----------------------------------------------------------------------------------------------
(ملت کی بیٹیوں سے چند
باتیں)
ڈاکٹر
محمد واسع ظفر
ملت کی عزیز بیٹیو! ایک
غیور مسلمان، ایک غیرت مند باپ، ایک درد مند استاذ، ایک مبلغ دین اور خیرخواہ کی
حیثیت سے آج تم سے کچھ باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے۔ شاید تمھیں احساس ہو یا نہ ہو
کہ ایک طرف جہاں تم اپنے والدین کے جگر کا ٹکڑا، دل کا نور اور اللہ تعالیٰ کی عطا
کردہ عظیم نعمت ہو، وہیں دوسری طرف تم اسلامی معاشرے کی تعمیر و تہذیب کا ایک
بنیادی ستون بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں عزت و وقار اور پاکیزگی کے ساتھ پیدا
کیا ہے اور تمھیں ایمان کی نسبت عطا کی ہے۔ لہٰذا تمھاری ذمے داری ہے کہ اپنے
ایمان، عفت و کردار ، اور دین کی حفاظت کرو اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں
لاؤ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء
کے عین مطابق ہو۔ آج کے دور میں جہاں بہت سے فتنوں اور چیلنجوں کا سامنا ہے، ایک
باپ کے لئے سب سے بڑا خوف اپنی بیٹیوں کے ایمان، عفت اور عزت کے تحفظ کا ہے۔ ایک
نیا فتنہ "بھگوا لو ٹریپ" اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بین مذاہب شادی (Inter-Religious Marriage) کا
ابھر کر سامنے آیا ہے، جس میں دشمنان اسلام مختلف طریقوں سے مسلم بیٹیوں کو محبت
کے نام پر ورغلا کر دین سے دور کرنے اور مرتد بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہندو شدت
پسند تنظیمیں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، شری رام سینا، ہندو جاگرن منچ وغیرہ ایسی
مہم چلانے کاعلی الاعلان اعتراف کرتی رہی ہیں اور ایسے ہندو نوجوانوں کو جو مسلم
لڑکیوں کو "بھگوا لو ٹریپ" میں
پھنسا کر ہندو خاندانوں کا حصہ بنانے میں شریک ہوں، انعامات دینے کی بات کرتی رہی
ہیں۔ اس کھلے چیلنج کے باوجود ہماری بیٹیوں کے ان کے جال میں پھنسنے اور بعد ازاں
استحصال اور ظلم و زیادتی کی خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی
ہیں جو انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہیں۔ مذکورہ شدت پسند تنظیمیں وقتاً
فوقتاً اپنے مہم کی کامیابی کے ثبوت میں اعداد و شمار بھی جاری کرتی رہتی ہیں ۔ گو
آزاد اور معتبر ذرائع سے ان اعداد و شمارکی تصدیق نہیں ہوپاتی لیکن بہت سے واقعات
جو منظر عام پر آئے ہیں، ان کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری بیٹیوں کے مرتد
ہونے اور غیر مسلموں سے شادی کرنے کی خبر یں محض پروپیگنڈہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے
جس نے حساس والدین کی نیند اڑا کر رکھ دی ہے۔
پیاری بیٹیو! تمھیں اس
فتنے سے واقف اور خبردار ہونا چاہیے کیوں کہ تمہارا سابقہ اسکولوں، کالجوں، اور
پیشہ ورانہ کام کی جگہوں پر ایسے افراد سے ہوسکتا ہے جو تمھاری تعریفیں کرکے، رٹے
رٹائے ڈائیلاگ اور عشقیہ اشعار سنا کر تمھیں اپنے دام فریب میں پھنسانے کی کوشش
کریں گے، پھر تمھیں دینی و اخلاقی بنیادوں سے ہٹا کر ایک ایسے راستے پر ڈال دیں گے
جہاں تمہارا ایمان، تمھاری حیا ، عفت و عصمت اور شناخت سب کچھ مٹ جائے گا اور
تمہارے استحصال کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ ان سب کے نتیجے میں تمھارے
والدین بلکہ پورے خاندان کو سماج میں جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا تصور
کرکے ہی دل کانپ جاتا ہے۔ پھرمعاملہ یہیں تک نہیں رکے گا بلکہ تمھاری قوم کو بھی
اس رسوائی اور ذلت کے طعنے سننے پڑیں گے۔ پھر تمھاری عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ
کرکے جب تمھیں سڑکوں پر چھوڑ دیں گے تو تمھیں انصاف دلانے والا بھی کوئی نہیں
ہوگاکیوں کہ تم نہ صرف اپنے والدین اور خاندان بلکہ قوم و ملت کی ہمدردیاں بھی
اپنے کردار کی وجہ سے پہلے ہی کھو چکی ہوگی۔
اس لئے اے ہماری پیاری
بیٹیو! اپنی قدر و قیمت کو سمجھو۔ اللہ رب العزت نے جو سب سے قیمتی دولت تمھیں
بخشی ہے ، وہ ایمان کی دولت ہے۔ ایمان ہی وہ دولت ہے جس سے دنیا اور آخرت کی تمام
کامیابیاں وابستہ ہیں۔ ایمان اور عمل صالح ہی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں
حقیقی عزت، عافیت، دل کا چین و سکون، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت، اور اپنی مدد و
نصرت دینے اور آخرت میں جہنم سے بچاکر جنت میں جگہ دینے کا وعدہ کیا ہے جو کہ حتمی
کامیابی ہے۔ دنیا کی ساری کامیابیاں وقتی ہیں اور یہ دنیا خود ایک سراب کی مانند
ہے،اس کی چکاچوندھ میں پڑ کر اپنی آخرت کی زندگی سے غافل ہونا عقلمندی نہیں۔ یہ
یقین رکھو کہ اسلام ہی حق ہے، یہی دین فطرت ہے، اس کے مقابل جتنے بھی ادیان اور
فلسفہ حیات ہیں، سب کے سب لوگوں کے خود ساختہ، باطل اور خدا کے نزدیک مردود ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام جن کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم ہیں ، نے انسانیت سے جھوٹ نہیں بولا، ان کی ایک مستند تاریخ ہے، اللہ کی
کتابیں اور آثاران پر شاہد ہیں۔ انہوں نے دنیا اور آخرت کے سلسلے میں جو بھی خبریں
ہم تک پہنچائیں، وہ صد فی صد درست ہیں۔ اس لئے اپنے ایمان کو متزلزل نہ ہونے دو،
کفر اور شرک کا انجام حتمی ناکامی اور جہنم ہی ہے جو سامنے آکر رہے گا۔
شرک یعنی اللہ تعالیٰ کی
ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا یا اس کے جیسی صفات کا حامل سمجھنا قرآن کریم کی
نگاہ میں بڑا بھاری ظلم ہے جس کی معافی نہیں۔ قرآن نے یہ اعلان کردیا ہے: ﴿إِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہِ
وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ
ضَلٰلًا بَعِیْدًا﴾ (ترجمہ) "بے شک اللہ تعالیٰ اس
بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ، ہاں اس کے علاوہ
گناہ جس کے لئے چاہے گا وہ بخش دے گا، اور جس نے بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک
ٹھہرایا وہ گمراہی میں بہت ہی دور نکل گیا۔" (النساء:
۱۱۶)۔ آیت کا مفہوم بالکل
واضح ہے کہ شرک پرلے درجے کی گمراہی ہے اور اس کے ساتھ جو دنیا سے چلا گیا اس کی
کوئی معافی نہیں، اس کی ہلاکت بالکل طے شدہ ہے، ہاں جس نے شرک میں ملوث ہونے کے
بعد موت سے پہلے پہلے سچی توبہ کرلی، وحدانیت پر ایمان لے آیا اور اسلام کو پوری
طرح اپنا لیا تو اس کے مغفرت کی قوی امید ہے۔ اس لئے اے اسلام کی صاحبزادیوں! کبھی
شرک کے دلدل میں نہ پھنسنا۔ مشرک پلید، اللہ کا باغی اور نافرمان ہوتا ہے، اس سے
دوستی، محبت اور شادی ایمان کا نور رکھنے والیوں کو زیب نہیں دیتا۔ اس لئے اللہ رب
العزت کا فرمان ہے: ﴿وَلَا
تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط وَلَأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ
مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ ج وَلَا تُنکِحُوا الْمُشِرِکِیْنَ حَتّٰی
یُؤْمِنُوا ط وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ
وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْ ط أُوْلٰٓـئِکَ یَدْعُوْنَ إِلَی النَّارِ ج وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا إِلَی الْجَنَّۃِ
وَالْمَغْفِرَۃِ بِإِذْنِہِ ج وَیُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ
یَتَذَکَّرُوْنَ﴾ (ترجمہ) "اور مشرک عورتوں سے
نکاح نہ کرنا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں، یقینا ایک مومن لونڈی مشرک ( آزاد)
عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمھیں کیسی ہی بھلی کیوں نہ لگے اور (اسی طرح) مومن
عورتوں کو مشرک مردوں کی زوجیت میں نہ دینا جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں، یقینا
ایک مومن غلام مشرک (مرد) سے بہتر ہے خواہ وہ تمھیں کیسا ہی بھلا کیوں نہ لگے، یہ
لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف
بلاتا ہے اور اپنے احکام لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت
حاصل کریں ۔" (البقرۃ:
۲۲۱)۔
اس آیت نے یہ واضح کردیا
ہے کہ اہل ایمان اور اہل شرک کے درمیان ہونے والی بین المذاہب شادی درست نہیں، یہ
سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ دنیا کے حکام گو ایسی شادیوں کو قبول کرلیں اور اس کی
سند بھی جاری کردیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ قابل قبول نہیں۔ اگر کوئی مسلمان
ایسی شادی کے بعد اپنے ایمان پر رہ بھی جائے تب بھی اپنے شریک حیات کے مشرک ہونے
کی وجہ سے عمر بھر زنا کا مرتکب ہوتا رہے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے: ﴿لَا تَقْرَبُوا
الزِّنٰٓی إِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآءَ سَبِیْلًا﴾
(ترجمہ) "اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ یقینی طور پر بڑی بے
حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے۔" (بنی
اسرائیل: ۳۲) ۔ یہ آیت ہمیں نہ صرف اس گناہ سے بلکہ اس
کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ
تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ
کے تمام احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے فیصلے لیں۔ شادی تو بہرحال ایک
مقدس رشتہ ہے جسے دین، ایمان اور کردار کی بنیاد پر ہی استوار کیا جانا چاہیے۔
ایمان کے بعد تمہارا سب
سے قیمتی زیور حیا اور عفت ہی ہے جن کی حفاظت لازمی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "إِنَّ الْحَیَاءَ، وَالْعَفَافَ، وَالْعِيَّ،
عِيَّ اللِّسَاِن لاعِيَّ الْقَلْبِ، وَالْفِقْہَ مِنَ الإِیْمَانِ"
"بے شک حیا، عفت و پاکدامنی، بے بسی، زبان کی بے بسی نہ کہ دل کی بے بسی اور
فقہ (دین کی سمجھ بوجھ) ایمان سے تعلق رکھتی ہیں۔" (سلسلہ احادیث الصّحیحہ،
حدیث نمبر ۳۳۸۱)۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا: "الدُّنْیَا
مَتَاعٌ، وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ"
"دنیا ایک وقتی فائدے کی چیز ہے، اور دنیا کی سب سے بہتر چیز نیک عورت ہے۔"
(صحیح مسلمؒ،
حدیث نمبر ۳۶۴۹)۔
پیاری بیٹیو! تم مومنہ ہو، نیک ہو، پاکیزہ ہو، اسلام کی نمائندہ ہو، ایمان کا نور
تمہارے دلوں میں روشن ہے، اس لئے تمہارا کردار و عمل، تمہارا حجاب، تمھاری زبان، تمھارا
فیصلہ سب کچھ اسلام کی عزت کا عکس ہونا چاہیے۔ کیا چند لمحوں کی فریب زدہ محبت جس
کے پیچھے استحصال کا لامتناہی سلسلہ ہو، رسوائی ہو، آخرت کی ابدی ناکامی ہو، اس
قابل ہے کہ تمھیں اس دین سے جدا کردے جس نے تمھیں عزت، وقار اور عظمت عطا کی ہے۔
اس لئے تھوڑا سمجھ بوجھ سے کام لو اور اپنے فیصلے جذبات میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کرو۔ تمھاری عزت، تمہارا وقار، تمھاری حفاظت اور تمہارا سکون اسی نظام معاشرت میں
ہے جسے تم نے خدا نخواستہ فرسودہ سمجھ لیا ہے، تمہارے والدین تمہارے دشمن نہیں
ہوسکتے، وہ جو فیصلے تمہارے لئے لیں گے بہتر ہی لیں گے اور اب تو والدین بچوں کی
رضامندی کے بغیر کوئی فیصلہ لیتے بھی نہیں۔ والدین کے ذریعے کئے گئے نکاح میں
سماجی شناخت، سماجی تحفظ اور سماجی وقار سبھی پہلو شامل ہوتا ہے جو کہ کسی بھی
متبادل نظام میں میسر نہیں ہوسکتا ۔
اور یہ بھی جان لو کہ جسے
تم محبت اور پیار سمجھتی ہو وہ دراصل پیار نہیں ہوتا بلکہ صنف مخالف کی طرف ایک
فطری کشش ہوتی ہے اور یہ موقع ملنے پر کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔ اگر بدصورت سے
بدصورت لڑکی کے ساتھ کسی خوبصورت اسمارٹ لڑکے کو یا اس کے برعکس خوبصورت سے
خوبصورت لڑکی کو کسی بدصورت مرد کے ساتھ کچھ دنوں آزادانہ طور سے رہنے کا موقع مل
جائے، تو دونوں کو پیار ہوتا محسوس ہوگا بلکہ ہوجائے گا۔ ایسا کہنے سے میری غرض یہ
سمجھانا ہے کہ جنس مخالف کی یہ کشش ایک فطری عمل ہے لیکن اس سے مغلوب نہیں ہوجانا
چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غیر محرم مرد و زن کے باہم اختلاط کو ممنوع قرار
دیا ہے تاکہ فتنے کا دروازہ ہی نہ کھلنے پائے۔ پرسکون اور پرلطف زندگی گزارنے کے
لئے صحیح ہم سفرکا ہونا ضروری ہے جو ذمے داریوں کو بھی نبھائے، تحفظ کی گارنٹی بھی
لے اور آخرت کی تیاریوں میں بھی معاون بنے جو کہ آپسی مفاہمت کی شادی کے ذریعے ہی
ممکن ہے۔ اسی میں عزت ہے، اسی میں بھروسہ اور یقین ہے، اسی میں دل کا سکون ہے، اسی
میں سماجی تحفظ ہے اور اسی میں دین و آخرت بھی محفوظ ہے۔
اس لئے پیاری بیٹیو! اس
پیار و محبت کے چکر میں پڑکر اپنی تعلیم، اپنے کیریر، اپنے دین اور ایمان کا سودا
نہ کرو۔ والدین کی تم سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، ان کی امیدوں پر پانی مت
پھیرو۔ ایک وقت تھا کہ جب لڑکیوں کو ایک خاص عمر کے بعد اسکولوں یا کالجوں میں
بھیجنا معیوب سمجھاجاتا تھا، ملازمت تو کیا گھر سے باہر نکلنے تک کی اجازت نہیں
تھی، لیکن زمانہ بدلا، حالات بدلے اور تمھیں یہ سب حقوق ملے اور تمہارے والدین نے
تم پر اعتماد کرکے تمھیں اسکول، کالج یا کام کے دیگر جگہوں پر بھیجا، ایسے میں ان
کے بھروسے کو پامال نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اپنی بیٹیوں کے ایمان، عفت اور
عزت کی پامالی کے خوف سے انہیں اسکول اور کالج بھیجنا پھر سے بند کردیں جس کا سبب
تم بن جاؤ۔ ویسے بھی تعلیم کا مقصد خود سری، اور اپنی تہذیب و ثقافت سے بغاوت نہیں
ہوتا بلکہ بہت سے ماہرین تعلیم تو تعلیم کا مقصد ہی اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ،
اس کا فروغ اور نئی نسل کو اس کی منتقلی بتاتے ہیں۔ ایسے میں تمھاری یہ ذمے داری
بنتی ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا پرچم بلند کرو اور اپنے اخلاق و کردار سے اس
پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے دو۔
ان سب کے لئے یہ ضروری ہے
کہ قرآن اور اسلام سے تمہارا رشتہ مضبوط رہے۔ نمازوں کی پابندی، قرآن کریم کی
بامعنی تلاوت، اسلامی لٹریچر کا مطالعہ اور صالحین کی صحبت ہی تمھیں صراط مستقیم
پر گامزن رکھ سکتی ہے۔ فحش اور عشقیہ لٹریچر سے اجتناب کرو۔ دوستی صرف نیک سیرت
لڑکیوں سے رکھو کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: "الرَّجُلُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہِ،
فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلُ" "انسان
اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس
سے دوستی کررہا ہے؟" (سنن
ابو داؤدؒ، حدیث نمبر ۴۸۳۳)۔ اس لئے بدطینت لڑکیوں
سے دوری بناکر رکھنے میں ہی بھلائی ہے، بہت سی مسلم بچیاں ایسی سہیلیوں کے ذریعے
ہی غیرمسلموں کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ غیر محرموں بالخصوص غیر مسلم لڑکوں سے غیر
ضروری میل جول یا نجی گفتگو سے گریز کرو۔ پارٹی کلچر اور دیگر غیر اسلامی سرگرمیوں
سے بھی خود کو الگ رکھو، ان احتیاطی تدابیر سے بے حیائی کے کئی دروازے از خود بند
ہو جائیں گے۔ ان سب کے بعد بھی اگر کوئی تم سے غیر مناسب تعلق کی بات کرے، جذباتی
دباؤ ڈالے یا دھوکے سے قریب ہونے کی کوشش کرے، تو فوراًاپنے والدین یا سرپرست سے
رابطہ کرو۔ اپنے حدود کو بالکل واضح اور اپنی خودداری اور عزت کو ہمیشہ مقدم رکھو۔
ہر قسم کے لالچ سے دل کو پاک رکھو، کسی کے تحفہ تحائف قبول کرنے سے باز رہو کیوں
کہ آج کل کوئی بھی شخص کسی کو کوئی چیز بغیر کسی غرض کے نہیں دیتا، ایسا نہ ہو کہ
آگے چل کر تمھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے۔
ایک اور بات یہ کہ جہاں
بھی رہو دین کی مبلغہ بن کر رہو، لوگوں کو خیر کی طرف بلاؤ اور منکرات سے روکو، یہ
خیر پر جمے رہنے کی بہترین حکمت عملی ہے، جو داعی بن کر رہتا ہے وہ کبھی مدعو نہیں
ہوتا، دوسرے اس میں طمع کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنی سہیلیوں میں جس کو بھی بے راہ
روی کرتے دیکھو اسے پیار سے سمجھاؤ، اس کی صحیح رہنمائی کرو، اس سے تمھاری عزت میں
چار چاند لگ جائیں گے، پھر تمھیں ورغلانے کی کبھی کوئی کوشش بھی نہیں کرے گی۔ اور
آخری بات یہ کہ ساری تدبیریں تب ہی بار آور ہوسکتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کی تائید
اور نصرت شامل حال ہو۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، اس سے علم، ہدایت،
استقامت اور نصرت طلب کرو، وہی اصل محافظ ہے، اگر تمھاری طلب صادق ہوگی تو وہ
تمھاری مدد ضرور کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ باتیں تم کو بری نہیں لگیں گی،
اگر کسی وجہ سے بری بھی لگیں تو ایک خیرخواہ سمجھ کر معاف کردینا۔ اللہ تمھیں اپنے
حفظ و امان میں رکھے اور دونوں جہان کی کامیابیوں سے سرفراز کرے۔ آمین! یا رب العالمین! وما علینا الا البلاغ!
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
[Apney Iman Aur Iffat ki Hifazat Kijiye – Millat ki
Betiyon se Chund Batein, Daily Srinagar-e-Jang, Kashmir, Vol. 28, Issue
No. 139, Thursday, June, 12, 2025, P. 06.]
[Apney Iman Aur Iffat ki Hifazat Kijiye – Millat ki
Betiyon se Chund Batein, Daily Jamhuriyat Times, Ranchi,
Vol. 16, Issue No. 104, Thursday, June, 12, 2025, P. 05.]
[Apney Iman Aur Iffat ki Hifazat Kijiye – Millat ki
Betiyon se Chund Batein, Pindar Urdu Daily, Patna, Vol. 52, Issue No. 157,
Thursday, June, 12, 2025, P. 07 & 11.]
[Apney Iman Aur Iffat ki Hifazat Kijiye – Millat ki
Betiyon se Chund Batein, Qaumi Tanzeem Urdu Daily, Patna, Vol. 57,
Issue No. 158, Friday, June, 13, 2025, P. 06.]




