______________________________________
ڈاکٹر محمد واسع ظفر
[Imarat Shariah Ki Hifazat Kiyon Zaroori Hai?, Siyasi Taqdeer,
New Delhi, Vol. 15, Issue No. 320,
Tuesday, April, 29, 2025, P. 04.]
[Imarat Shariah Ki Hifazat Kiyon Zaroori Hai?, Aawami News, Kolkata Edition, Vol. 12,
Issue No. 115, Tuesday, April, 29, 2025, P. 07.]
[Imarat Shariah Ki Hifazat Kiyon Zaroori Hai?, Part-I, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 13, Issue No.
114, April, 29, 2025, P. 06.]
[Imarat Shariah Ki Hifazat Kiyon Zaroori Hai?, Part-II, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 13, Issue No.
115, April, 30, 2025, P. 06.]
----------------------------------------------------------------------------------------------
امارت شرعیہ کی حفاظت کیوں
ضروری ہے؟
ڈاکٹر محمد واسع ظفر
اسلام ایک مکمل نظام حیات
کا نام ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت پر قائم ہے۔ مکمل نظام حیات کہنے سے مراد یہ ہے
کہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں اسلام کی رہنمائی موجود نہ ہو۔ عام
طور پر لوگ اسے چند عقائد اور عبادات تک ہی محدود سمجھتے ہیں اور اپنی کم فہمی کی
وجہ سے زندگی کے دیگر امور میں خود کو اسلامی احکام کی بندشوں سے آزاد سمجھتے ہیں۔
قرآن و سنت پر عمیق نگاہ رکھنے والے افراد یہ جانتے ہیں کہ اسلام نے صرف عقائد و
عبادات میں ہی نہیں بلکہ معاملات، معاشرت، تعلیم و تربیت، اسباب معیشت مثلاً
زراعت، ملازمت، صنعت و حرفت و تجارت، حکومت و سیاست، نظام عدل و انصاف سارے ہی
شعبوں میں انسانیت کی رہنمائی کی ہے۔ قرآن حکیم نے مسلمانوں کو مکمل اور پورے
اسلام میں داخل ہونے یعنی کامل شریعت پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً
وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾
(ترجمہ): ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں
کی تابعداری نہ کرو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (سورۃ البقرۃ
: ۲۰۸)۔
یہودیوں کی مذمت قرآن میں یہ کہہ کر کی گئی ہے: ﴿أَفَتُؤْمِنُوْنَ
بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾
(ترجمہ): "کیا تم کتاب الٰہی کے بعض حصے پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار
کرتے ہو۔" (سورۃ البقرۃ : ۸۵)۔
اس لئے زندگی کے بعض
شعبوں میں اسلام کی پیروی کرنا اور بعض میں خود کو آزاد سمجھ کر اپنے نفس یا کسی
غیر اسلامی نظام یا روایات کی پیروی کرنا، دراصل اسلام کی بنیادی تعلیمات کے یکسر
خلاف ہے اور ایسا کرنے والا شخص خدا کی نظر میں کبھی کامل مسلمان شمار نہیں
ہوسکتا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں قائم کیا
جائے ۔ یہی حکم اللہ رب العزت نے پچھلے انبیاء کرام کو دیا اور یہی حکم جناب رسول
اللہ ﷺ اور ان کی امت کو بھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿شَرَعَ
لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَآ إِلَیْکَ
وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰٓی أَنْ أَقِیْمُوا
الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾ (ترجمہ): "اللہ
تعالیٰ نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کردیا ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح
کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے
ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھاکہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ
نہ ڈالنا۔ " (سورۃ الشّورٰی: ۱۳)۔ اسی طرح اللہ رب العزت
کا ارشاد ہے: ﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾
(ترجمہ): "اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ
ڈالو۔" (سورۃ آل عمران : ۱۰۳)۔
اللہ کی رسی سے بعضوں نے
کتاب اللہ اور بعضوں نے دین اسلام مراد لیا ہے۔ آیت کا مفہوم بہرحال سب نے یہی اخذ
کیا ہے کہ سارے مسلمان متحد ہوکر اللہ کے احکام کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے
سارے انفرادی و اجتماعی فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے
نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قرآن حکیم نے انہیں کافر، ظالم اور
فاسق جیسے القاب سے نوازا ہے۔ ﴿وَمَن لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ أَنزَلَ اللّٰہُ
فَأُوْلٰـئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ (ترجمہ): "جو لوگ اللہ
کے نازل کئے ہوئے حکم کے مطابق فیصلے نہ کریں، سو وہی لوگ کافر ہیں۔" (سورۃ المآئِدۃ:
۴۴)۔ سورۃ المائدہ کی آیت
نمبر ۴۵؍
اور ۴۷؍
میں بھی یہی فقرہ دہرایا گیا ہے جن میں"الْکٰفِرُوْنَ"
کی جگہ علی الترتیب "الظّٰلِمُوْنَ"
اور "الْفٰسِقُوْنَ" لایا گیا ہے۔ ان آیتوں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ
اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق انفرادی یا اجتماعی زندگی میں فیصلے نہ لینا
کتنا سنگین معاملہ ہے۔
یہی
نہیں ، جو لوگ نظام شرعی سے ہٹ کر کسی اور نظام سے فیصلہ لینے کے متلاشی ہوں، قرآن
کریم ان کی مذمت ان الفاظ میں کرتا ہے: ﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی
الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ أَنَّہُمْ آمَنُوْا بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَآ
أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ أَنْ یَّتَحَاکَمُوْا إِلَی الطَّاغُوْتِ
وَقَدْ أُمِرُوْا أَنْ یَکْفُرُوْا بِہٖ ط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ أَنْ
یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا﴾ (ترجمہ): "کیا آپ
نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ یقینا وہ ایمان لائے اس
کلام پر جو آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیامگر چاہتے
یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالاں کہ
انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں، اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں
دور کی گمراہی میں ڈال دے۔" (سورۃ النسآء:
۶۰)۔ طاغوت کا مطلب ہوتا ہے
حق سے روکنے والا، سرکش، باغی، شیطان وغیرہ۔ درحقیقت ہر وہ شے طاغوت کے زمرے میں ہے جو اللہ
سے سرکشی اختیار کرے اور انسان کو احکام الٰہی کی تعمیل سے روک دے۔ یہاں بالخصوص
طاغوت سے مراد ہر وہ حاکم اور نظام عدالت ہے جو قانون شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرے۔
ایک مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ نظام شرعی کو چھوڑ کر طاغوتی نظام کے
پاس اپنے مقدمات فیصلہ کرانے کے لئے لے جائے، اس آیت میں اسے ایمان کے منافی اور
گمراہی کا راستہ بتایا گیا ہے۔
اجتماعی امور جن کی نوعیت
سیاسی، حربی، انتظامی یا تدبیری ہو اور جن کا حکم قرآن و سنت میں سیدھے طور سے
مذکور نہ ہو ، ان میں مسلمانوں کو مشاورت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ عزوجل نے اپنے
حبیبؐ کو اس بات کی ہدایت دی جو قرآن حکیم میں یوں درج ہے:"وَ
شَاوِرْھُمْ فِی الأَمْرُ" (ترجمہ): "اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا
کریں۔" (سورۃ آل عمران: ۱۵۹)۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ اہم امور میں اہتمام کے ساتھ صحابہ کرام
سے مشورے کیا کرتے تھے۔ آپؐ کے اس اہتمام میں صحابہ کرام کی تربیت کا پہلو بھی
شامل تھا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے عبرت انگیز عملی پیغام بھی۔ پھر
اللہ رب العزت نے اس خصلت کو لے کر صحابہ کرام کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی: "وَ أَمْرُھُمْ
شُوْرٰی بَیْنَھُمْ" (ترجمہ): "ان کا
کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔" (سورۃ الشورٰی:
۳۸)۔ اس آیت سے یہ مترشح
ہوتا ہے کہ مشاورت اللہ رب العزت کے نزدیک ایک محبوب عمل ہے جسے مسلمانوں کو ہر
دور میں اختیار کرنا چاہیے۔
قرآن کریم کے مذکورہ بالا
احکام پر غور کیجئے تو آپ کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی،
نظم جماعت اور نظام خلافت یا امارت و قضا
کا قیام کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ ان کے بغیر بہت سے احکام شرعیہ کو سماج میں پوری
طرح نافذ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ
نے اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کوششیں کیں اور اس کو یقینی بنایا۔ ان کے بعد
خلفاء راشدین اور بعد کے خلفاء و ملوک نے اس کو قائم رکھا۔ اسی لئے حضرت عمرؓ نے
فرمایا: "یَا مَعْشَرَ الْعُرَیْبِ الْأَرْضَ الْأَرْضَ، إِنَّہ لَا إِسلَامَ
إِلَّا بِجَمَاعَۃٍ، وَلَا جَمَاعَۃَ إِلَّا بِإِمَارَۃٍ، وَ لَا إِمَارَۃَ إِلَّا
بِطَاعَۃٍ" یعنی اے عرب کی حقیر قوم! زمین کے ساتھ رہوکیوں
کہ جماعت کے بغیر اسلام کی کوئی حیثیت نہیں، اور امارت کے بغیر جماعت کی کوئی
حیثیت نہیں، اور اطاعت کے بغیر امارت کی کوئی حیثیت نہیں۔" (مسند الدارمی
المعروف بہ سنن الدارمی، دار ابن حزم ، بیروت، طبع اول ۲۰۰۲ء، حدیث نمبر ۲۵۷)۔
اللہ
کے رسول ﷺ نے امت کو یہی تعلیم دی ہے کہ تم جہاں
کہیں بھی رہو، ایک جماعت بن کر رہو، اور اپنے اوپر کسی ایک کو امیر متعین کرلو۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: "وَلَا یَحِلُّ لِثَلَاثَۃِ نَفَرٍ یَکُونُونَ
بأَرْضِ فَلَاۃٍ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَیْھِمْ أَحَدَھُمْ" "اور
حلال نہیں تین افراد کاکسی اجنبی علاقے (صحرا) میں رہناجب تک اپنے اوپر کسی ایک کو
امیر مقرر نہ کرلیں۔" (مسند الامام
احمدؒ، بیت الافکار الدولیہ، ریاض، ۱۹۹۸ء،
حدیث نمبر ۶۶۴۷)۔
اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: "إِذَا خَرَجَ
ثَلَاثَۃٌ فِي سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوا أَحَدَھُمْ"
"جب تین افراد سفر پر نکلیں تو چاہیے کہ ایک کو اپنا امیر مقرر کرلیں۔" (سنن ابی داؤدؒ، حدیث نمبر ۲۶۰۸)۔ یہ بھی منقول ہے کہ آپؐ
نے ارشاد فرمایا: "مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا یَنَامَ نَوْمًا وَ لَا یُصْبِحَ
صَبَاحًا وَلَا یُمْسِيَ مَسَاءً إِلَّا وَ عَلَیْہِ أَمِیْرٌ"
"جو شخص اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ کوئی نیند ایسی نہ سوئے، کوئی صبح اور
شام ایسی نہ کرے جس میں اس پر کوئی امیر نہ ہو تو وہ ایسا ضرور کرے۔" (مسند
الامام احمدؒ، حدیث نمبر ۱۱۲۶۷،
بروایت ابو سعید خدریؓ)۔
ان احادیث سے آپ سمجھ
سکتے ہیں کہ اسلام میں نظم جماعت اور نصب امام یا امیر کو کتنی اہمیت دی گئی ہے؟
اسلامی عبادات پر بھی غور کیجئے تو ان میں آپ کو نظم جماعت کا درس ملے گا۔ فرض
نمازیں ہمیں دن میں پانچ بار محلے کے اعتبار سے اجتماعیت قائم کرنے کا درس دیتی
ہیں۔ اسی طرح جمعہ ہفتہ میں ایک بار قصبے یا علاقے کے اعتبار سے، عیدین کی نمازیں
شہر کے اعتبار سے اور حج پورے عالم اسلام کے اعتبار سے اجتماعیت قائم کرنے کا
ذریعہ ہیں۔ روزے میں اجتماعیت کو باقی رکھنے کے لئے ہی ایک مہینہ کو خاص کیا گیا
ہے ورنہ سال میں ایک ماہ روزہ رکھنے کا حکم اپنی سہولت کے اعتبار سے بھی دیا
جاسکتا تھا۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا نظام بھی ایک اجتماعی نظام ہے، بیت المال کا قیام
اور تحصیل زکوٰۃ و صدقات کا حق بھی امیر شریعت ہی کو حاصل ہے جو بدقسمتی سے ہمارے
دیار میں بڑی بدنظمی کا شکار ہے۔ الغرض نظام شرعی کا قیام اور نصب امام یا امیر ہر
زاویہ سے مطلوب ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو ایک مرکز اسلامی سے وابستہ کرنا، انہیں
متحد رکھنا اور ہر شعبے میں دین کو قائم کرنا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب منتخب امیر
کی ہر جائز امر میں اطاعت کی جائے۔
اس لئے امیر کی بات کو
سننا اور اس کے احکام و فرامین کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب کیا گیا ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْٓا أَطِیْعُوا
اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکُمْ﴾
(ترجمہ): " اے ایمان والو! ا طاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان
لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔" (سورۃ النسآء:۵۹)۔ اس سلسلے میں رسول اللہ
ﷺ
کا فرمان ہے: "مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ، وَ مَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی
اللّٰہَ، وَ مَنْ یُطِعِ الْأَمِیْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَ مَنْ یَعْصِ
الْأَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِي" "جس نے میری
اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی
نافرمانی کی، اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی
نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔" (صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۲۹۵۷)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: "مَنْ خَرَجَ مِنَ
الطَّاعَۃِ، وَ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ، ثُمَّ مَاتَ، مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً"
"جو شخص (مسلمانوں کے امیر کی) اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہوگیا، پھر
مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔" (صحیح مسلمؒ، حدیث نمبر ۴۷۸۸، بروایت ابوہریرہؓ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ خَرَجَ
مِنَ الْجَمَاعَۃِ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الإِسْلَامِ مِنْ
عُنُقِہِ حَتّٰی یُرَاجِعَہٗ" وَ قَالَ: "وَمَنْ مَّاتَ وَ لَیْسَ
عَلَیْہِ إِمَامُ جَمَاعَۃٍ، فَإِنَّ مَوتَتَہٗ مَوْتَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ"
"جو مسلمانوں کی جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا، اس نے اپنے گلے سے اسلام کا
پٹہ اتار دیا جب تک کہ وہ واپس نہ لوٹ آئے، اور فرمایا: جو شخص اس حالت میں مرے کہ وہ کسی امامِ جماعت
کی پیروی میں نہ ہو، تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔" (المستدرک علی الصحیحین للحاکمؒ، دار الکتب
العلمیہ، بیروت، طبع دوم ۲۰۰۲ء،
حدیث نمبر ۲۵۹،
بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔
یہ وہ بنیادی اصولی باتیں
ہیں جن کو قلمبند کرنا امارت شرعیہ کے قیام، اس کی اہمیت و افادیت، اور اس کے
استحکام و بقا کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے
لازمی تھا۔ جب تک اسلامی نظام خلافت یا بادشاہت قائم تھا، امارت کے سارے کام مرکزی
سطح سے انجام پاتے تھے اور علاقائی امیروں یا حاکموں کا تقرر بھی خلیفۃ المسلمین،
بادشاہ یا امیر اعظم کی طرف سے ہی ہوا کرتا تھا لیکن جب خلافت و بادشاہت ختم ہوگئی
اور مسلمان محکوم ہوگئے تو ضرورت پڑی کہ ملکی یا علاقائی طور پر امارت شرعیہ کا
قیام ہواور مسلمانوں کے ذی شعور افراد کسی شخص کو بہ اتفاق رائے یا بہ کثرت رائے
امیر منتخب کرلیں۔ ہندوستان میں یہی صورت حال اس وقت درپیش ہوئی جب مغلوں کے
اقتدار کا خاتمہ ہوا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط یہاں قائم ہوگیا۔ اس وقت شاہ
عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے یہ فتویٰ دیا کہ آج کے حالات میں مسلمانوں پر یہ واجب ہے
کہ وہ کسی ایک شخص کو امیر متعین کرکے اپنی شیرازہ بندی کریں اور جن احکام شرعیہ
پر عمل ان کے استطاعت میں ہو، انہیں اپنے اوپر نافذ کریں۔ ان کے معاصر اور بعد کے
بہت سے علماء نے اس نظریہ کی تائید کی اور مرکزی طور پر امارت اسلامی کا قیام بھی
عمل میں آیا جس کے امیر علی الترتیب سید احمدشہید رائے بریلویؒ، حاجی امداد اللہ
مہاجر مکیؒ اور مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ مقرر ہوئے لیکن اس تحریک کی نوعیت
انقلابی ہونے کی وجہ سے، اور کچھ اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی عیاریوں کی وجہ
سے بظاہر بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ لیکن قیام امارت اور نصب امیر کی یہ فکر باقی رہی جس
کی آبیاری کرنے والوں میں مولانا محمد سجادؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مفتی کفایت
اللہ دہلویؒ، مولانا احمد سعید دہلویؒ، مولانا عبدالحلیم صدیقیؒ، مولانا ابوالکلام
آزادؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا محمد علی مونگیریؒ، مولانا سید شاہ بدر
الدین قادریؒ جیسے جید علماء شامل تھے۔ سنہ ۱۹۱۹ء میں تنظیمی اور آئینی
اعتبار سے امارت شرعیہ فی الہند کے قیام کی تجویز منظر عام پر آئی لیکن بعض وجوہات
کی بناپر کل ہندامارت شرعیہ کا قیام عمل میں نہیں آسکا تو صوبائی سطح پر اس کے
قیام کی کوششیں کی گئیں اور بالآخر ۲۶؍
جون ۱۹۲۱ء
کو امارت شرعیہ (بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ) کا قیام عمل میں آیا اور مولانا سید شاہ بدر
الدین قادریؒ اتفاق رائے سے امیر اول منتخب ہوئے۔
اس طرح علماء سلف کی کتنی
مشقتوں اور قربانیوں سے نہایت عظیم مقاصد کے تحت یہ ملی و مرکزی ادارہ وجود میں آیا
جس کی بنیادوں کو ہلانے پر آج کچھ لوگ آمادہ ہیں۔ حالیہ تنازعہ ۲۹؍ مارچ ۲۰۲۵ء کو منظر عام پر آیا جب
کچھ لوگ جنہیں سیاسی افراد کی پشت پناہی حاصل تھی ، پولیس کے ساتھ امارت شرعیہ کے
دفتر میں داخل ہوئے، کسی نے خود کو امیر تو کسی نے خود کو ناظم اعلیٰ ہونے کا دعویٰ
پیش کیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ایسا امارت شرعیہ اور دیگر ملی تنظیموں کے ذریعے
وقف ترمیمی بل کے مسئلہ پر ایک حکمراں جماعت کی افطار پارٹی کے بائیکاٹ کے ردعمل
میں ہوا اور حکمراں جماعت یہ چاہتی ہے کہ اس کی پشت پناہی والے اشخاص امارت کے
عہدوں پر فائز ہوں تاکہ مستقبل میں اس ادارے کی طرف سے کسی قسم کے چیلنج کا سامنا
نہ کرنا پڑے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ ساری سازشیں اور ان کا عملی مظاہرہ رمضان
المبارک کے آخری عشرے میں ہوا۔ مقامی لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے اُس وقت تو معاملہ
کسی طرح ٹل گیا لیکن یہ قضیہ ختم نہیں ہوا اور اس کے تھانہ اور کورٹ تک جانے کی
نوبت آگئی۔ جس ادارے کے زیر نگرانی دارالقضا چل رہا ہو اور جس کے قیام کا مقصد
طاغوتی نظام سے بچ کر شرعی نظام کے تحت لوگوں کی رہنمائی اورفیصلے کرنا ہو، خود اس
کا معاملہ طاغوتی نظام کے پاس پہنچ گیا۔ اس سے زیادہ شرمناک اور افسوسناک کچھ بھی
نہیں ہوسکتا!
حیرت
و استعجاب کی بات یہ ہے کہ موجودہ امیر شریعت جناب احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کو
منتخب کرانے میں جن لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا یہاں تک کہ مجلس ارباب حل و عقد
میں بھی خرد بردکے الزامات لگے، آج ان میں سے ہی کچھ لوگ ان کو ہٹانے کی سازشیں رچ
رہے ہیں اور ان پر الزام تراشیاں کررہے ہیں۔ کیا اِن لوگوں کو اُس وقت موجودہ امیر
کی علمی لیاقت اور ان کے کردار کے بارے میں نہیں پتا تھا جن کا انکشاف آج یہ کر
رہے ہیں؟ اگر اِن کو پتا تھا اور معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ آج یہ بیان کر رہے ہیں
تو اس وقت ان کی امیدواری کو مضبوط کر کے اِن لوگوں نے ملت اسلامیہ کے ساتھ خیانت
کیوں کی اور اگر اِن کو اس وقت علم نہیں تھا تو بھی یہ مجرم ہیں کہ ہیں جس شخص کی
علمی لیاقت، فقاہت اور کردار کے بارے میں یہ وثوق سے کچھ نہیں جانتے تھے، آخر ان
کی حمایت کس بنیاد پر کی ؟ اور اگر معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا یہ لوگ بیان کر رہے
ہیں تو یہ بہتان تراشی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اِن کے یا تو امیر شریعت سے کچھ
مفاد وابستہ تھے جو پورے نہیں ہوئے یا کسی طمع یا خوف کے غلبے میں یہ لوگ حکومت کے
آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ جن کے دعوے امیر شریعت اور ناظم اعلیٰ کے لئے
پیش کئے جارہے ہیں، خود ان کے دامن الزامات سے کہاں پاک ہیں؟ ان کے اوپر خیانت،
خرد برد اور مختلف قسم کے ناقابل بیان الزامات ہیں، انہیں ملت اسلامیہ کیسے ان
مناصب جلیلہ پر قبول کرسکتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ
امیر شریعت کے انتخاب کے وقت جو طریقہ کار اپنایا گیا، جس طرح کی مہم چلائی گئی،
اور جو سازشیں رچی گئیں، وہ امارت کے تقدس کو پامال کرنے والی تھیں جن سے دین کی
سمجھ، ملی حمیت اور حساس طبیعت رکھنے والا ہر شخص دلگیر تھا۔ خود احقر بھی اس
مسئلے کو لے کر بہت رنجیدہ تھا حالاں کہ وہ نہ تو امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا
رکن ہے، نہ مجلس عاملہ کا اور نہ ہی ارباب حل و عقد میں شامل ہے، اور نہ ہی شامل
ہونے کی کوئی خواہش رکھتاہے البتہ ملی حمیت اور حساس طبیعت ضرور رکھتا ہے جس کی
وجہ سے یہ سب لکھنے پر مجبور ہے۔ رنجیدگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ احقر کسی
بھی ملی ادارے میں موروثیت کے غلبے کو ادارے کی بربادی کا اہم ترین سبب سمجھتا ہے
جو کہ اس وقت بالکل عیاں تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود ایک بار جب انتخاب ہوگیا اور
معاملہ ختم ہوگیاتو احقر نے پھر کبھی اس پر لب کشائی نہیں کی جیسا کہ اسلامی اصول بھی
ہے۔ اب یہ لوگ انتخاب کے چار سال بعد مختلف قسم کے الزامات لگا کر اور ٹرسٹ کے
فیصلے کو بنیاد بنا کر امیر کو معزول کرنے کے درپے ہیں۔ ٹرسٹ کی حیثیت زیادہ سے
زیادہ مجلس عاملہ کی ہوسکتی ہے، جسے امیر کے نصب و عزل کا کوئی اختیار نہیں اور نہ
ہی مجلس شوریٰ کو ہے۔ یہ اختیار صرف مجلس ارباب حل و عقد کو ہے جو ۸۵۱ ؍افراد پر مشتمل ہے، اور
متعلقہ ریاستوں کے جمہور ملت کی نمائندگی کرتی ہے۔ ٹرسٹ یا مجلس عاملہ یا شوریٰ جن
کے ارکان کی تعداد محدود ہے، جمہور ملت کی نمائندگی نہیں کرسکتی، لہٰذا اسے امیر
کے نصب و عزل کااختیار بھی نہیں ہوسکتا!
کیایہ لوگ یہ بھی بھول
جاتے ہیں امیر کے سلسلے میں رسول اکرم ﷺ
کی کیا ہدایات ہیں؟ آپؐ نے تو امیر کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنے اور ان پر صبر
کرنے کی ہدایت دی ہے لیکن جماعت کے انتشار کو کبھی پسند نہیں فرمایا۔ حضرت عبداللہ
بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا : "مَنْ رَأَیٰ مِنْ أَمِیْرِہِ شَیْئًا یَکْرَہُہٗ، فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ،
فَإِنَّہٗ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا، فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیْتَۃً
جَاہِلِیَّۃً" یعنی "جس نے اپنے امیر میں کوئی ایسی بات
دیکھی جو اسے ناپسند ہو تو اسے چاہیے کہ اس پر صبر کرے کیوں کہ جس نے (مسلمانوں
کی) جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مرگیا تو وہ
جاہلیت (کفر) کی موت مرے گا۔" (صحیح
بخاریؒ، حدیث نمبر ۷۰۵۴) ۔
صحابہ کرام سے رسول اللہ ﷺ
نے جن باتوں کا عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی و ناگواری، تنگی اور
کشادگی، اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت و فرماں برداری کریں گے، اور یہ بھی کہ
صاحب امر کے ساتھ ان کے معاملے میں اس وقت تک جھگڑا نہیں کریں گے جب تک ان کو
اعلانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں۔ اگر وہ اعلانیہ کفر کریں تو تمھیں اللہ کے پاس سے
دلیل مل جائے گی۔ اس سلسلے میں عبادہ بن صامتؓ کی روایت ملاحظہ کیجئے جو اس طرح ہے: "دَعَانَا
النَّبِيُّ ﷺ فَبَایَعْنَاہُ، فَقَالَ فِیمَا أَخَذَ عَلَیْنَا أَنْ بَایَعَنَا
عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ، فِي مَنْشَطِنَا وَمَکْرَھِنَا، وَ عُسْرِنَا وَ
یُسْرِنَا وَ أَثَرَۃً عَلَیْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَھْلَہُ،
إِلَّا أَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا، عِنْدَکُمْ مِنَ اللّٰہِ فِیہِ بُرْھَانٌ"
(صحیح بخاریؒ،
حدیث نمبر ۷۰۵۵
اور ۷۰۵۶)۔
تو کیاامارت شرعیہ میں موجودہ شورش برپا کرنے والوں کو ایسی دلیل مل گئی ہے؟ جہاں
تک میں سمجھتا ہوں بالکل نہیں! یہ سراسر فتنہ انگیزی ہے جسے قرآن کریم نے قتل سے
بھی سخت قرار دیا ہے، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ امت اتفاق و اتحاد اور
اجتماعیت کی سخت محتاج ہے۔ اِس وقت تو امارت شرعیہ کو اور بھی مضبوط اور مستحکم
کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ عہدوں کے حرص میں اس کی بنیادیں کھودنے کی۔
مجھے سخت حیرت و استعجاب
ہے ان جید علماء کرام پر بھی جو عوام کے درمیان بڑے بڑے القاب کے ساتھ یاد کئے
جاتے ہیں؛ ان میں کوئی حکیم الاسلام ہے تو کوئی شیخ الاسلام، کوئی مفکر اسلام ہے
تو کوئی مفکر ملت، کوئی فقیہ العصر ہے تو کوئی مجدد ملت، کوئی امام الہند ہے تو
کوئی خطیب الہند وغیرہ لیکن سب کے سب اس مسئلہ میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،
الا ماشاء اللہ۔ یہی حال ملی اداروں کے اراکین اور سربراہان کا ہے جن میں سرفہرست
جمعیت علمائے ہند اور مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے۔ جماعت اسلامی، اہل حدیث اور بریلوی
مسلک والوں نے تو پہلے ہی اپنی راہ الگ کی ہوئی ہے اور اپنی امارتیں قائم کر رکھی
ہیں۔ کیا ان حضرات پر امارت شرعیہ کو بچانے کی کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا
یہ لوگ خدا کے حضور اس مسئلے پر جواب دہ نہیں ہوں گے کہ ایک ملی و مرکزی ادارہ
تباہ و برباد کیا جارہا تھا اور آپ خاموش تماشائی بنے رہے؟ کیا اس قضیہ کے فریقین
اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ ان میں سے کسی کی نہیں سنیں گے یا پردہ کے پیچھے کوئی اور
کھیل چل رہا ہے؟ احقر کی رائے میں ان تمام صاحب علم اور صاحب فہم و فراست افراد کو
جو اس معاملہ میں کچھ بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں، سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور اس
قضیہ کا حل تلاش کرنا چاہیے ۔
احقر کی اس سلسلے میں کچھ
تجاویز ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو ان کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔اول کسی بھی ایسے شخص
کو امیر یا ناظم کے عہدے پر فائز ہونے کے قابل نہ سمجھا جائے جو اس کا حریص ہو اور
خود یہ دعویٰ پیش کرے یا اس کے لئے مہم چلائے۔ رسول اللہ ﷺ
کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ آپؐ نے ایک موقع پر یہ ارشادفرمایا : "لَنْ، أَو:
لَا نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ"
"ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کرتے جو خود اس کا ارادہ رکھے۔"
(صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۶۹۲۳)۔ یہ کلمات آپؐ نے اس وقت
ادا کئے جب ایک صاحب نے عامل بنانے کے لئے آپؐ تک سفارش کروائی تھی۔ دوسری روایت
میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: "إِنَّا، وَاللّٰہِ! لَا نُوَلِّي عَلٰی ھٰذَا
الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَہُ، وَ لَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ"
"اللہ کی قسم ! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے جو اس کو
طلب کرے اور نہ ایسے شخص کو دیتے ہیں جو اس کا خواہش مند ہو۔" (صحیح مسلمؒ،
حدیث نمبر ۴۷۱۷)۔
امیر شریعت کے انتخاب کی تجاویز ارباب حل
و عقد کی طرف سے آنی چاہیے اور اسی پر بہ اتفاق رائے یا بہ کثرت رائے فیصلہ کیا
جانا چاہیے۔ آپؐ کی ہمیں یہ بھی ہدایت ملتی ہے کہ ایسی صورت میں جب ایک امیر کے
رہتے ہوئے دوسرے کئی افراد امیر ہونے کا دعویٰ کریں تو تم اسی امیر کی اطاعت کرو
جس کی بیعت اول ہو یعنی جو پہلے مقرر ہوا ہو۔ آپؐ کے الفاظ ہیں: "فُوا
بِبَیْعَۃِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، وَ أَعْطُوھُمْ حَقَّھُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ
سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاھُمْ"
"جس سے پہلے پہل بیعت کرو اسی کی بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو
اور اللہ خود ان سے سوال کرے گا ان ذمے داریوں کے متعلق جو اس نے انہیں دیا ہے۔"
(صحیح مسلمؒ، حدیث نمبر ۴۷۷۳ )
دوئم یہ کہ ہر عہدے کی
میعاد متعین کی جائے مثلاً تین سال یا پانچ سال، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اگر کسی
کے طریقہ کار یا رویہ میں کوئی خرابی سامنے آئے یا کوئی شر ظاہر ہو، تو اسے زیادہ
دنوں تک جھیلنا نہیں پڑے گا۔ میعاد پوری ہونے سے کم از کم تین مہینے قبل نئے سرے
سے انتخاب کا عمل شروع کردیا جائے تاکہ وقت پر ذمے داریوں کا تبادلہ ہوسکے۔ نیز یہ
بھی طے کیا جائے کہ کوئی شخص ایک عہدے پر ایک یا دو سے زیادہ مرتبہ فائز نہیں رہ
سکتا۔ ایسا نہیں ہونے کی وجہ سے چند افراد نے کئی کئی ملی اداروں پر قبضہ جمایا
ہوا ہے اور اسے ذاتی ملکیت کی طرح استعمال کرتے ہیں جب کہ بہت سے باصلاحیت، دیانت
دار اور مخلص علماء و دانشوران باہر سے اداروں کی بربادیوں کا تماشا دیکھ رہے ہوتے
ہیں، انہیں بھی خدمت کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ سوئم یہ کہ مجلس ارباب حل و
عقد میں کسی شخص کو شامل کرنے کے لئے شوریٰ کے ممبران کی اکثریت کی تائید ضروری
ہو، تاکہ کوئی اس کی ساخت کو من چاہے طور پر متاثر نہ کرسکے۔ چہارم یہ کہ مجلس
ارباب حل و عقد، مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے لئے ہر اس شخص کو نااہل قرار دیا
جائے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو۔ پنجم یہ کہ جب کسی شخص کو امارت شرعیہ یا
اس کے ذیلی اداروں میں سے کسی ایک کی ذمے داری سونپی جائے تو اسی وقت ان کی مالی
حیثیت کا اعلانیہ بھی ان سے جاری کروایا جائے جو امارت کے ریکارڈ کے علاوہ اس کے
ویب سائٹ پر بھی موجود ہو اور ان سے یہ حلف نامہ بھی لیاجائے کہ اس ادارے میں رہتے
ہوئے وہ کسی ذاتی ادارے کے قیام کی کوشش یا کسی دوسرے پرائیویٹ یا سرکاری ادارے کی
کسی انتظامیہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے لگے تو اسے بلا تاخیر
اس ادارے کی ذمے داریوں سے فارغ کردینا چاہیے۔ امت مسلمہ کے اندر ایسے افراد کی آج
بھی کمی نہیں جو یکسوئی اور دیانت داری کے ساتھ کسی دینی، تعلیمی یا رفاہی ادارے
کو چلا سکیں، بس ضرورت ہے ایسے افراد کو تلاش کر کے سامنے لانے کی۔ ان تجاویز کو
رو بہ عمل لانے کے لئے اگر دستور میں تبدیلی کرنے کی ضرورت پیش آئے تو مجلس ارباب
حل و عقد کا اجلاس بلاکر وہ بھی کیا جائے تاکہ فتنوں کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند
ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی التجا ہے کہ فریقین اور متعلقین کو صحیح سمجھ
عطاکرے، اس فتنہ کو ملت اسلامیہ سے دور کرے اور امارت شرعیہ کی ہر شر سے حفاظت
فرمائے۔ آمین! وما علینا الا البلاغ!
٭٭٭٭٭








