Wednesday, 20 December 2023

کرسی پر نماز کس حالت میں درست ہے؟

 --------------------------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر


[Kursi Per Namaz Kis Halat Mein Durust Hai, Urdu Daily Sangam, Patna, Vol. 71, Issue No. 343, Friday, 22 December 2023, P. 05.]


[Kursi Per Namaz Kis Halat Mein Durust Hai, The Daily Lazawal, Jammu, Vol. 38, Issue No. 348, Friday, 22 December 2023, P. 07]

https://epaper.lazawal.com/archives.aspx?page=7&date1=12/22/2023

[Urdu Daily Hamara Samaj, Patna, Vol. 15, Issue No. 270, Wednesday, 20 December 2023, P. 05. Delhi Edition Vol. 17, Issue No. 84, Wednesday, 20 December 2023, P. 05.]


Link of Baseerat Online: https://www.baseeratonline.com/archives/20863320th December 2023.


کرسی پر نماز کس حالت میں درست ہے؟

از

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

استاذ و سابق ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

            ان دنوں مساجد میں کرسیوں پر نماز ادا کرنے کا رواج عام ہوچلاہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کرسیوں پر نماز ادا کرنا فیشن کی شکل اختیار کرچکا ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ اچھے خاصے صحت مند لوگ جو کھڑے ہونے ، اٹھنے بیٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بغیر کسی سہارے کے خود مسجد تک چل کر آتے ہیں(حتیٰ کہ صفوں میں کرسی بھی خود ہی اٹھاکر لے جاتے ہیں)، نماز کے قبل اور بعد کھڑے کھڑے لوگوں سے گفتگو کرتے بھی دیکھے جاتے ہیں لیکن معمولی تکالیف کو عذر بنا کر کرسی پر نماز ادا کرتے ہیں حالانکہ فقہاء نے بلا عذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کو ناجائز بتایا ہے۔ یہ روح بندگی یعنی عجزو انکسار کے خلاف ہے، اس سے مساجد کی ہیئت بھی تبدیل ہورہی ہے، صفوں میں خلل واقع ہوتاہے، مساجد میں مساوات کے قائم شدہ تصور پر ضرب لگتی ہے اور نصاریٰ کی عبادت گاہوں (Churches) سے مشابہت بھی پیدا ہوتی ہے۔ شریعت سے لاعلمی، اس کے اصولی و فقہی قواعد سے ناواقفیت، جذبہ تحقیق کی معدومیت اور دینی امور کے تئیں بے توجہی و لاپروائی اس نئی روش کے اہم اسباب میں سے ہیں۔

           اسلامی شریعت میں بیماروں اور معذوروں کی پوری رعایت کی گئی ہے جس کی تفصیلات کتب احادیث و فقہ میں موجود ہیں اور جن کی تشریحات مفتیان دین وقتاً فوقتاً اپنے فتاویٰ کے ذریعے کرتے آئے ہیں لیکن لوگ ان مسائل کو علماء سے دریافت نہیں کرتے اور خود ہی سہولت کی راہ نکال لیتے ہیں یا کسی کو کوئی عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اسے بغیر سوچے سمجھے اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں ہی طریقہ کار سراسر غلط ہیں؛ اول الذکر تو اس لئے کہ ہم زندگی کے جملہ امور میں کتاب و سنت کے پابند کئے گئے ہیں جن میں خود ساختہ سہولتوں کی جگہ نہیں اور آخرالذکر اس لئے کہ نوعیت کے بدل جانے سے احکام بدل جاتے ہیں، کسی عمل میں ایک رخصت کسی فرد خاص کے لئے تو جائز ہوسکتی ہے لیکن وہی رخصت کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں بھی ہوسکتی ہے۔ اس لئے اپنی معذوری کی نوعیت بتا کر علماء سے اپنے مسائل کا حل دریافت کرنا چاہیے پھر جو سہولتیں وہ بتائیں ان ہی کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ائمہ مساجد اور ان علماء سے بھی کوتاہیاں ہورہی ہیں جو مساجد میں لوگوں کو کرسی پر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن نہ توان کے احوال کی تفتیش کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں ان کے مسائل کا کبھی حل بتاتے ہیں (حالانکہ یہ ان کی ذمے داری ہے) جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ لوگوں کی نمازیں خراب ہورہی ہیں اور یہ مرض ایک دوسرے کی نقالی میں دن بہ دن بڑھتا ہی جارہاہے ۔

          کرسی پر نماز کی شرعی حیثیت اور معذوری سے متعلق احکام کی صحیح تفہیم کے لئے ایک بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی لوگ معذور ہوا کرتے تھے اور کرسی بھی وجود میں آچکی تھی اس کے باوجود حدیث کے ذخیرے میں ایک روایت ایسی نہیں ملتی جس میں رسول اللہ ﷺ یا کسی صحابیؓ کے کرسی پر نماز پڑھنے کا ذکر ہو۔ اسی طرح فقہ کی جتنی قدیم ، مستند اور معیاری کتابیں ہیں ان سب میں مریض اور معذور کی نماز سے متعلق باب موجود ہے لیکن کرسی پر نماز کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا کیوں یہ روش گزشتہ ۲۰-۲۵ سالوں کے اندر کی ہی اپج ہے۔ اس لئے کرسی پر نماز سے متعلق فتاویٰ، مضامین اور کتابیں بھی اسی دور کی پیداوار ہیں۔

           علماء نے بلا عذرِ معقول کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کوجو ناجائز بتایا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ قیام (فرض نماز کی تمام رکعتوں میں)، رکوع اور سجود نماز کے متفقہ علیہ فرائض میں سے ہیں لہٰذا جس قدر طاقت و استطاعت ہو اس قدر ان کو ادا کرنا ضروری ہے اور بلا عذر ان میں سے کسی کو ترک کردینے سے نماز نہیں ہوتی۔ کرسی پر نماز ادا کرنے والے سے یہ تمام فرائض چھوٹ جاتے ہیں ؛ قیام کی جگہ وہ کرسی پر بیٹھتا ہے اور رکوع و سجود دونوں کو ترک کرکے محض اشارے سے ان کو ادا کرتا ہے تو اس کی نماز کیسے ہوسکتی ہے؟ معقول عذر پرہی رسول اللہ ﷺ نے نماز کی ہیئت میں تبدیلی کی گنجائش رکھی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ‘‘صَلِّ قَائِماً، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ’’ یعنی‘‘ کھڑے ہوکر نماز ادا کیا کرو ، اگراس کی استطاعت نہ ہو(یعنی کھڑا نہیں ہواجاتا )تو بیٹھ کر ادا کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو(یعنی بیٹھانہیں جاتا ) تو پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرو’’۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۱۱۱۷ ، بروایت عمران بن حصینؓ)۔

          اس حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نماز کھڑے ہوکر ہی ادا کرنا چاہیے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو لیٹ کر ادا کرنے کی بھی اجازت ہے۔ فقہاء نے قیام، رکوع و سجود پر قدرت اور ان سے معذوری کی مختلف صورتوں کو فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں واضح کردیا ہے اور ان سے متعلق احکام بھی بیان کردئے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

(۱) قیام، رکوع و سجود سبھی پر قدرت: جو شخص قیام، رکوع و سجود سبھی پر قادر ہو اس کے لئے لازم ہے کہ نماز کی عام ہیئت میں کوئی تبدیلی نہ کرے، کھڑے ہوکر نماز ادا کرے کیوں کہ فرض نماز کی تمام رکعتوں میں قیام کرنا (کھڑے ہوکرنماز پڑھنا) فرض ہے، کھڑے ہونے پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر فرض نماز جائز نہیں گو نوافل میں اس کی اجازت ہے۔ اگر کوئی شخص خود تو کھڑا نہیں ہوسکتالیکن کسی دوسرے آدمی یا دیوار یا لکڑی وغیرہ کے سہارے کھڑا ہوکر نماز ادا کرسکتا ہے تو اس کو بھی سہارے سے کھڑا ہونا لازم ہے ، بیٹھ کر نماز ادا کرنا اس کے لئے درست نہیں۔ اگر کسی سہارے سے بھی کھڑا نہیں ہوسکتاتو اس کے لئے بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔ بلکہ فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگرکسی کے لئے اتنی دیر کے لئے جس میں تکبیر تحریمہ ہوسکے کھڑا رہنا ممکن ہو تو اتنی ہی دیر اس کے لئے کھڑا ہونا لازم ہے۔ ایسا شخص کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے اس کے بعد بیٹھ کر پوری نماز ادا کرلے، اگر کھڑا نہ ہوا اور شروع ہی سے بیٹھ کر نماز اداکرلی تو اس کی نماز نہیں ہوگی کیوں طاعت و بندگی بقدراستطاعت مطلوب ہوتی ہے جیسا کہ آیت ﴿فَاتَّقُوْاللّہَ مَااسْتَطَعْتُمْ۔ الآیۃ۔التغابن: ۱۶﴾ (ترجمہ: پس تم اللہ کا تقوی اختیار کرو جہاں تک تمہاری استطاعت ہو) کا تقاضہ ہے کیوں کہ تقوے کا سیدھا اور آسان مطلب یہی ہوتا ہے کہ سارے امور میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کے حکموں کا لحا ظ رکھا جائے۔

(۲) قیام و سجود پر قدرت لیکن رکوع پر قادر نہیں: علامہ عبدالرحمٰن الجزیری ؒنے اپنی تالیف ‘‘الفقہ علی المذاہب الاربعۃ’’ میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص رکوع کرنے اور سجدہ کرنے سے یا ان میں سے کسی ایک کے ادا کرنے سے معذور ہو تو جس امر سے معذور ہوصرف اس کو اشارے سے ادا کرے۔ اس لئے ایسا شخص جو قیام و سجود پر قدرت رکھتا ہو لیکن رکوع پر قادر نہ ہو اس کے لئے واجب ہے کہ کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے اور قرأت کرے، قیام مکمل کرلینے کے بعد جس قدر جھک سکتا ہو جھک کر رکوع کا اشارہ کرلے پھر سجدہ میں چلاجائے اور اسی طرح اپنی ساری نماز مکمل کرے۔

 (۳) قیام و رکوع پر قادر لیکن سجود پر قدرت نہیں: علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ایسا شخص قیام اور رکوع کرے اور اشارے سے سجدہ کرے البتہ سجدے کے اشارے کو رکوع سے ذرا نیچے کرے اور اگر وہ بیٹھ سکتا ہوتو تشہد کی صورت میں بیٹھ کر سر کو سجدے کے لئے جس قدر جھکا سکتا ہو جھکادے۔

(۴) قیام پر قادر لیکن رکوع و سجود کسی پرقدرت نہیں مگر زمین پر بیٹھ سکتا ہو:ایسا شخص تکبیر تحریمہ اور قرأ ت کھڑ ے ہوکر کرے اور رکوع کے لئے کھڑے کھڑے جتنا سر جھکا سکتا ہو جھکا کر اشارہ کرے اس کے بعد سیدھا ہوجائے پھر بیٹھ کر اشارے سے سجدے کرے یعنی سجدے کے لئے جتنا جھک سکتا ہو جھکے۔ اگر کھڑے کھڑے اشارہ سے سجدہ کرلیا یا بیٹھ کر اشارہ سے رکوع کرلیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ یہ علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ کی رائے ہے۔ احناف کے نزدیک اگر کوئی شخص سجدہ کرنے سے معذور ہوجائے تو قیام اس سے ساقط ہوجاتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ رکوع سے بھی معذور ہو کہ نہ ہو، لہٰذا اسے بیٹھ کر نماز ادا کرنی چاہیے جس میں رکوع و سجود اشارے سے کرے ۔ یہ صورت ان حضرات کی نظر میں کھڑے ہوکر اشارے کرنے سے بہتر ہے۔ اس لئے مسئلہ نمبر ۳؂ کی صورت میں بھی احناف کی رائے بیٹھ کر ہی نماز ادا کرنے کی ہے گرچہ کھڑے ہوکر اشارہ سے رکوع اور سجود کرنا بھی ان حضرات کے نزدیک صحیح ہے۔ بندہ عاجز کی نظر میں علامہ عبدالرحمٰن الجزیری ؒکی رائے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے کیوں کہ اس صورت میں آیت﴿وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ۔ البقرہ:۲۳۸﴾ (ترجمہ: اور اللہ کے حضور ادب سے قیام کیا کرو) اور ﴿فَاتَّقُوْاللّہَ مَااسْتَطَعْتُمْ۔ الآیۃ۔التغابن: ۱۶﴾ کے ذریعہ دئے گئے اصول کی رعایت ہوجاتی ہے۔ عرب علماء مثلاً عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ اورشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ وغیرہ بھی اسی کے قائل تھے۔

(۵) قیام پر قادر لیکن رکوع و سجود کسی پرقدرت نہیں او ر زمین پر بیٹھ بھی نہیں سکتا ہو: ایسا شخص تکبیر تحریمہ اور قرأ ت کھڑ ے ہوکر کرے اور رکوع و سجود کھڑے کھڑے سر جھکا کر اشارہ سے ادا کرے البتہ رکوع کے مقابلہ سجدے میں قدرے زیادہ جھکے۔ احناف کی رائے مسئلہ نمبر ۴؂ پر لکھی جاچکی ہے کہ کھڑے ہوکر اشارے سے رکوع اور سجدہ کرنا ان حضرات کے نزدیک بھی صحیح ہے۔

(۶) قیام پر قادر نہیں لیکن زمین پر بیٹھ کر رکوع و سجود پر قادر ہو: اگر کوئی شخص کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن اس کے سر چکرانے اورگرجانے کا یا کسی اور مرض کے لاحق ہونے کا یا اسی مرض میں زیادتی یا شفائے مرض میں تاخیر کا اندیشہ ہو یا کھڑے ہونے میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس ہوتی ہو (معمولی تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں) تو اس کے لئے بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہے اوراگر وہ زمین پر بیٹھ کر رکوع و سجود پر قادرہے تو اس کے لئے بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز اداکرنا ضروری ہے۔ ایسا شخص اگر زمین پر بیٹھ کر معروف طریقے سے رکوع و سجدہ کرنے کے بجائے کرسی پر یا زمین پر ہی اشارے سے رکوع و سجدہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔

(۷) نہ قیام پر قادر ہو نہ رکوع و سجود پر مگر زمین پر بیٹھ سکتا ہو :جو شخص زمین پر بیٹھ سکتا ہے لیکن رکوع و سجود کے لئے جھک نہیں سکتا یا جھکنے میں ناقابل برداشت تکلیف محسوس کرتا ہے تو ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرے اور رکوع و سجود کو اشارے سے کرے یعنی جس قدر جھک سکتاہو اتنا جھکے لیکن بمقابلہ رکوع، سجدے کے اشارے میں زیادہ جھکنا اس کے لئے واجب ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ فقہاء کے مطابق بیٹھ کر نماز ادا کرنے سے مراد مسنون طریقہ پر اس طرح بیٹھنا ہے جس طرح التحیات پڑھنے کے لئے تشہد میں بیٹھا جاتا ہے ۔ اگر اس طرح بیٹھنا ممکن نہ ہو تو تَوَرُّک (یعنی جس طرح عورتیں تشہد میں بیٹھتی ہیں) یا تَرَبُّع ( چار زانو یا پالتی مارکر بیٹھنا) کی حالت میں بیٹھا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ طریقے بھی سنت سے ثابت ہیں اور اگر یہ دونوں بھی ممکن نہ ہو ں تو جس طریقے سے بیٹھنا سہل و ممکن ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا چاہیے خواہ کسی چیز سے ٹیک لگاکر بیٹھنے کی نوبت آئے۔ اس لئے کہ قیام سے معذوری کی حالت میں زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا ہی مسنون طریقہ ہے اور صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے لوگوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔

           جابر بن عبد اللہ ؓ کی روایت کے مطابق رسول پاکﷺ کا فرمان بھی ہے: ‘‘صَلِّ عَلَی الْأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ، وَ إِلَّا فَأَوْمِئْ إِیْمَاءً، وَاجْعَلْ سُجُوْدَکَ أَخْفَضَ مِنْ رُکُوْعِکَ’’ یعنی ـ‘‘ اگر استطاعت ہو تو زمین پر نمازادا کرو ورنہ اشارے سے ادا کرو البتہ سجدے کے اشارہ کو رکوع سے ذرا نیچے رکھو۔’’ (السنن الکبیر للبیہقیؒ ، رقم الحدیث ۳۷۱۸)۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرؓ سے جب کسی نے تکیہ پر نماز ادا کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: ‘‘صَلِّ قَائِدًا وَاسْجُدْ عَلَی الْأَرْضِ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَأَوْمِئْ إِیْمَاءً، وَاجْعَلِ السُّجُوْدَ أَخْفَضَ مِنَ الرُّکُوْعِ’’ یعنی بیٹھ کر نماز ادا کرو اور زمین پر سجدہ کرو اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اشارے سے رکوع و سجود کرو اور سجدوں کو رکوع سے ذرا نیچے رکھو۔ (السنن الکبیر للبیہقیؒ ، رقم الحدیث ۳۷۲۱)۔ اسی طرح کا قول امام بیہقیؒ نے عبداللہ بن مسعودؓ کا بھی نقل کیا ہے۔ ـ اس لئے سہولت کی نئی راہ نکالنا اور کرسی پر نماز ادا کرنا ایسے شخص کے لئے درست نہیں۔

(۸) نہ قیام پر قادر ہو نہ رکوع و سجود پراو ر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ بھی نہیں سکتا ہو: اگر کوئی شخص نہ تو قیام پر قدرت رکھتا ہو نہ ہی رکوع و سجود پراو ر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ بھی نہ سکتا ہو لیکن کرسی پر بیٹھ سکتا ہو تو فقہاء نے صرف ایسے شخص کوکرسی پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ قیام، رکوع و سجود پر قدرت اور ان سے معذوری کی مذکورہ صورتوں کے علاوہ جوایک آخری صورت باقی رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص نہ تو قیام پر قادر ہو نہ رکوع و سجود پر اور نہ ہی قعود پر یعنی کسی بھی صورت میں بیٹھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو تو ایسے شخص کے لئے یہ حکم ہے کہ دائیں پہلو پر قبلہ رخ لیٹ کر نماز ادا کرے اور اگر دائیں پہلو کے بل لیٹنے پر بھی قادر نہ ہو تو پھر چت لیٹ کر اس طرح نماز ادا کرے کہ پیر اس کے قبلہ کی جانب ہوں، سرہانا اونچا ہو تاکہ رخ بھی قبلہ کی طرف ہوجائے اور ان دونوں صورتوں میں رکوع و سجود سر کے اشارے سے ادا کرے اور اگر ہوسکے تو سجود کے لئے رکوع سے ذرا زیادہ جھکے۔ اگر کوئی لیٹ کر نماز ادا کرنے کی ان دونوں صورتوں پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے پہلی صورت یعنی دائیں کروٹ پر نماز ادا کرنا افضل ہے۔ جو شخص رکوع و سجود کے لئے سر سے اشارہ بھی نہ کرسکے تو وہ پلکوں کو جھکا کر اشارہ کرے جس میں رکوع کی نسبت سجدے کے اشارے کے لئے پلکوں کو زیادہ جھکائے۔

          رخصتوں کی مذکورہ تفاصیل کی روشنی میں کرسی پر نماز ادا کرنے والے حضرات ذرا اپنے احوال پر غور کریں کہ کیا واقعی وہ اس درجہ معذور ہیں (کہ نہ تو کھڑے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھ سکتے ہیں) کہ ان کے لئے کرسی پر نماز ادا کرنا شرعاً درست ہو، اگر نہیں تو وہ کرسی پر نماز ادا کرنے سے پرہیز کریں کیوں کہ ایک تو ان کی نماز نہیں ہوتی، دوسرے مسجد کا ماحول بھی ان کی وجہ سے خراب ہوتا ہے؛ ایک دوسرے کی نقل میں مسجد میں کرسیوں اور ان پر نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے جن میں احقر کے مشاہدے کے مطابق اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی معقول شرعی عذر نہیں ہوتا۔ تھوڑی بہت تکلیف اور جوڑوں کا درد تو آج کل اکثر لوگوں کو لاحق رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فوراً کرسی پر آجایا جائے، بلکہ نماز کو اس کی پوری ہیئت پر ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں جو بھی تکلیف ہو اسے اللہ کے لئے برادشت کرنا چاہیے۔

          آخری بات یہ کہ نہ صرف عبادات میں بلکہ زندگی کے دیگر تمام امور میں شریعت کی دی گئی سہولتوں میں ہی خود کو محصور رکھنے میں ہم سب کی بھلائی ہے، اس کا خیال رکھیں اور اپنی طرف سے سہولتوں کی نئی راہ نہ نکالیں، ایسی راہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے دوری کاہی سبب بن سکتی ہیں گو وہ نفس کو کتنی ہی بھلی معلوم ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اس پر قائم و دائم رکھے۔آمین!

          مراجع: (۱) کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ از عبدالرحمٰن الجزیریؒ ( اردو)، علماء اکیڈمی، شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب (۲۰۱۳ء)، جزء اول، صفحات ۲۷۵ - ۲۷۶، ۲۷۹ - ۲۸۰، ۶۱۲ - ۶۱۵ (۲) فقہ حنفی قرآن و سنت کی روشنی میں (شیخ اسعد محمد سعید الصاغرجیؒ کی تالیف ‘‘الفقہ الحنفي و أدلّتہ’’ کا اردو ترجمہ) ، ادارہ اسلامیات لاہور و کراچی، پاکستان (۲۰۰۸ء)، جلد ۱، صفحہ ۲۷۶ - ۲۷۹ (۳) کرسی پر نماز (ایک مفصل فتویٰ)، ماہنامہ دارالعلوم، جون ۲۰۱۱، صفحہ ۱۶ - ۲۱ (۴) کرسی پر نماز کی فقہی تحقیق از مفتی محمد شعیب اللہ خاں، ماہنامہ دارالعلوم، اکتوبر - نومبر ۲۰۱۲، صفحہ ۳۸ - ۵۰ (۵) چند اہم عصری مسائل پردارالافتاء دارالعلوم دیوبندسے صادر کئے گئے فتاویٰ (مرتب مفتی زین الاسلام قاسمی)، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی، انڈیا (۲۰۱۲ء)، صفحہ ۱۲۵ - ۱۳۲ (۶) فتاویٰ رحیمیہ از مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوریؒ، دارالاشاعت، کراچی، پاکستان (۲۰۰۹ء)، جلد ۵، صفحہ ۲۰ - ۲۱، ۵۸ا - ۱۶۲، ۱۶۴ - ۱۶۵ (۷) کفایت المفتی ازمفتی محمد کفایت اللہ دہلویؒ، دارالاشاعت، کراچی، پاکستان (۲۰۰۱ء)، جلد ۳، صفحہ ۴۲۲ (۸) کتاب الفتاویٰ از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، زمزم پبلشرز، کراچی (۲۰۰۷ء)، جلد ۲، صفحہ ۴۶۳ - ۴۶۵ (۹) فتاویٰ اسلامیہ (عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ اور چند دیگر علمائے عرب کے فتاویٰ کا مجموعہ)، دارالسلام، ریاض، جلد ۱، صفحہ ۵۲۶ - ۵۲۷ (۱۰) علم الفقہ از مولانا عبد الشکور صاحب فاروقی لکھنوی، کتب خانہ نعیمیہ ، دیوبند (۲۰۰۸ء)، صفحہ ۲۷۶ - ۲۷۹ (۱۱) بیمار کی نماز از ام عبد منیب، مشربہ علم و حکمت، لاہور، صفحہ ۱۶ - ۲۳ (۱۱) مریض کی نماز اور طہارت کے احکام، مکتب تعاونی برائے دعوت و ارشاد، سلّی، ریاض (۱۴۲۷ھ)، صفحہ ۱۴ - ۱۷ (۱۲) بیمار کی طہارت اور نماز کے احکام (ہندی) از عبد العزیز بن عبداللہ بن بازؒ، ڈبلوڈبلو ڈبلو اسلام ہاؤس کام (۲۰۰۷ء)، صفحہ ۲۲ - ۲۵ (۱۳) فقہ السنّہ ازمحمد عاصم الحدادؒ ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی (۲۰۰۴ء)، صفحہ ۲۱۳ - ۲۱۴ وغیرہ۔

( رابطہ : mwzafar.pu@gmail.com )


Tuesday, 12 December 2023

مساجد میں اعلانات کی کثرت: ایک لمحہ فکریہ

 -------------------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

[Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, The Daily Siyasi Taqdeer, New Delhi, Vol. 12, Issue No. 197, Tuesday, 12 December 2023, P. 05]

Link: https://siyasitaqdeer.com/e/12122023/eurdu/delhi/epaper/page-05b.html


[
Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, Urdu Daily Hamara Samaj, Patna, Vol. 15, Issue No. 261, Monday, 11 December 2023, P. 05] 
Link: https://hamarasamajdaily.com/122023/11122023/patna/page05b.html



[Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, Weekly Pukar, Srinagar, Vol. 17, Issue No. 49, 11-17 December, 2023, P. 12.] Link: https://weeklypukar.net/epaper/edition/270/weekly-pukar/page/12


[Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, Taasir Urdu Daily, Muzaffarpur, Vol. 11, Issue 343, Monday, 11 December 2023, P. 04]

https://qindeelonline.com/masaajid-me-elanaat-ki-kasrat-by-dr-mohd-wasey-zafar/, 10 December, 2023

[Link of Qindeel Online] 

مساجد میں اعلانات کی کثرت: ایک لمحہ فکریہ


از ڈاکٹر محمد واسع ظفر


یوں تو تمام روئے زمین امت محمدیہ ﷺ کے لئے سجدہ گاہ اور ذریعہ طہارت بنادی گئی ہے لیکن مسجدیں وہ مراکز ہیں جو اسلامی طریقے پر اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لئے مخصوص کی گئی ہیں۔ اسی لئے انہیں اللہ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی  وجہ ہے کہ زمین کا وہ ٹکڑا جو مسجد کے نام سے مخصوص و موسوم ہوجائے وہ اللہ کے نزدیک بہت ہی محبوب اور محترم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ایمان والوں پر بھی اس کا ادب و احترام لازم ہوجاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے بھی اس سلسلے میں بہت سی ہدایات ملتی ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کو کئی طرح کے دینی تقاضوں کی انجام دہی کے لئے استعمال فرمایا لیکن آپ نے اس کے قیام کے بنیادی مقاصد یعنی اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اس سلسلےرر میں آنی والی ہر قسم کی رکاوٹ کو ناپسند فرمایا۔


 مسجد کے قیام کے بنیادی مقاصد کی نشاندہی اس روایت میں ملتی ہے جس میں ایک بدوی کے مسجد نبوی میں پیشاب کردینے کا ذکر ہے۔ آپ نے اس بدوی سے یہ فرمایا تھا:  «إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ، وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ»  یعنی ’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ٦٦١، بروایت انس بن مالک)۔ اس لئے ان اعمال صالحہ کی ادائی کی راہ میں آنے والی ہر طرح کی خلل اندازی ناپسندیدہ قرار دی گئی اور جو لوگ بھی ان اعمال صالحہ کی غرض سے مسجد  تشریف لاتے ہیں، ان کی راحت کا خاص خیال رکھا گیا۔ اسی لئے مسجد کی صفائی و پاکیزگی، اس کو ہر قسم کی نجاست، گندگی اور بدبو (یہاں تک کہ پسینہ، کچے لہسن اور پیاز کی بدبو) سے بچانے اور خوشبوؤں سے معطر رکھنے کی تاکید فرمائی گئی۔ اسی طرح وہاں عبادات کے لئے مطلوب یکسوئی اور خشوع و خضوع کو یقینی بنائے رکھنے کے واسطے نماز کے اوقات میں جبکہ لوگ نوافل وغیرہ میں مشغول ہوں اونچی آواز میں سلام کرنے، بات چیت کرنے، اعلانات کرنے حتی کہ اونچی آواز میں آنفرادی طور پر ذکر و تلاوت کرنے کو بھی ناپسند فرمایا گیا۔


 بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مسجد میں اپنے اونٹ کی گمشدگی کا اعلان کیا تو آپ نے فرمایا: «لَا وَجَدْتَ، إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ» "تجھے (تیرا اونٹ) نہ ملے ، مسجدیں صرف انہی کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں جن کے لیے انھیں بنایا گیا" ( یعنی عبادت اور اللہ کے ذکر کے لیے)۔ (صحیح مسلم ، رقم الحدیث ١٢٦٢)۔ اور یہی کہنے کی تاکید آپ نے عام مسلمانوں سے بھی کی۔ آپ نے فرمایا:  «مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا» یعنی ’’ جو شخص کسی آدمی کو مسجد میں کسی گم شدہ چیز کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے : اللہ تمھاری چیز تمھیں نہ لوٹائے کیوں کہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ١٢٦٠، بروایت ابوہریرہ)۔


مذکورہ روایات سے یہ بالکل واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعلان کرنے کو پسند نہیں فرمایا حالانکہ آپ کے اندر لوگوں کی خیرخواہی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا لیکن آپ نے کسی کی کھوئی ہوئی چیز کے واپس مل جانے کے نفع پر مسجد کی عظمت اور اس کے بنیادی مقاصد کو مقدم رکھا اور ان پر کسی قسم کی آنچ آنے دینے کو پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے واضح طور پر فرمادیا کہ مسجدیں اس کام کے لئے یعنی اعلانات کے لئے نہیں بنائی گئیں۔ اعلان کرنا تو دور کی بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ جب لوگ انفرادی عبادات نوافل وغیرہ میں مشغول ہوں، اس وقت کوئی قراءت میں اپنی آواز دوسروں پر بلند کرے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا ۔ آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز میں قراءت کر رہے ہیں تو آپ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: "أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي الصَّلَاةِ-" (ترجمہ): "خبردار! بلاشبہ تم سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو تو کوئی شخص کسی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قراءت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے یا فرمایا نماز میں (اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے۔)"۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث ١٣٣٢)-


آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب نماز کی قراءت میں مسجد میں آوازیں بلند کرنے کو صرف اس لئے روکا گیا ہو کہ کہیں دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو تو اونچی آواز میں مسجد میں بات چیت کرنے اور اعلانات کرنے کو کیسے درست ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اپنی نمازوں میں مصروف ہوں۔ سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ دو شخص مسجد میں اونچی آواز میں باتیں کررہے ہیں تو آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ رسول کریم ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟ (صحیح بخاری، رقم الحدیث ٤٧٠)۔


 ان روایات کے پیش نظر سبھی فقہی مسالک کے علماء نے مسجد میں آواز بلند کرنے کے سلسلے میں سخت موقف اختیار  کیا ہے۔ احناف، شوافع اور حنابلہ سب کے نزدیک مسجد کے اندر اونچی آواز سے ذکر کرنا جس سے نمازیوں کو پریشانی ہو مکروہ ہے۔ جب ذکر اللہ کے سلسلے میں ان کا یہ موقف ہے تو اونچی آواز سے مسجد میں بولنے یا بات چیت کرنےکی اجازت وہ کہاں دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اونچی آواز سے بات چیت اگر جائز کلام  پر مبنی ہو تو بھی ان تینوں مسالک کے علماء کے نزدیک مکروہ ہے اگر نمازیوں کی پریشانی کا باعث ہو اور اگر بات چیت ناجائز کلام پر مشتمل ہو تو احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی اور شوافع کے نزدیک حرام مطلق ہے۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الربعہ للإمام عبدالرحمٰن الجزیری، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، الطبعة الثانية ٢٠٠٢م، الجزء الأول، ۲۵۹-٢٦٠)۔


ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے تو مسجد کے اندر آواز بلند کرنے کو حرام لکھا ہے، خواہ ذکر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے الفاظ اس طرح ہیں: "وقد نص بعض علمائنا بأن رفع الصوت في المسجد ولو بالذكر حرام۔" یعنی ہمارے بعض علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا خواہ ذکر ہی میں کیوں نہ ہو حرام ہے- " (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح للعلامة الشيخ علي بن سلطان محمد القاري، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، الطبعة الأولى ٢٠٠١م، الجزء العاشر، صفحات ٨٦-٨٧)


مالکیہ کے نزدیک بھی مسجد میں اونچی آواز سے بولنا مکروہ ہے، اگرچہ عبادت یا تعلیم کے لئے ہو اور اگر اس سے نماز ادا کرنے والوں کو پریشانی ہو تو حرام ہے۔ (کتاب الفقه علی المذاهب الربعة، الجزء الأول، صفحہ ٢٦٠)۔


ملا علی قاری نے ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ امام مالک سے مسجد میں علم کے سیکھنے سکھانے میں آواز بلند کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی خیر نہیں، نہ علم کے ساتھ نہ علم کے بغیر اور البتہ تحقیق میں نے پہلے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اس شخص پر جو اس طرح کی مجلس میں موجود ہوتا کہ جس میں آواز بلند ہوتی، عیب لگایا کرتے تھے اور میں بھی اس کو ناپسند کرتا ہوں اور اس میں کوئی خیر نہیں جانتا۔ ملا علی قاری نے امام نووی کا بھی قول نقل کیا ہے کہ مسجد میں علم وغیرہ کے سیکھنے سکھانے میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ (مرقاة المفاتيح، الجزء الثاني،  صفحہ ٤١٩)۔ 


اسی طرح گزشتہ صدی عیسوی کے برصغیر کے مشہور مفسر و فقیہ مفتی محمد شفیع صاحب نے آیت "وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا- الآية" (اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔ سورة البقرة: آیت ١١٤) کی تفسیر کے تحت لکھا ہے: "مسجد میں ذکر و نماز سے روکنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز و حرام ہیں، ان میں ایک صورت تو یہ کھلی ہوئی ہے ہی کہ کسی کو مسجد میں جانے سے یا وہاں نماز و تلاوت سے صراحتاً روکا جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں شوروشغب کرکے یا اس کے قرب و جوار میں باجے گاجے بجا کر لوگوں کی نماز و ذکر وغیرہ میں خلل ڈالے، یہ بھی ذکر اللہ سے روکنے میں داخل ہے۔ اسی طرح اوقات نماز میں جبکہ لوگ اپنی نوافل یا تسبیح و تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوں، مسجد میں کوئی بلند آواز سے تلاوت یا ذکر بالجہر کرنے لگے، تو یہ بھی نمازیوں کی نماز و تسبیح میں خلل ڈالنے اور ایک حیثیت سے ذکر اللہ کو روکنے کی صورت ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے، ہاں جب مسجد عام نمازیوں سے خالی ہو، اس وقت ذکر یا تلاوت جہر کا مضائقہ نہیں، اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس وقت لوگ نماز و تسبیح وغیرہ میں مشغول ہوں مسجد میں اپنے لئے سوال کرنا یا کسی دینی کام کے لئے چندہ کرنا بھی ایسے وقت ممنوع ہے۔" (معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۰۸ء، جلد اول، صفحہ ۲۹۹- ۳۰۰)۔


 فقہاء کی ان ساری وضاحتوں کے باوجود جو کہ یقیناً ائمہ مساجد کے علم میں ہوں گی، مساجد اعلانات کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ امام کے سلام پھیرتے ہی مختلف قسم کے اعلانات شروع ہوجاتے ہیں جبکہ مسبوق یعنی دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرنے میں اور دیگر نمازی تسبیحات میں مشغول ہوتے ہیں لیکن ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ اعلانات مختلف عنوانات سے ہوتے ہیں جن میں جماعت کے اوقات میں تبدیلی، بیماروں کے لئے دعا کی درخواست، نماز جنازہ کے وقت اور جگہ کا تعین، مساجد و مدارس کے چندے، مسجد کی آمدنی و اخراجات کا حساب، درس قرآن، جلسہ اور دعوتی اجتماعات کا انعقاد، گرمی کے دنوں میں رحمت کی بارش کی دعا، اور ان دنوں فلسطینی مسلمانوں کے لئے دعا بھی شامل ہے۔ محتاجوں اور بے کسوں کے ذریعے امداد کی اپیلیں ان کے علاوہ ہیں۔ پھر رمضان میں سحری کے اعلانات بھی ان میں شامل ہوجاتے  ہیں۔ ان میں سے اکثر اعلانات اب مائیک کے ذریعے ہوتے ہیں جو نمازیوں کی یکسوئی کو منتشر کرنے میں اور بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ اعلانات بار بار اور متواتر طریقہ پر کئے جاتے ہیں۔ ایک مؤذن صاحب کے پاس بیماروں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے اور وہ ہر دن کسی نہ کسی نماز میں ان کی صحت یابی کی دعا کے عنوان سے وہ فہرست پڑھتے رہتے ہیں، جبکہ اتنے ناموں کو یاد رکھنا کسی کے بس کی بات نہیں اور دعا تو ہمارے دیار میں ائمہ ہی کراتے ہیں تو کیوں نہیں وہ  فہرست بار بار نشر کرنے کے بجائے ان کے حوالے کر دی جاتی۔ بعض دن تو دو دو نمازوں میں یہ اعلان  ہوتا ہے حتیٰ کہ فجر کی نماز میں  بھی۔ فجر کے سناٹے میں مائیک سے کیا گیا اعلان ایک حساس آدمی کی سماعت پر ایسی ضرب لگاتا  ہے جیسے کسی نے لوہے کی چادر پر ہتھوڑا چلا دیا ہو اور دل سے یہ یہی بد دعا نکلتی ہے کہ اللہ ان کو کبھی صحت نہ دے ۔ غرض یہ کہ مسجدیں اعلانات اور چندے کا مرکز بن کر رہ گئی ہیں اور سکون سے نماز، تلاوت و اذکار میں مشغول رہنے والوں کے لئے  بڑی پریشانی ہے۔ 


ان سب پر رہی سہی کسر اونچی آوازمیں بولنے والے مقتدی پوری کردیتے ہیں، کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ نماز سے جلد از جلد فارغ  ہوکر پچھلی صفوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہوکر زور زور سے آپس میں گفتگو شروع  کردیتے ہیں جبکہ اطمینان و سکون سے نماز ادا کرنے والے لوگ ان کی اس حرکت سے سخت پریشان اور نالاں رہتے ہیں۔ بعض امام کو بھی ایسی حرکت میں ملوث پایا جبکہ ان کے اوپر یہ ذمے داری تھی کہ وہ لوگوں کو مسجد کے آداب سے متعلق مذکورہ باتوں کی تعلیم دیتے۔ لیکن افسوس کہ مصلحت کوشی نے ان علماء کے منہ پر تالا جڑ دیا ہے بلکہ اس طرح کے ہر غلط عمل کو غیر ضروری اور نامناسب تاویلیں کر کے درست ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمائے سلف کے نزدیک یہ بات بالکل واضح تھی کہ مباح، جائز بلکہ شریعت کے اندر مطلوب کام بھی اگر سنتوں کی خلاف ورزی کرکے کی جائے تو وہ خیر سے خالی ہی ہوگا لیکن ہمارے زمانے کے علماء کی سوچ ان سے بالکل مختلف ہے الا ماشاء اللہ ۔ 


عوام کی اکثریت چونکہ علم دین سے نابلد اور عبادات میں یکسوئی اور خشوع و خضوع کی لذت سےناآشنا ہے اس لئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے؟ اعلانات کے مسئلہ کو نوٹس بورڈ (وھائیٹ بورڈ) کے استعمال کے ذریعے حل کیا جاسکتا  ہے۔ نیز مساجد و مدارس کے چندے کے لئے مسجد کے کسی گوشے کو مخصوص کیا جاسکتا  ہےجہاں سفراء اعلان نامہ (Placard) یا اشتہار لے کر خاموشی سے بیٹھ کر بھی اپنا کام کر سکتے ہیں۔ درس قرآن اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات کے لئے لوگوں کے سنت و نوافل سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جاسکتا ہے اور جو اجتماعات ہر ہفتہ معمول کے مطابق ہوتے ہیں ان کے لئے تو کسی اعلان کی ضرورت ہی نہیں ہے، یاد دہانی کے لئے نوٹس بورڈ پر لکھ دینا بھی کافی ہے۔ اصل بات توجہ اور حس کی ہے، جب احساس ہی مٹ جائے تو بری چیز بھی بھلی لگنے لگتی ہے۔ احقر نے بالکل عاجز آکر اور کافی ہمت جٹا کر اس برائی کے خلاف آواز بلند کی ہے (جسے لوگوں نے کار خیر سمجھ رکھا ہے) لیکن اس کو محسوس کرنے اور اس سلسلے کے مناسب اصلاحی اقدامات کرنے کا کام ائمہ مساجد، مسجد کمیٹی کے ممبران اور عوام الناس کا ہے۔ امید ہے کہ احقر کی باتوں کو منفی طریقے پر نہیں لیا جائے گا۔ آخر میں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عنایت کرے، نیز ہم سب کو مسجد کی عظمت اور اس  کے ادب و احترام کو ملحوظ  خاطر رکھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!