تعداد کے سلسلے میں اگر ذرا بھی تنگی ہوئی تو باراتیوں کا وہاں کھانا پینا بھی حرام ٹھہرے گا (کیوں کہ سارا نظم بجبر و اکراہ ہی ہوگا)۔ اس طرح نہ صرف لڑکے کے اولیاء بلکہ ان کے وہ تمام متعلقین جو بارات کی شکل میں وہاں گئے ہوں، حرام کھانے کے مرتکب ہوں گے اور اس کی ذمہ داری بھی لڑکے کے اولیاء کے اوپرعائد ہوگی۔

            لیکن ان تمام باتوں کو ہم سمجھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جواز کے لیے طرح طرح کی دلیلیں لاتے ہیں۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے تلک یا جہیز کا مطالبہ تھوڑا ہی کیا ہے، یہ تو لڑکی والوں نے اپنی مرضی سے دیا ہے؟  کوئی لڑکی والا اپنی مرضی سے جہیز نہیں دیتا، یا تو اس خوف سے دیتا ہے کہ کبھی آگے چل کر لڑکی کو اس کی وجہ سے اذیت نہ دے یا پھر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دیتا ہے کہ نہیں دے گا تو سماج میں اس کی ناک کٹ جائے گی خواہ اسے اپنی زمین و جائداد بیچنی یا گروی رکھنی پڑے، قرض لینا پڑے، سودخوری، رشوت خوری اور حرام خوری کے دیگر ذرائع استعمال کرنا پڑیں، یا پھر چندہ کرنے اور بھیک مانگنے کی نوبت آجائے۔ کچھ افراد ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کے یہاں ان میں سے کچھ بھی نہ ہونے کا دعویٰ ہولیکن شان بازی اور ریاکاری سے وہ بھی خالی نہیں ہوسکتے۔ آخر یہ جہیز کی نمائش شادی کے موقع پر ہی کیوں ہوتی ہے؟ اگر جذبہ صادق ہو تو ساری عمر اپنی بیٹیوں کے ساتھ عنایت کا معاملہ کیا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے شادی کے بعد نہ تو نمائش ہوسکے گی اور نہ ہی شان میں اضافہ؟ پھر جب وراثت کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو وہی حضرات اپنی بیٹیوں کا حق دینے میں دائیں بائیں کرنے لگتے ہیں۔

             بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہر شخص شادی میں اپنی وسعت کے موافق خرچ کرے یعنی امیر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب اپنی وسعت کے مطابق؟ تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کی سماج کا نچلا اور متوسط طبقہ تو ہمیشہ سے اعلیٰ طبقہ کی نقل کرتا آیا ہے۔ نیچے طبقہ والے ان مفاسد کو بھی جو اونچے طبقہ کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں، اعلیٰ میعار زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور نفسیاتی طور پر ان کے حصول کو ہی اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ اس اعلیٰ طبقہ کو قرآن نے مُتْرَفِیْن کے لفظ سے ذکر کیا ہے اور اس بات کی گواہی بھی دی ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے جس نے تاریخ کے ہر دور میں انسانوں کی گمراہی میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اس لیے ملت کے سربرآوردہ اور خوشحال لوگ جب تک شادی میں سادگی کو نہیں اپنائیں گے تلک ، جہیز اور بارات کی یہ قبیح رسمیں ہمارے معاشرے سے جانے والی نہیں ہیں۔

            کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کی شادی میں جہیز دیا ہے تو پھر ہم کیو ں نہیں لیں گے؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ قتل کسی اور نے کیا اور قصاص کسی اور سے لیا جائے۔ اپنے نقصان کی تلافی دوسروں سے کرنے کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہے تو قیامت تک یہ رسومات ختم نہیں ہوسکتے اور اس اصول کو اگر دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی نافذ کیا جائے تو ساری زمین فساد سے بھر جائے گی۔ بارات کے سلسلے میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ لڑکی والوں نے بارات لانے کی فرمائش کی اس لیے ہم بارات لے جارہے ہیں۔ بلا شبہہ بعض لڑکی والے ایسا کرتے بھی ہیں لیکن ان کا مقصد بھی اپنی شان کا مظاہرہ ہی ہوتا ہے۔ ان جیسے لوگوں کو اگر دوسرے مواقع پر فی سبیل اللہ کچھ خرچ کرنے کو کہا جائے تو معاملہ چند سینکڑے یا ہزار سے آگے نہیں جاتا۔ اور بالفرض اگر مذکورہ تمام مفاسد نہ بھی ہوں، مثلاًلڑکی والے پوری خوش دلی اور نیک نیتی سے جہیز دیں اورباراتیوں کی ضیافت بھی کریں وغیرہ، جب بھی مسلم معاشرے پر اس کے جو اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ ہی ان امور کو لعنت کا مستحق ٹھہرانے کے لیے کافی ہیں۔

            اس لیے قوم و ملت کے اے غیرت مند نوجوانوں!  ذرا ترس کھاؤ اپنی ان نادار بہنوں پر جو نکاح کا سپنا سجائے بوڑھی ہو رہی ہیں اور آنکھیں کھول کر عبرت کی نگاہ سے شادی کے مروجہ رسوم کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کو دیکھو کہ شاید اللہ پاک دل میں اس دیوانے کی یہ باتیں اتار دے۔ شادی سادگی سے بھی ہوسکتی ہے۔ اُس موقع پر کی جانے والی دولت کی نمائش اور بے جا اخراجات کی مثال چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کے مانند ہے جسے کوئی صاحب عقل پسند نہیں کرتا۔ نیز تلک و جہیز کے نام پر ناجائز طریقے سے آیا ہوا مال اپنے ساتھ بے برکتی لاتا ہے اور دیرپا نہیں ہوتا۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو نکاح سنت طریقے پر مسجد میں کرو، دلہن کی رخصتی سادگی کے ساتھ کراؤ اور اپنے ولیمہ میں غریبوں کا بھی خیال رکھو۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید میں تمھاری یہ بہت ہی بڑی خدمت ہوگی۔ علامہ اقبال کے اس شعر کو اپنے فلسفہ زندگی کی بنیاد بناؤ :

؂                                مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

                    خودی نہ بیچ غریبی میں نام  پیدا کر

 اللہ پاک ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے۔ آمین!

٭٭٭٭٭



[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Roznama Tasdeeque, Patna, Vol. 16, Issue No. 275, Thursday, 16ٌ ْْOctober 2025, P. 05]



[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Roznama Jadeed Bharat, Patna, Vol. 05, Issue No. 277, Friday, 17 October 2025, P. 05; Ranchi Edition, Vol. 10, Issue No. 278, Friday, 17 October 2025, P. 05, Kolkata Edition, Vol. 05, Issue No. 275, Friday, 17 October 2025, P. 05.]


[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Daily Srinagar-e-Jang, Kashmir, Vol. 28, Issue No. 249, Saturday, 18 October 2025, P. 06]


[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Farooqui Tanzeem, Patna, Vol. 22, Issue No. 287, Monday, 20 October 2025, P. 07, Ranchi Edition, Vol. 42, Issue No. 280, Monday, 20 October 2025, P. 07, Delhi Edition, Vol. 21, Issue No. 282, Monday, 20 October 2025, P. 05.]

[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Weekly Pukar, Srinagar, Kashmir, Vol. 19, Issue No. 39, 20- 26 October, 2025, P. 05.]


[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Urdu Daily Siyasi Ufuque, New Delhi, Vol. 31, Issue 255, Saturday, 25 October 2025, P. 04.]