Tuesday, 12 December 2023

مساجد میں اعلانات کی کثرت: ایک لمحہ فکریہ

 -------------------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

[Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, The Daily Siyasi Taqdeer, New Delhi, Vol. 12, Issue No. 197, Tuesday, 12 December 2023, P. 05]

Link: https://siyasitaqdeer.com/e/12122023/eurdu/delhi/epaper/page-05b.html


[
Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, Urdu Daily Hamara Samaj, Patna, Vol. 15, Issue No. 261, Monday, 11 December 2023, P. 05] 
Link: https://hamarasamajdaily.com/122023/11122023/patna/page05b.html



[Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, Weekly Pukar, Srinagar, Vol. 17, Issue No. 49, 11-17 December, 2023, P. 12.] Link: https://weeklypukar.net/epaper/edition/270/weekly-pukar/page/12


[Masajid mein Aelanat ki Kasrat: Aek Lamha-e-Fikriyah, Taasir Urdu Daily, Muzaffarpur, Vol. 11, Issue 343, Monday, 11 December 2023, P. 04]

https://qindeelonline.com/masaajid-me-elanaat-ki-kasrat-by-dr-mohd-wasey-zafar/, 10 December, 2023

[Link of Qindeel Online] 

مساجد میں اعلانات کی کثرت: ایک لمحہ فکریہ


از ڈاکٹر محمد واسع ظفر


یوں تو تمام روئے زمین امت محمدیہ ﷺ کے لئے سجدہ گاہ اور ذریعہ طہارت بنادی گئی ہے لیکن مسجدیں وہ مراکز ہیں جو اسلامی طریقے پر اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لئے مخصوص کی گئی ہیں۔ اسی لئے انہیں اللہ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی  وجہ ہے کہ زمین کا وہ ٹکڑا جو مسجد کے نام سے مخصوص و موسوم ہوجائے وہ اللہ کے نزدیک بہت ہی محبوب اور محترم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ایمان والوں پر بھی اس کا ادب و احترام لازم ہوجاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے بھی اس سلسلے میں بہت سی ہدایات ملتی ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کو کئی طرح کے دینی تقاضوں کی انجام دہی کے لئے استعمال فرمایا لیکن آپ نے اس کے قیام کے بنیادی مقاصد یعنی اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اس سلسلےرر میں آنی والی ہر قسم کی رکاوٹ کو ناپسند فرمایا۔


 مسجد کے قیام کے بنیادی مقاصد کی نشاندہی اس روایت میں ملتی ہے جس میں ایک بدوی کے مسجد نبوی میں پیشاب کردینے کا ذکر ہے۔ آپ نے اس بدوی سے یہ فرمایا تھا:  «إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ، وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ»  یعنی ’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ٦٦١، بروایت انس بن مالک)۔ اس لئے ان اعمال صالحہ کی ادائی کی راہ میں آنے والی ہر طرح کی خلل اندازی ناپسندیدہ قرار دی گئی اور جو لوگ بھی ان اعمال صالحہ کی غرض سے مسجد  تشریف لاتے ہیں، ان کی راحت کا خاص خیال رکھا گیا۔ اسی لئے مسجد کی صفائی و پاکیزگی، اس کو ہر قسم کی نجاست، گندگی اور بدبو (یہاں تک کہ پسینہ، کچے لہسن اور پیاز کی بدبو) سے بچانے اور خوشبوؤں سے معطر رکھنے کی تاکید فرمائی گئی۔ اسی طرح وہاں عبادات کے لئے مطلوب یکسوئی اور خشوع و خضوع کو یقینی بنائے رکھنے کے واسطے نماز کے اوقات میں جبکہ لوگ نوافل وغیرہ میں مشغول ہوں اونچی آواز میں سلام کرنے، بات چیت کرنے، اعلانات کرنے حتی کہ اونچی آواز میں آنفرادی طور پر ذکر و تلاوت کرنے کو بھی ناپسند فرمایا گیا۔


 بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مسجد میں اپنے اونٹ کی گمشدگی کا اعلان کیا تو آپ نے فرمایا: «لَا وَجَدْتَ، إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ» "تجھے (تیرا اونٹ) نہ ملے ، مسجدیں صرف انہی کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں جن کے لیے انھیں بنایا گیا" ( یعنی عبادت اور اللہ کے ذکر کے لیے)۔ (صحیح مسلم ، رقم الحدیث ١٢٦٢)۔ اور یہی کہنے کی تاکید آپ نے عام مسلمانوں سے بھی کی۔ آپ نے فرمایا:  «مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا» یعنی ’’ جو شخص کسی آدمی کو مسجد میں کسی گم شدہ چیز کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے : اللہ تمھاری چیز تمھیں نہ لوٹائے کیوں کہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ١٢٦٠، بروایت ابوہریرہ)۔


مذکورہ روایات سے یہ بالکل واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعلان کرنے کو پسند نہیں فرمایا حالانکہ آپ کے اندر لوگوں کی خیرخواہی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا لیکن آپ نے کسی کی کھوئی ہوئی چیز کے واپس مل جانے کے نفع پر مسجد کی عظمت اور اس کے بنیادی مقاصد کو مقدم رکھا اور ان پر کسی قسم کی آنچ آنے دینے کو پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے واضح طور پر فرمادیا کہ مسجدیں اس کام کے لئے یعنی اعلانات کے لئے نہیں بنائی گئیں۔ اعلان کرنا تو دور کی بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ جب لوگ انفرادی عبادات نوافل وغیرہ میں مشغول ہوں، اس وقت کوئی قراءت میں اپنی آواز دوسروں پر بلند کرے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا ۔ آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز میں قراءت کر رہے ہیں تو آپ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: "أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي الصَّلَاةِ-" (ترجمہ): "خبردار! بلاشبہ تم سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو تو کوئی شخص کسی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قراءت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے یا فرمایا نماز میں (اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے۔)"۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث ١٣٣٢)-


آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب نماز کی قراءت میں مسجد میں آوازیں بلند کرنے کو صرف اس لئے روکا گیا ہو کہ کہیں دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو تو اونچی آواز میں مسجد میں بات چیت کرنے اور اعلانات کرنے کو کیسے درست ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اپنی نمازوں میں مصروف ہوں۔ سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ دو شخص مسجد میں اونچی آواز میں باتیں کررہے ہیں تو آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ رسول کریم ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟ (صحیح بخاری، رقم الحدیث ٤٧٠)۔


 ان روایات کے پیش نظر سبھی فقہی مسالک کے علماء نے مسجد میں آواز بلند کرنے کے سلسلے میں سخت موقف اختیار  کیا ہے۔ احناف، شوافع اور حنابلہ سب کے نزدیک مسجد کے اندر اونچی آواز سے ذکر کرنا جس سے نمازیوں کو پریشانی ہو مکروہ ہے۔ جب ذکر اللہ کے سلسلے میں ان کا یہ موقف ہے تو اونچی آواز سے مسجد میں بولنے یا بات چیت کرنےکی اجازت وہ کہاں دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اونچی آواز سے بات چیت اگر جائز کلام  پر مبنی ہو تو بھی ان تینوں مسالک کے علماء کے نزدیک مکروہ ہے اگر نمازیوں کی پریشانی کا باعث ہو اور اگر بات چیت ناجائز کلام پر مشتمل ہو تو احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی اور شوافع کے نزدیک حرام مطلق ہے۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الربعہ للإمام عبدالرحمٰن الجزیری، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، الطبعة الثانية ٢٠٠٢م، الجزء الأول، ۲۵۹-٢٦٠)۔


ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے تو مسجد کے اندر آواز بلند کرنے کو حرام لکھا ہے، خواہ ذکر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے الفاظ اس طرح ہیں: "وقد نص بعض علمائنا بأن رفع الصوت في المسجد ولو بالذكر حرام۔" یعنی ہمارے بعض علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا خواہ ذکر ہی میں کیوں نہ ہو حرام ہے- " (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح للعلامة الشيخ علي بن سلطان محمد القاري، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، الطبعة الأولى ٢٠٠١م، الجزء العاشر، صفحات ٨٦-٨٧)


مالکیہ کے نزدیک بھی مسجد میں اونچی آواز سے بولنا مکروہ ہے، اگرچہ عبادت یا تعلیم کے لئے ہو اور اگر اس سے نماز ادا کرنے والوں کو پریشانی ہو تو حرام ہے۔ (کتاب الفقه علی المذاهب الربعة، الجزء الأول، صفحہ ٢٦٠)۔


ملا علی قاری نے ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ امام مالک سے مسجد میں علم کے سیکھنے سکھانے میں آواز بلند کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی خیر نہیں، نہ علم کے ساتھ نہ علم کے بغیر اور البتہ تحقیق میں نے پہلے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اس شخص پر جو اس طرح کی مجلس میں موجود ہوتا کہ جس میں آواز بلند ہوتی، عیب لگایا کرتے تھے اور میں بھی اس کو ناپسند کرتا ہوں اور اس میں کوئی خیر نہیں جانتا۔ ملا علی قاری نے امام نووی کا بھی قول نقل کیا ہے کہ مسجد میں علم وغیرہ کے سیکھنے سکھانے میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ (مرقاة المفاتيح، الجزء الثاني،  صفحہ ٤١٩)۔ 


اسی طرح گزشتہ صدی عیسوی کے برصغیر کے مشہور مفسر و فقیہ مفتی محمد شفیع صاحب نے آیت "وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا- الآية" (اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔ سورة البقرة: آیت ١١٤) کی تفسیر کے تحت لکھا ہے: "مسجد میں ذکر و نماز سے روکنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز و حرام ہیں، ان میں ایک صورت تو یہ کھلی ہوئی ہے ہی کہ کسی کو مسجد میں جانے سے یا وہاں نماز و تلاوت سے صراحتاً روکا جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں شوروشغب کرکے یا اس کے قرب و جوار میں باجے گاجے بجا کر لوگوں کی نماز و ذکر وغیرہ میں خلل ڈالے، یہ بھی ذکر اللہ سے روکنے میں داخل ہے۔ اسی طرح اوقات نماز میں جبکہ لوگ اپنی نوافل یا تسبیح و تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوں، مسجد میں کوئی بلند آواز سے تلاوت یا ذکر بالجہر کرنے لگے، تو یہ بھی نمازیوں کی نماز و تسبیح میں خلل ڈالنے اور ایک حیثیت سے ذکر اللہ کو روکنے کی صورت ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے، ہاں جب مسجد عام نمازیوں سے خالی ہو، اس وقت ذکر یا تلاوت جہر کا مضائقہ نہیں، اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس وقت لوگ نماز و تسبیح وغیرہ میں مشغول ہوں مسجد میں اپنے لئے سوال کرنا یا کسی دینی کام کے لئے چندہ کرنا بھی ایسے وقت ممنوع ہے۔" (معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۰۸ء، جلد اول، صفحہ ۲۹۹- ۳۰۰)۔


 فقہاء کی ان ساری وضاحتوں کے باوجود جو کہ یقیناً ائمہ مساجد کے علم میں ہوں گی، مساجد اعلانات کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ امام کے سلام پھیرتے ہی مختلف قسم کے اعلانات شروع ہوجاتے ہیں جبکہ مسبوق یعنی دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرنے میں اور دیگر نمازی تسبیحات میں مشغول ہوتے ہیں لیکن ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ اعلانات مختلف عنوانات سے ہوتے ہیں جن میں جماعت کے اوقات میں تبدیلی، بیماروں کے لئے دعا کی درخواست، نماز جنازہ کے وقت اور جگہ کا تعین، مساجد و مدارس کے چندے، مسجد کی آمدنی و اخراجات کا حساب، درس قرآن، جلسہ اور دعوتی اجتماعات کا انعقاد، گرمی کے دنوں میں رحمت کی بارش کی دعا، اور ان دنوں فلسطینی مسلمانوں کے لئے دعا بھی شامل ہے۔ محتاجوں اور بے کسوں کے ذریعے امداد کی اپیلیں ان کے علاوہ ہیں۔ پھر رمضان میں سحری کے اعلانات بھی ان میں شامل ہوجاتے  ہیں۔ ان میں سے اکثر اعلانات اب مائیک کے ذریعے ہوتے ہیں جو نمازیوں کی یکسوئی کو منتشر کرنے میں اور بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ اعلانات بار بار اور متواتر طریقہ پر کئے جاتے ہیں۔ ایک مؤذن صاحب کے پاس بیماروں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے اور وہ ہر دن کسی نہ کسی نماز میں ان کی صحت یابی کی دعا کے عنوان سے وہ فہرست پڑھتے رہتے ہیں، جبکہ اتنے ناموں کو یاد رکھنا کسی کے بس کی بات نہیں اور دعا تو ہمارے دیار میں ائمہ ہی کراتے ہیں تو کیوں نہیں وہ  فہرست بار بار نشر کرنے کے بجائے ان کے حوالے کر دی جاتی۔ بعض دن تو دو دو نمازوں میں یہ اعلان  ہوتا ہے حتیٰ کہ فجر کی نماز میں  بھی۔ فجر کے سناٹے میں مائیک سے کیا گیا اعلان ایک حساس آدمی کی سماعت پر ایسی ضرب لگاتا  ہے جیسے کسی نے لوہے کی چادر پر ہتھوڑا چلا دیا ہو اور دل سے یہ یہی بد دعا نکلتی ہے کہ اللہ ان کو کبھی صحت نہ دے ۔ غرض یہ کہ مسجدیں اعلانات اور چندے کا مرکز بن کر رہ گئی ہیں اور سکون سے نماز، تلاوت و اذکار میں مشغول رہنے والوں کے لئے  بڑی پریشانی ہے۔ 


ان سب پر رہی سہی کسر اونچی آوازمیں بولنے والے مقتدی پوری کردیتے ہیں، کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ نماز سے جلد از جلد فارغ  ہوکر پچھلی صفوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہوکر زور زور سے آپس میں گفتگو شروع  کردیتے ہیں جبکہ اطمینان و سکون سے نماز ادا کرنے والے لوگ ان کی اس حرکت سے سخت پریشان اور نالاں رہتے ہیں۔ بعض امام کو بھی ایسی حرکت میں ملوث پایا جبکہ ان کے اوپر یہ ذمے داری تھی کہ وہ لوگوں کو مسجد کے آداب سے متعلق مذکورہ باتوں کی تعلیم دیتے۔ لیکن افسوس کہ مصلحت کوشی نے ان علماء کے منہ پر تالا جڑ دیا ہے بلکہ اس طرح کے ہر غلط عمل کو غیر ضروری اور نامناسب تاویلیں کر کے درست ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمائے سلف کے نزدیک یہ بات بالکل واضح تھی کہ مباح، جائز بلکہ شریعت کے اندر مطلوب کام بھی اگر سنتوں کی خلاف ورزی کرکے کی جائے تو وہ خیر سے خالی ہی ہوگا لیکن ہمارے زمانے کے علماء کی سوچ ان سے بالکل مختلف ہے الا ماشاء اللہ ۔ 


عوام کی اکثریت چونکہ علم دین سے نابلد اور عبادات میں یکسوئی اور خشوع و خضوع کی لذت سےناآشنا ہے اس لئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے؟ اعلانات کے مسئلہ کو نوٹس بورڈ (وھائیٹ بورڈ) کے استعمال کے ذریعے حل کیا جاسکتا  ہے۔ نیز مساجد و مدارس کے چندے کے لئے مسجد کے کسی گوشے کو مخصوص کیا جاسکتا  ہےجہاں سفراء اعلان نامہ (Placard) یا اشتہار لے کر خاموشی سے بیٹھ کر بھی اپنا کام کر سکتے ہیں۔ درس قرآن اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات کے لئے لوگوں کے سنت و نوافل سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جاسکتا ہے اور جو اجتماعات ہر ہفتہ معمول کے مطابق ہوتے ہیں ان کے لئے تو کسی اعلان کی ضرورت ہی نہیں ہے، یاد دہانی کے لئے نوٹس بورڈ پر لکھ دینا بھی کافی ہے۔ اصل بات توجہ اور حس کی ہے، جب احساس ہی مٹ جائے تو بری چیز بھی بھلی لگنے لگتی ہے۔ احقر نے بالکل عاجز آکر اور کافی ہمت جٹا کر اس برائی کے خلاف آواز بلند کی ہے (جسے لوگوں نے کار خیر سمجھ رکھا ہے) لیکن اس کو محسوس کرنے اور اس سلسلے کے مناسب اصلاحی اقدامات کرنے کا کام ائمہ مساجد، مسجد کمیٹی کے ممبران اور عوام الناس کا ہے۔ امید ہے کہ احقر کی باتوں کو منفی طریقے پر نہیں لیا جائے گا۔ آخر میں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عنایت کرے، نیز ہم سب کو مسجد کی عظمت اور اس  کے ادب و احترام کو ملحوظ  خاطر رکھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment