Wednesday, 3 September 2025

𝐌𝐚𝐬𝐭𝐞𝐫 𝐌𝐨𝐡𝐝. 𝐒𝐮𝐥𝐭𝐚𝐧 𝐀𝐡𝐦𝐚𝐝-𝐌𝐞𝐫𝐞 𝐌𝐨𝐡𝐬𝐢𝐧 𝐌𝐞𝐫𝐞 𝐌𝐮𝐫𝐚𝐛𝐛𝐢 (𝐘𝐚𝐮𝐦-𝐞-𝐀𝐬𝐚𝐭𝐳𝐚𝐡 𝐩𝐞𝐫 𝐀𝐩𝐧𝐞𝐲 𝐁𝐚𝐜𝐡𝐩𝐚𝐧 𝐤𝐞 𝐔𝐬𝐭𝐚𝐳 𝐤𝐨 𝐍𝐚𝐳𝐫𝐚𝐧𝐚-𝐞-𝐀𝐪𝐞𝐞𝐝𝐚𝐭)

 --------------------------------------------------------------------------

ماسٹر محمد سلطان احمد:  میرے محسن، میرے مربی

(یوم اساتذہ کے موقع پر اپنے بچپن کے استاذ کو نذرانۂ عقیدت)

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

                یوں تو احقر اپنے ان تمام اساتذہ کرام کا ہمہ تن احسان مند اور شکرگزار ہے جن سے اس نے اپنے علمی سفر میں کہیں بھی، کبھی بھی اور کچھ بھی استفادہ کیا ہے لیکن سب سے زیادہ اگر کسی ہستی کا ممنون و مشکور ہے تو وہ ذات گرامی ہے جناب ماسٹر محمد سلطان احمد صاحب بن عبدالغفار صاحب مرحوم، ساکن بکھری، تھانہ باجپٹی، ضلع سیتامڑھی کی۔ موصوف میرے بچپن کے استاذ ہیں اور انہوں نے ہی خاکسار کے تعلیم و تربیت کی گویا بنیاد ڈالی تھی۔ بندے کے پاس آج جو کچھ بھی علم ہے، بلامبالغہ وہ اسی بنیاد کی مرہون منت ہے۔ وہ میرے آبائی وطن بینی آباد، گاے گھاٹ، مظفر پور ، بہار کے اردو پرائمری اسکول میں استاذ تھے۔ والد مرحوم جناب ماسٹر محمد داؤد صاحب جو کہ خود بھی اُس وقت ہائی اسکول پرونچھا، گاے گھاٹ، مظفر پور میں انگریزی کے استاذ اور علاقے کے نامور سماجی شخصیات میں شامل تھے، نے انھیں ہم سب بھائی بہنوں پر بطور اتالیق مقرر کر رکھا تھا۔ وہ ہمارے گھر پر ہی قیام پذیر ہوا کرتے تھے۔ صبح و شام ہم سب کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری نبھاتے اور دن کے اوقات میں اپنے اسکول کی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے۔

            انہوں نے مجھے اردو، ہندی، انگریزی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم سے سرفراز کیا۔ انہوں نے ہی مجھے دین کی بنیادی باتیں سکھائیں، وضو کرنا اور نماز پڑھنا سکھایا، بچپن کی وہ بری عادتیں چھڑوائیں جو عام طور پربچے دوستوں کی صحبت کے زیر اثر سیکھ لیتے ہیں، بنیادی اخلاقیات کی بھی تعلیم دی اور خدا کا خوف ہمارے دلوں میں جاگزیں کیا۔ بچپن کی صحیح تعلیم و تربیت کا اثر کتنا دیرپا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس زمانے میں انہوں نے مجھے جو چند اوراد و وظائف سکھائے تھے، وہ آج بھی میرے معمولات زندگی کا حصہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ موصوف خود بھی صوم و صلوٰۃ کے نہایت پابند اور بہت سی اخلاقی صفات کے حامل تھے ۔ وہ ایک عرصے تک ہم سب کے ساتھ رہے لیکن کبھی کسی کو کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی ہمارے گھر کے نشیب و فراز کو کہیں بھی گفتگو یا تنقید کا موضوع بنایا۔

            یہ بات قابل ذکر ہے کہ بچپن کے لاابالی پن کا ایک دور وہ بھی تھا جب احقر تحصیل علم سے کوسوں دور بھاگتا تھا، والدہ مرحومہ نوکروں کے ذریعے کھیتوں اور میدانوں سے پکڑوا کر استاذ محترم کے حوالے کرتیں اور یہ بھی کچھ چھپانے کی بات نہیں کہ اس رسہ کشی میں کبھی طمانچوں تو کبھی چھڑیوں کے زخم بھی کھائے لیکن یہ کیفیت زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی بلکہ اللہ رب العزت نے جو دلوں کا پھیرنے والا ہے، اپنا کام کردیا۔ اُس نے احقر کے دل کو تحصیل علم کی طرف یوں پھیردیا کہ اس کے علاوہ اور کسی چیز کا نہ رکھا اور یہ بندہ اسکولوں، کالجوں اور پھر یونیورسٹیوں کا سفر کرتا ہوا آج بہار کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی ، پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیمات میں تدریسی و تحقیقی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اب جب کبھی ماضی کے حالات و واقعات پر نگاہ ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کبھی علم سے دور بھاگنے والا ایک ضدی اور سرکش بچہ اگر آج علم کا وکیل، محافظ اور مبلغ بن کر کھڑا ہے تو یقینا یہ اس کے والدین، بزرگوں اور بچپن کے استاذ کی اٹھائی ہوئی مشقتوں اور دعاؤں کا ہی ثمرہ ہے۔ عموماً لوگ بچپن کے اساتذۂ کرام کی خدمات کا اُس درجے میں اعتراف نہیں کرتے جتنا وہ اپنے اعلیٰ تعلیم سے وابستہ اساتذۂ کرام کا کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بچپن کے استاذ کی حیثیت ایک مجسمہ ساز کی ہوتی ہے جس کے تراشے ہوئے مجسمے پر بعد کے اساتذہ رنگ و روغن چڑھاتے ہیں۔ اس لیے احقر کو اس بات کا کھلے دل سے اعتراف ہے کہ اگر زندگی کے اُس ابتدائی مرحلے میں جناب ماسٹر محمد سلطان احمد صاحب جیسا شفیق اور مخلص استاذ نصیب نہ ہوا ہوتا تو شاید بندہ آج اس مقام پر نہ ہوتا جہاں ہے۔

            استاذ محترم جناب ماسٹر محمد سلطان احمد صاحب دامت برکاتہم کی پیدائش ۲۴؍ ستمبر ۱۹۴۵ء کو ان کے آبائی وطن بکھری، باجپٹی، آج کے ضلع سیتامڑھی، بہار میں ہوئی (واضح رہے کہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۷۲ء سے قبل سیتامڑھی، ضلع مظفرپور کا ہی حصہ تھا)۔ اُنہوں نے ابتدائی سے لے کر درجہ پانچ تک کی تعلیم بکھری پرائمری اسکول ، بکھری سے اور درجہ چھ سے درجہ آٹھ تک کی تعلیم مڈل اسکول مولانگر سے حاصل کی۔ نویں سے گیارہویں (میٹرک) تک کی تعلیم شری رگھوناتھ پرساد نوپانی ہائی اسکول، باجپٹی سے حاصل کی۔ سنہ ۱۹۶۴ء میں وہ میٹرک پاس ہوئے۔ اس کے بعد  شکچھک پرشکچھن مہاودیالے، دیگھی، حاجی پور، ویشالی جو اب ڈسٹرکٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ ، ویشالی کے نام سے جانا جاتا ہے، سے انہوں نے ۱۹۶۷ -۱۹۶۹ کے بیچ میں ڈپلوما اِن ایجوکیشن کا دوسالہ کورس کیا۔ ۲۲؍ فروری ۱۹۷۱ء کو ان کی تقرری بینی آباد اردو پرائمری اسکول میں ہوئی۔ تب سے سنہ ۱۹۷۹ء کے اوائل تک جب کہ میں درجہ آٹھ کا طالب علم تھا، وہ ہمارے ساتھ رہے۔ اس کے بعد ان کا تبادلہ پوپری اردو پرائمری اسکول، پوپری، سیتامڑھی میں ہوگیا اور وہ ہم لوگوں سے جدا ہوگئے لیکن دلی تعلق ہمارے درمیان قائم رہا۔ میں اسکولوں اور کالجوں سے گزرتا ہوا اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جا پہنچا لیکن اپنے استاذ محترم کو کبھی نہ بھولا۔ ایم ایڈ کورس (۱۹۹۳ - ۱۹۹۴ء) کے دوران جب مجھے پہلا تحقیقاتی مقالہ لکھنے کا موقع ملا جس کا عنوان تھا '' تعلیم کے فطری نظریے کا تنقیدی مطالعہ(A Critical Study of the Naturalistic View of Education)  '' تو اسے ان کی ہی نذر کیاجو آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیمات کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ ظاہر ہے کہ استاذ بزرگوار کو اس کی خبر بھی نہ تھی کہ ان کی خدمات کے نقوش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں بھی ثبت ہوچکے ہیں کیوں کہ ایک عرصے سے ان سے کوئی رابطہ قائم نہ رہ سکا تھا۔

            سنہ ۱۹۹۶ء میں میری تقرری پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیمات میں بحیثیت لکچرار ہوگئی۔ میرا دل ہمیشہ یہ چاہتا تھا کہ استاذ محترم کی خدمت میں حاضری دوں تاکہ انھیں معلوم ہوکہ ان کا لگایا ہوا پودا ایک ثمرآور درخت میں تبدیل ہوچکا ہے اور انھیں دلی مسرت و سکون حاصل ہو لیکن وقت اور حالات نے یہ ممکن نہیں ہونے دیا حالاں کہ کئی بار ذاتی طور پر سفر کی تیاریاں بھی کیں۔ یوں ہی زمانہ گزرتا رہا یہاں تک کہ میری ملاقات سنہ۲۰۱۸ء میں عزیزی سعادت حسین سلمہ سے ہوئی جو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے دربھنگہ کیمپس کے طالب علم تھے اور اپنے پی ایچ ڈی کے ریسرچ پروپوزل کی تیاری میں مدد کے خواہاں ہوکر میرے پاس تشریف لائے۔ تفتیش کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے جہاں استاذ محترم سکونت پذیر ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان کی ہر ممکن مدد کی اور ان کو یہ ذمے داری بھی سونپی کہ استاذ محترم کے احوال معلوم کرکے مجھے اطلاع دیں۔ انہوں نے بلاتاخیر نہ صرف ان کے احوال کی تفتیش کرکے مجھے آگاہ کیا بلکہ رابطہ نمبر بھی فراہم کردیا۔ بعد ازاں پہلی فرصت میں ان کے ساتھ ہی استاذ محترم کی خدمت میں حاضری کا پروگرام بنا اور بالآخر ۸؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو ان کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ اس دن ہماری خوشی اور جذبات کا جو عالم تھا اس کے گواہ عزیزم سعادت حسین سلمہ اور میرے برادر خالہ زاد قاضی محمد ثناء الحق صاحب ہیں جو اس سفر میں میرے ساتھ تھے۔ میں استاذ محترم کے ملاحظہ کی خاطر ایم ایڈ کورس کے دوران لکھا ہوا اپنا تحقیقی مقالہ اور اخبارات و رسائل میں شائع شدہ اپنے کئی مضامین کی کاپیاں بھی ساتھ لیتا گیا تھا جنھیں دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ گو اس ایک دن کی ملاقات میں دل کو وہ تشفی نہ حاصل ہوسکی جو مطلوب تھی لیکن ایسا لگا جیسے زندگی کا ایک بڑا قرض سر سے اتر گیا ہو۔

            اس کے بعد ان کی خدمت میں احقر کی دوسری حاضری ۳؍ مئی ۲۰۲۳ء کو ممکن ہوسکی۔ میرے برادر خالہ زاد قاضی محمد ثناء الحق صاحب جن کا تعلق اسی علاقے کے ایک موضع کمہرولی، کمتول سے ہے، اس بار بھی میرے ساتھ تھے۔ حاضری سے قبل میں نے استاذ محترم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لیے کوئی تکلف نہ کیجیے گا، ذہن میں یہ خیال تھا کہ ان کو میری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو کیوں کہ ان کے دونوں صاحب زادے بیرون ملک رہتے ہیں لیکن اپنے پوتوں کی مدد سے انہوں نے ہماری ضیافت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ تعلیم و تعلم کے شوق کا یہ عالم کہ اس وقت بھی اپنے گھر کے پاس کی مسجد میں چل رہے مکتب میں رضاکارانہ طور پر تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے جب کہ سنہ ۲۰۰۵ء میں ہی وہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے۔ انہوں نے بتایا کہ ۱۹۷۹ء میں بینی آباد سے پوپری اردو پرائمری اسکول ، پوپری میں تبادلہ کے بعد ان کا دوسرا تبادلہ دسمبر ۲۰۰۰ء میں مولانگر اردو مڈل اسکول ، مولانگر میں ہوا۔ اس کے بعد اردو پرائمری اسکول بھیمواں، سورسنڈ، سیتامڑھی بھیجے گئے جہاں انہوں نے یکم جنوری ۲۰۰۱ء سے مئی ۲۰۰۵ء تک خدمات انجام دیں۔ پھر جون ۲۰۰۵ء میں اردو مڈل اسکول، مداری پور، باجپٹی بھیج دیے گئے جہاں سے ۳۰؍ ستمبر ۲۰۰۵ء کو ان کی سبکدوشی ہوئی۔ اس سفر میں بھی میں ان کے لیے اپنے تازہ ترین مضامین کی شائع شدہ کاپیاں لے کر گیا تھا۔ جب انھیں پیش کیا تو انہوں نے سرہانے سے میری کتاب ''سیادت علم''  نکالی جس کی ہیئت یہ بتارہی تھی کہ وہ کئی بار پڑھی گئی ہے۔ میری یہ کتاب جنوری ۲۰۱۹ء میں شائع ہوئی جسے میں نے انھیں ڈاک کی معرفت ارسال کیا تھا۔ میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ میری ساری علمی کاوشوں کی اگر کوئی نیکی ہے تو اس میں آپ کا بھی وافر حصہ ہے، اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ ان سے دعاؤں کی درخواست کے ساتھ ہی احقر اسی دن دربھنگہ واپس ہوگیا اور پھر دوسرے دن پٹنہ آگیا تھا۔

            گذشتہ دنوں ان سے فون پر بات کی، احوال دریافت کیے اور مکتب کی تدریسی خدمات کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے یہ فرمایا کہ اب دیر تک بیٹھنے کی سکت باقی نہ رہی۔ میں نے ان سے یہی عرض کیا کہ جب تک آپ کے اندر استطاعت تھی، آپ علم کی ترویج و اشاعت کے لیے مسلسل کام کرتے رہے، عمر کے اس پڑاو پر اب آپ کے اوپر کوئی ذمے داری بھی نہیں بنتی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی گذشتہ خدمات کو ہی قبول کرلے اور انھیں آپ کے اخروی نجات کا ذریعہ بنادے۔ آمین!

            استاذ محترم کو اللہ رب العزت نے تین بیٹوں اور چار بچیوں سے نوازا۔ بڑے صاحب زادے محمد عرفان جو مقصود پور مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے، سنہ ۱۹۹۲ء کے بھیونڈی فساد میں پولیس کی گولی کا شکار ہوگئے جو یقینا ان کی زندگی کا ایک بڑا المیہ تھا جسے انھوں نے بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ دوسرے صاحب زادے محمد عمران صاحب ہیں جو کمتول ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرکے روزی کی تلاش میں دوبئی چلے گئے اور ان دنوں وہیں مقیم ہیں۔ تیسرے صاحب زادے محمد نعمان سلمہ نے گریجویشن کیا، کچھ دنوں اندرون ملک روزی کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے بعد وہ بھی دوبئی چلے گئے۔ صاحب زادیوں میں سب سے بڑی عبرانہ خاتون صاحبہ ہیں جو نان پور کے جناب محمد مدنی صاحب کے نکاح میں ہیں جو ان دنوں پونہ میں قیام پذیر ہیں اور ریڈی میڈ پوشاک کی تجارت سے منسلک ہیں۔ دوسری صاحب زادی رخسانہ خاتون صاحبہ ہیں جو اپنے گاؤں میں ہی جناب حسن رضا صاحب کی زوجیت میں تھیں جو سنہ ۲۰۲۳ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ تیسری مسرت خاتون صاحبہ ہیں جو مہیش استھان کے جناب حامد رضا صاحب کے نکاح میں ہیں۔ ان کی اورائی میں آنکھ کے اسپتال میں دوا کی دکان ہے۔ چوتھی صاحب زادی آمنہ خاتون صاحبہ ہیں جو کمما، سورسنڈ کے جناب عبدالخالق صاحب کے نکاح میں ہیں جو ان دنوں دوبئی میں مقیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ التجا ہے کہ وہ استاذ محترم کا سایہ دیر تک ہم سب کے سروں پر قائم رکھے اور ان کو صحت و عافیت سے نوازے۔ نیز ان کی نسلوں میں برکت عطا فرمائے اور علم و ہدات کا نور ان میں جاری و ساری رکھے۔ آمین!

٭ ٭ ٭ ٭ ٭



𝐀𝐫𝐭𝐢𝐜𝐥𝐞: "𝐌𝐚𝐬𝐭𝐞𝐫 𝐌𝐨𝐡𝐝. 𝐒𝐮𝐥𝐭𝐚𝐧 𝐀𝐡𝐦𝐚𝐝-𝐌𝐞𝐫𝐞 𝐌𝐨𝐡𝐬𝐢𝐧 𝐌𝐞𝐫𝐞 𝐌𝐮𝐫𝐚𝐛𝐛𝐢 (𝐘𝐚𝐮𝐦-𝐞-𝐀𝐬𝐚𝐭𝐳𝐚𝐡 𝐩𝐞𝐫 𝐀𝐩𝐧𝐞𝐲 𝐁𝐚𝐜𝐡𝐩𝐚𝐧 𝐤𝐞 𝐔𝐬𝐭𝐚𝐳 𝐤𝐨 𝐍𝐚𝐳𝐫𝐚𝐧𝐚-𝐞-𝐀𝐪𝐞𝐞𝐝𝐚𝐭)", 𝐑𝐨𝐳𝐧𝐚𝐦𝐚 𝐔𝐝𝐚𝐚𝐧, 𝐒𝐫𝐢𝐧𝐚𝐠𝐚𝐫, 𝐕𝐨𝐥. 𝟏𝟒, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝐍𝐨. 𝟐𝟏𝟏, 𝐖𝐞𝐝𝐧𝐞𝐬𝐝𝐚𝐲, 𝐒𝐞𝐩𝐭𝐞𝐦𝐛𝐞𝐫, 𝟎𝟑, 𝟐𝟎𝟐𝟓, 𝐏. 𝟎𝟒]

[𝐌𝐚𝐬𝐭𝐞𝐫 𝐌𝐨𝐡𝐝 𝐒𝐮𝐥𝐭𝐚𝐧 𝐀𝐡𝐦𝐚𝐝-𝐌𝐞𝐫𝐞 𝐌𝐨𝐡𝐬𝐢𝐧 𝐌𝐞𝐫𝐞 𝐌𝐮𝐫𝐚𝐛𝐛𝐢, 𝐑𝐨𝐳𝐧𝐚𝐦𝐚 𝐒𝐚𝐧𝐠𝐚𝐦, 𝐏𝐚𝐭𝐧𝐚, 𝐕𝐨𝐥. 𝟕𝟑, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝐍𝐨. 𝟐𝟑𝟕, 𝐖𝐞𝐝𝐧𝐞𝐬𝐝𝐚𝐲, 𝐒𝐞𝐩𝐭𝐞𝐦𝐛𝐞𝐫, 𝟎𝟑, 𝟐𝟎𝟐𝟓, 𝐏. 𝟎𝟓]


[Master Mohd Sultan Ahmad-Mere Mohsin Mere Murabbi, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 13, Issue No. 241, Friday, September, 05, 2025, P. 06]


[Master Mohd Sultan Ahmad-Mere Mohsin Mere Murabbi, Roznama Hamara Maqsad, New Delhi, Vol. 30, Issue No. 248, Friday, September, 05, 2025, P. 02]