------------------------------------------------------------
ڈاکٹر محمد واسع ظفر
[Barish Aur Sakht Sardi Mein Masjid Ki Jama’at Se Rukhsat, Roznama Udaan, Jammu, Dated 28th July, 2023, P. 07]
بارش اور سخت سردی میں مسجد کی جماعت سے رخصت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض نمازوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی سخت تاکید فرمائی گئی ہے اور احادیث میں اس کی بڑی فضیلت بھی وارد ہوئی ہے۔ ایک روایت میں جماعت کی نماز کو تنہا ادا کی گئی نماز کے مقابلے میں ستائیس درجہ افضل بتایا گیا ہے تو دوسری روایت میں اسے پچیس گنا زیادہ ثواب کی حامل قرار دیا گیا ہے، نیز مسجد کی طرف اٹھے ہر قدم پر ایک گناہ کی معافی، ایک درجہ کی بلندی اور نماز گاہ میں موجود رہنے تک فرشتوں کی رحمت کی دعا میں حصہ داری کی بھی بشارت دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 645 اور 647)۔
اس کے برعکس جماعت ترک کرنے والوں پر شارع علیہ السلام نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے یہاں تک کہ امت پر اپنی تمام تر شفقتوں کے باوجود ان کے گھروں میں آگ لگادینے کی تمنا ظاہر فرمائی لیکن عورتوں اور بچوں کی رعایت کی وجہ سے آپ نے ایسا نہیں کیا۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 644)۔ نیز جماعت ترک کرنے والوں پر آپ نے شیطان کے مسلط ہوجانے کے خدشے کا بھی اظہار فرمایا ہے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 547)۔
نصوص میں وارد ہوئی تاکید بلیغ اور وعید شدید کی وجہ سے بعض ائمہ مجتہدین جن میں امام عطا بن ابی رباحؒ، اوزاعیؒ، احمد بن حنبلؒ، داؤد ظاہریؒ، ابوثورؒ، ابن خزیمہؒ، ابن حبانؒ اور ابن منذرؒ شامل ہیں، نے جماعت سے پنجگانہ نماز ادا کرنے کو فرض قرار دیا ہے جبکہ امام شافعیؒ، امام نوویؒ، محمد بن قاسم الغزیؒ، شیخ ابراہیم بیجوریؒ اور اکثر شافعی علماء اسے فرض کفایہ قرار دیتے ہیں۔ احناف کی اکثریت جماعت کے وجوب کی قائل ہے لیکن جمہور علماء اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں۔ احناف میں سے امام ابوالحسن الکرخیؒ اور شوافع میں شیخ ابو شجاعؒ اور علامہ ابوالقاسم الرافعیؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔ فقہاء کے درمیان اختلاف کی وجہ اس سلسلے میں وارد احادیث کے مفہوم میں تعارض ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام حالات میں جماعت کی حاضری کی سخت تاکید وارد ہوئی ہے۔ لیکن بعض مخصوص حالات میں جماعت کو چھوڑنے کی رخصت بھی دی گئی ہے، ان میں سے ایک بارش، کیچڑ اور سخت سردی بھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک ٹھنڈی اور تیز ہوا کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا : "أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَال" یعنی لوگو سنو ! نمازِ اپنی قیام گاہوں پر ہی ادا کرلو ۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے: "أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَال" یعنی لوگو سنو! نماز اپنی قیام گاہوں پر ہی ادا کرلو ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 666)۔ صحیح مسلم کی روایت میں عبداللہ بن عمرؓ کے واقعہ میں ٹھنڈی اور تیز ہوا کے ساتھ بارش کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیں صحیح مسلم، رقم الحدیث 1601)
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے پھر (اسی دوران) بارش ہو گئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لِيُصَلِّ مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ فِي رَحْلِهِ" یعنی تم میں سے جو چاہے اپنی قیام گاہ میں ہی نماز ادا کرلے ۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث 1603)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تو بارش اور کیچڑ کی وجہ سے جمعہ کی نماز سے بھی رخصت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ان سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک بارش والے دن اپنے مؤذن سے فرمایا : جب تم أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمد رسول الله کہہ چکو تو حي علي الصلوة (نماز کی طرف آؤ) نہ کہنا (بلکہ) صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ (یعنی نماز اپنے گھروں میں ہی ادا کرو) کہنا ۔ (راوی نے) کہا : لوگوں نے اس کو ایک غیر معروف کام سمجھا اور حیرانی کا اظہار کیا۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : کیا تم اس بات پر تعجب کر رہے ہو؟ یہ کام تو انھوں نے کیا جو مجھ سے بہت زیادہ بہتر تھے (یعنی رسول اللّٰہ ﷺ) ۔ بے شک جمعہ پڑھنا لازم ہے لیکن مجھے برا معلوم ہوا کہ میں تمھیں گھروں سے نکال کر تنگی میں مبتلا کروں اور تم کیچڑ اور پھسلن میں چل کر آؤ۔" (صحیح مسلم، رقم الحدیث 1604)۔ بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: "كَرِهْتُ أَنْ أُؤَثِّمَكُمْ، فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إِلَى رُكَبِكُمْ" یعنی میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں اور تم اس حالت میں (مسجد) آؤ کہ کیچڑ میں گھٹنوں تک آلودہ ہورہے ہو۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 668)
مذکورہ روایات سے یہ واضح ہے کہ بارش، کیچر، سخت سردی اور طوفانی ہوا ترک جماعت کے اعذار میں سے ہیں، یعنی ان اسباب کی وجہ سے مسجد کی جماعت کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس رخصت سے جمعہ بھی مستثنیٰ نہیں یعنی ان اعذار کی وجہ سے اگر کوئی شخص جمعہ بھی ترک کردے تو جائز ہے، گنہ گار نہیں ہوگا لیکن مسجد میں جماعت یا جمعہ موقوف نہیں کیا جائے گا، بروز جمعہ جو لوگ بھی وہاں پہنچ پائیں گے وہ باضابطہ جمعہ کی نماز ادا کریں گے اور مسجد نہیں پہنچ سکنے والے اپنے گھروں پر ظہر کی نماز ادا کریں گے۔ بارش اور تیز و تند سرد ہوا پر برف باری، ژالہ باری اور باد سموم (لو) کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ فقہاء نے رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو بھی جماعت چھوڑنے کے عذر میں شامل کیا ہے۔
یہ ہے اسلام میں آسانی اور رخصت کا پہلو لیکن جیساکہ روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ یہ رخصت اختیاری ہے یعنی جو چاہے اس کا فائدہ اٹھائے اور جو چاہے عزیمت کا پہلو اختیار کر کے ایسی حالتوں میں بھی جماعت میں شریک ہو۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج گرامی یہ تھا کہ آپ کو جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا تو آپ آسان صورت کو ہی اختیار فرمایا کرتے تھے بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 6126) ۔ اس لئے ایک عام بندے کے لئے بھی یہی پسندیدہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے اپنی کمزوری اور عاجزی کا اظہار کرے اور دی گئی سہولت کو اختیار کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے۔
البتہ جو لوگ نوجوان ہیں یا جن کا گھر مسجد سے بالکل قریب ہو یا جنہیں مسجد تک جانے کے اضافی وسائل مثلاً گاڑی، چھتری، بارانی کوٹ (برساتی)، ٹارچ، پلاسٹک یا ربڑ کے جوتے چپل وغیرہ دستیاب ہوں، انہیں عزیمت کا پہلو اختیار کرنا چاہیے یعنی مسجد جاکر جماعت میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کی عملی شکرگزاری احقر کو یہی لگتی ہے کہ ان سے استفادہ کیا جائے اور عبادات کی ادائیگی میں ان سے مدد لی جائے۔
ضعیف العمر لوگوں کو رخصت کا پہلو ہی اختیار کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ کیچڑ میں پھسل کر گر گئے تو ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خدشہ رہتا ہے۔ بڑھاپے میں ہڈیاں یوں بھی کمزور ہو جاتی ہیں اور جلدی جڑتی بھی نہیں۔ اس لئے اگر ایک بار بھی ایسا ہوگیا تو کافی دنوں تک پریشانی جھیلنا پڑ سکتی ہے اور کتنی ہی جماعت کی نمازوں اور دیگر اعمال صالحہ سے محرومی ہاتھ آسکتی ہے۔ اس لئے عقل اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ مذکورہ حالات میں چند نمازوں کی جماعت کو قربان کرکے اپنی صحت اور تندرستی کو سلامت رکھا جائے تاکہ بعدہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں میں شرکت یقینی ہو سکے۔
یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ مذکورہ وجوہات کے علاوہ بھی کچھ ایسے اعذار ہیں جن کی بناپر مسجد کی جماعت کی حاضری ساقط ہوجانے پر فقہاء کا اتفاق ہے۔ مثلًا ایسی بیماری جس کے ساتھ مسجد میں حاضری مشکل ہو، اسی طرح ایسی جسمانی معذوری جو مسجد تک پہنچنے میں مانع ہو جیسے بینائی کا زائل ہوجانا یا پاؤں کا کٹا ہونا یا پولیوزدہ ہونا یا جسم کا ایسا فالج زدہ ہونا جو چلنے پھرنے سے معذور کردے یا ایسا بڑھاپا جو چلنے پھرنے کے لائق نہ چھوڑے۔ جان و مال کے تلف ہونے کا خوف بھی جماعت کے ساقط ہونے کا شرعی عذر ہے۔ ان کے علاوہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس کو پیشاب پاخانہ کی حاجت درپیش ہو یا جس کے سامنے کھانا پیش کردیا گیا ہو، اسے اطمینان سے اپنی حاجت پوری کرنے کے بعد ہی نماز میں مشغول ہونا چاہیے اگرچہ جماعت کھڑی ہوجائے۔ (صحیح بخاری: رقم 674، صحیح مسلم: رقم 1246)۔ یہ حکم اس لئے ہے تاکہ نماز اطمینان و سکون اور خشوع وخضوع سے ادا کی جاسکے۔
آخر میں اللّٰہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عنایت کرے اور اپنی منشاء و رضا کے مطابق اس پر چلنے کی توفیق بھی عنایت کرے۔ آمین !
******



No comments:
Post a Comment