Thursday, 18 May 2023

نمازمیں امام کی اقتدا کا صحیح طریقہ

-----------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر


[𝐍𝐚𝐦𝐚𝐳 𝐌𝐞𝐢𝐧 𝐈𝐦𝐚𝐦 𝐤𝐢 𝐈𝐪𝐭𝐢𝐝𝐚 𝐤𝐚 𝐒𝐚𝐡𝐢 𝐓𝐚𝐫𝐞𝐞𝐪𝐚, 𝐓𝐡𝐞 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲 𝐔𝐝𝐚𝐚𝐧, 𝐒𝐫𝐢𝐧𝐚𝐠𝐚𝐫, 𝐕𝐨𝐥. 𝟏𝟐, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝐍𝐨. 𝟏𝟐𝟐, 𝐌𝐚𝐲 𝟐𝟎, 𝟐𝟎𝟐𝟑, 𝐏. 𝟎𝟓]


[𝐍𝐚𝐦𝐚𝐳 𝐌𝐞𝐢𝐧 𝐈𝐦𝐚𝐦 𝐤𝐢 𝐈𝐪𝐭𝐢𝐝𝐚 𝐤𝐚 𝐒𝐚𝐡𝐢 𝐓𝐚𝐫𝐞𝐞𝐪𝐚, 𝐔𝐫𝐝𝐮 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲 𝐉𝐚𝐝𝐞𝐞𝐝 𝐈𝐧-𝐃𝐢𝐧𝐨𝐧, 𝐍𝐞𝐰 𝐃𝐞𝐥𝐡𝐢, 𝐕𝐨𝐥. 𝟑𝟖, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝐍𝐨. 𝟏𝟒𝟎, 𝐌𝐚𝐲, 𝟐𝟎, 𝟐𝟎𝟐𝟑, 𝐏. 𝟎𝟑.]


دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں یکجہتی، باہمی اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ کتب احادیث میں اگر آپ ’کتاب الاحکام‘ یا ’کتاب الامارت و خلافت‘، ’کتاب الفتن‘ اور ’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة‘ کھول کر دیکھیں تو آپ کو ایسی بہت سی احادیث ملیں گی جن میں جماعت کی متابعت کاحکم، جماعت سے مفارقت یا الگ ہونے سے اجتناب کی ہدایت اور امیر کی اطاعت و تابعداری کا حکم ملے گا۔ باہمی اتحاد و اعتماد اور اجتماعیت کے قیام نیز افتراق و انتشار سے بچنے کے لئے ضبط و نظم کا قیام ایک لازمی امر ہے۔ اگر آپ اسلامی عبادات پر بھی ایک نگاہ ڈالیں تو ان میں بھی آپ کو اجتماعیت اور نظم و ضبط کی تعلیم نظر آئے گی خواہ وہ نماز ہو، روزہ ہو، زکوٰة ہو یا حج ۔ نماز پنجگانہ، جمعہ اور عیدین سے اسی اجتماعیت کا درس دینا مقصود ہے۔ فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی تاکید کے پیچھے جہاں بہت ساری حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک بڑی حکمت دن میں پانچ بار اجتماعیت کا احساس دلانا، امام یا امیر کی متابعت اور نظم و ضبط کی ٹریننگ دینا بھی ہے جس سے ایک منظم اور صالح اسلامی معاشرہ وجود میں آسکے۔ مقتدی کا ہر عمل میں امام کی اقتدا اور پیروی کرنا اسی نظم و ضبط کی تربیت کے دائرے میں ہے۔ لیکن جس طرح ہم نے دین کے دیگر شعبوں میں خرابیاں پیدا کرلیں، اسلامی تعلیمات اور سنتوں کی خلاف ورزی کرنے لگے، اسی طرح عبادات کے شعبے میں بھی کرلی۔ چنانچہ نماز اور اس میں امام کی متابعت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں! یہاں بھی سنتوں اور ہدایات نبویؐ کی خلاف ورزی عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی محسوس ہوئی کہ اس مسئلہ پر روشنی ڈالی جائے۔ فقہاء نے امام کی اقتدا اور اس کی شرائط سے متعلق مسائل کو بہ تفصیل کتب فقہ کے کتاب الصلاة میں جماعت کے باب میں بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے ان سب کا احاطہ کرنا احقر کی غرض نہیں بلکہ صرف ان غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح مقصود ہے جو روزمرہ کے مشاہدے میں ہیں۔

امام کی متابعت کے حوالہ سے مقتدیوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے؛ ایک گروہ تو وہ ہے جواعمال نماز میں امام پر سبقت کرتا ہے یعنی تکبیرات، رکوع و سجود، جھکنے اور اٹھنے اور سلام پھیرنے میں اپنی عجلت کے باعث امام سے آگے نکل جاتا ہے، ان کی اس خصلت کو ’مبادرت‘ یا ’مسابقت‘ کہہ سکتے ہیں، دوسرا گروہ وہ ہے جو ہر عمل میں امام کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، ان کی یہ صفت ’مقارنت‘ کہی جاسکتی ہے اورتیسرا گروہ وہ ہے جو اپنی نماز کے ہر رکن کی ادائی امام کے رکن کے ادا ہونے کے قدرے بعد یعنی اس کے پیچھے پیچھے اس طرح کرتا ہے کہ دوسرے رکن میں منتقل ہونے سے پہلے اس سے جاملے، ان کی یہ خو ’معاقبت‘ کہی جاسکتی ہے۔ ان تینوں میں سے کون سی جماعت صحیح نہج پر ہے، اسے سمجھنے کے لئے درج ذیل احادیث پر غور کیجئے جن میں امام کی متابعت کی تعلیم دی گئی ہے ۔ 

سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک بار) ہمیں خطبہ دیا، آپؐ نے ہمارے لئے ہمارا طریقہ واضح کردیا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی۔ آپؐ نے فرمایا: ”إِذَا صَلَّیْتُمْ فَأَقِیْمُوا صُفُوفَکُمْ، ثُمَّ لْیَؤُمَّکُمْ أَحَدُکُمْ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ "غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ"، فَقُولُوا: آمِینَ، یُجِبْکُمْ اللہُ، فَإِذَا کَبَّرَ وَ رَکَعَ فَکَبِّرُوا وَارْکَعُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ یَرْکَعُ قَبْلَکُمْ وَ یَرْفَعُ قَبْلَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ : فَتِلْکَ بِتِلْکَ، وَإِذَا قَالَ ’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ فَقُولُوا: اللّٰھُمَّ ! رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ، یَسْمَعُ اللہُ لَکُمْ، فَإِنَّ اللہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی، قَالَ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّهِ ﷺ: ’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘، وَإِذَا کَبَّرَ َوسَجَدَ فَکَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ یَسْجُدُ قَبْلَکُمْ وَ یَرْفَعُ قَبْلَکُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ : فَتِلْکَ بِتِلْکَ، وَإِذَا کَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْیَکُنْ مِنْ أَوَّلَ قَوْلِ أَحَدِکُمْ : اَلتَّحِیَّاتُ ۔۔۔۔۔ وَرَسُولُهُ“ (صحيح مسلمؒ، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠٠٠م،  رقم الحديث ٩٠٤)

 (ترجمہ): ”جب تم نماز ادا کرو تو (پہلے) اپنی صفوں کو سیدھا کرو، پھر تم میں سے ایک شخص تمھاری امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ "غیر المغضوب علیھم ولاالضالین" کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمھاری دعا قبول فرمائے گا، پھر جب وہ تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم تکبیر کہو اور رکوع کرو، امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” تو (مقتدی کی طرف سے رکوع میں جانے کی ) یہ (تاخیر) اس (تاخیر) کا بدل ہوگی (جو رکوع سے سر اٹھانے میں ہوگی) اور جب امام ’سمع اللہ لمن حمدہ‘ کہے تو تم ’اللهم ربنا و لک الحمد‘ کہو، اللہ تعالیٰ تمھاری (بات) سنے گا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی زبان سے فرمایا ہے: "اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد بیان کی" اور جب امام تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم تکبیر کہو اور سجدہ کرو، امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” تو یہ (تاخیر) اس (تاخیر) کا بدل ہوگی اور جب وہ قعدہ میں ہو تمھارا پہلا بول (یہ) ہو: ’اَلتَّحِیَّاتُ سے عَبْدُہُ وَ رَسُولُهُ‘ تک ۔“ 

دوسری روایت ابوہریرہؓ کی ملاحظہ فرمائیں، وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤتَمَّ بِهِ، فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا وَلَا تُکَبِّرُوا حَتّٰی یُکَبِّرَ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا وَلَا تَرْکَعُوا حَتّٰی یَرْکَعَ، وَإِذَا قَالَ: ’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘ فَقُولُوا: اللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ، قَالَ مُسْلِمٌ: وَلَکَ الْحَمْدُ، وَ إِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَلَا تَسْجُدُوا حَتّٰی یَسْجُدَ“ (سنن أبي داوُدؒ، دار الحضارة للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠١٥م،  جزء من رقم الحديث ٦٠٣) (ترجمہ): ”امام اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ سو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہہ لے تم تکبیر نہ کہو، اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور اس وقت تک رکوع میں نہ جاؤ جب تک کہ وہ رکوع کے لئے جھک نہ جائے، اور جب وہ ’سمع اللہ لمن حمده‘ کہے تو تم ’اللهم ربنا و لک الحمد‘ کہو، مسلم (بن ابراہیم) کے الفاظ ہیں: ’ولک الحمد‘ کہو، وہ جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اس وقت تک سجدے کے لئے نہ جھکوجب تک وہ سجدے میں چلا نہ جائے۔“ 

ان روایات سے یہ بالکل واضح ہے کہ مقتدی کو نماز کے سارے افعال کی ادائی میں امام کے متصل پیچھے ہونا چاہیے خواہ وہ تکبیر تحریمہ  (نماز میں داخل ہونے کی تکبیر) ہو، تکبیرات انتقال (ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے کی تکبیرات) ہو، رکوع و سجود کے لئے جھکنا ہو یا قومہ و جلسہ کے لئے اٹھنا ہو، کسی بھی حال میں اسے امام پر سبقت نہیں کرنا چاہیے۔ ابوهریرهؓ کی روایت نے یہ بھی واضح کردیا کہ ارکان کی ادائی میں امام کے ساتھ ساتھ چلنا بھی مناسب نہیں کیوں کہ آپ نے فرمایا کہ جب تک امام تکبیر نہ کہہ لے تم تکبیر نہ کہو اور امام تکبیر کہنے والا نہیں کہا جائے گا جب تک کہ وہ پورا لفظ ’الله اكبر‘ نہ کہہ لے۔ اسی لئے امام احمد بن حنبلؒ نے ان احادیث کی بنا پر یہ موقف اختیار کیا جو کہ ان کے رسالہ ”کتاب الصلوٰة“ میں درج ہے کہ تکبیر تحریمہ ہو یا تکبیرات انتقال، مقتدی اس وقت تک اللہ اکبر کہنا شروع نہ کرے جب تک امام کے اللہ اکبر کی آواز ختم نہ ہوجائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مقتدی اس وقت تک رکوع و سجود کے لئے نہ جھکے جب تک امام رکوع کے لئے جھک نہ جائے یا سجدے کے لئے اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دے جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے۔ ان احادیث کی مزید بہتر سمجھ حاصل کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین  کے طرز عمل کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

عبداللہ بن یزیدؒ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے براء بن عازبؓ نے حدیث بیان کی اور وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے کہ وہ لوگ (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جب آپؐ رکوع سے اپنا سر اٹھا لیتے تو میں کسی کو نہ دیکھتا کہ اپنی پشت (سجدے کے لئے) جھکاتا ہو یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اپنی پیشانی مبارک زمین پر رکھ دیتے، اس کے بعد آپؐ کے پیچھے والے سجدے میں گرتے۔ (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ١٠٦٢)۔ امام ترمذیؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :  ”وَ بِهِ یَقُولُ أَھْلُ الْعِلْمِ: إِنَّ مَنْ خَلْفَ الإِمَامِ إِنَّمَا یَتْبَعُونَ الإِمَامَ فِیمَا یَصْنَعُ، لَا یَرْکَعُونَ إِلَّا بَعْدَ رُکُوعِهِ وَ لَا یَرْفَعُونَ إِلَّا بَعْدَ رَفْعِهِ، لَا نَعْلَمُ بَیْنَھُمْ فِي ذٰلِکَ اخْتِلَافًا“ (سنن الترمذيؒ، دار الحضارة للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠١٥م،  رقم الحديث ٢٨١) (مفہوم) ”اور یہی اہل علم کہتے ہیں یعنی: جو امام کے پیچھے ہو وہ ان تمام امور میں جنہیں امام کر رہا ہو امام ہی کی پیروی کرے (یعنی اسے امام کے بعد کرے)، امام کے رکوع میں جانے کے بعد ہی رکوع میں جائے اور اس کے سر اٹھانے کے بعد ہی اپنا سر اٹھائے، ہمیں اس مسئلہ میں ان کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔“ 

مذکورہ احادیث و آثار اور ائمہ احادیث کی تشریحات سے یہ بالکل واضح ہے کہ مقتدی نماز کی ایک حالت میں تب تک رہے گا جب تک امام دوسری حالت میں منتقل نہ ہوجائے اور اس کی تکبیر انتقال (یعنی اللہ اکبر) یا رکوع سے قومہ کی حالت میں جانے میں تسمیع یعنی ’سمع اللہ لمن حمده‘ کی آواز ختم نہ ہوجائے۔ ہمارے یہاں اکثریت کا حال یہ ہے کہ جوں ہی امام نے تکبیر کہنا شروع کیا وہ بھی ان کے ساتھ ہی تکبیر کہنا شروع کردیتے ہیں اور سارے ارکان میں امام کے ساتھ ساتھ ہی چلتے رہتے ہیں۔ اس میں اس بات کا خدشہ بنا رہتا ہے کہ امام ’الله اكبر‘ کو کھینچ کر کہے اور مقتدی بغیر کھینچے ہوئے ادا کرے، ایسی صورت میں امام کے تکبیر ختم کرنے سے پہلے ہی وہ تکبیر ختم کردے گا اور امام پر سبقت کرنے کے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔ اگر ایسا تکبیر تحریمہ میں ہوا تو گویا مقتدی نماز میں امام سے پہلے داخل ہو گیا تو بالاتفاق ائمہ فقہ اس کی اقتدا ہی درست نہیں ہوئی تو نماز کہاں سے درست ہوگی؟ 

امام پر سبقت کرنے سے ممانعت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ امام مسلمؒ نے حضرت انسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں کہا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور نماز سے فراغت کے بعد ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: ”أَیُّھَا النَّاسُ! إِنِّی إِمَامُکُمْ، فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّکُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ، وَلَا بِالْقِیَامِ وَلَا بِالاِنْصِرَافِ“ (صحیح مسلم، جزء من رقم الحديث ٩٦١)۔ (ترجمہ): ”لوگو ! میں تمھارا امام ہوں، تم مجھ سے سبقت نہ کیا کرو، نہ رکوع میں، نہ سجود میں، نہ قیام میں اور نہ انصراف (یعنی سلام پھیرنے) میں۔“  

امام مسلمؒ نے ہی حضرت ابوہریرہؓ سے بھی روایت نقل کی ہے کہ انہوں کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تعلیم دیتے تھے، فرماتے تھے: ‘‘لَا تُبَادِرُوا الإِمَامَ، إِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ ﴿وَلَاالضَّالِّیْنَ﴾ فَقُولُوا: آمِینَ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا، وَإِذَا قَالَ: ’سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘ فَقُولُوا: اللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ“ (صحیح مسلم، رقم الحديث ٩٣٢) ۔ (ترجمہ): ”امام سے آگے نہ بڑھو، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو، جب وہ ﴿ولاالضالین﴾ کہے تو تم آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ ‘سمع اللہ لمن حمدہ’ کہے تو تم ’اللهم ربنا لک الحمد‘ کہو!“ 

حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”إِذَا قُمْتم إِلَی الصَّلَاةِ فَلَا تَسْبِقُوْا قَارِئَکُمْ بِالرُّکُوْعِ وَ السُّجُوْدِ، وَلٰکِنْ ھُوَ یَسْبِقُکُمْ“ (سلسلة الأحاديث الصّحيحة للألبانيؒ، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض،الطبعة الثانية ١٤١٣هجري، رقم الحديث ۱۳۹۳)۔ (ترجمہ): ”جب تم نمازادا کرنے کے لئے (کسی امام کی اقتدا میں) کھڑے ہوجاؤ تو رکوع و سجود کرنے میں امام سے سبقت نہ کیا کروبلکہ وہ تم سے سبقت کرے گا ۔“  

سنن أبی داؤد کی ایک روایت (رقم ٦١٩) میں مسابقت کی ممانعت کے ساتھ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک کے بھاری ہونے کی علت کا بھی ذکر ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام اگر بھاری جسم کے مالک ہوں یا بہت ضعیف ہوں تو مقتدی کو اٹھنے بیٹھنے میں اس حکم کا اور بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں امام سے عمل میں آگے بڑھنا لازم نہ آجائے۔

 ایک حدیث میں امام سے سبقت کرنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”أَمَا یَخْشَی أَحَدُکُمْ أَوْ لَایَخْشَی أَحَدُکُم َإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ أَنْ یَجْعَلَ اللهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارِ أَوْ یَجْعَلَ اللهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ“ (صحیح بخاریؒ، مكتبة الرشد، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠٠٠م، رقم الحديث ٦٩١، بروایت ابوہریرہؓ)۔ (مفہوم) ”کیا تم میں وہ شخص جو (رکوع یا سجدہ میں) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے، اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ پاک اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنادے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنادے۔“ 

اگر کوئی شخص غلطی یا دھوکے سے امام سے کسی رکن میں سبقت کر جائے تو اسے چاہیے کہ سابقہ رکن میں لوٹ جائے۔ اس سلسلے میں عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: ”لَا تُبَادِرُوا أَئِمَّتَکُمْ بِالرُّکُوعِ وَ لَا بِالسُّجُودِ، وَإِذَا رَفَعَ أَحَدُکُمْ رَأْسَهُ وَالإِمَام سَاجِدٌ، فَلْیَسْجُدْ، ثُمَّ لْیَمْکُثْ قَدْرَ مَا سَبَقَه بِهِ الإِمَامَ“ (المصنف لإبن أبي شیبة، دار قرطبہ،  بیروت - لبنان، ٢٠٠٦م، رقم الحدیث ٤٦٥٤) - (ترجمہ): ”رکوع اور سجدے میں اپنے امام سے آگے نہ بڑھو، جب تم میں سے کوئی اپنا سر اٹھالے اور امام سجدے کی حالت میں ہو تو اسے چاہیے کہ (واپس) سجدے میں پڑجائے، پھر امام سے سبقت کے بقدر وقت سجدے میں ٹھہرے۔“ اس اثر کو امام بخاریؒ نے صحیح بخاریؒ کے کتاب الاذان میں باب إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِهِ کے تحت (حدیث نمبر ٦٨٧ سے قبل) تعلیقاً نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں: ”إِذَا رَفَعَ قَبْلَ الإِمَامِ یَعُودُ فَیَمْکُثُ بِقَدْرِ مَا رَفَعَ ثُمَّ یَتْبَعُ الإِمَامَ“ (ترجمہ): ”جب کوئی امام سے قبل سر اٹھالے تو اسے چاہیے کہ (سابقہ رکن میں) لوٹ جائے، پھر امام سے سبقت کے بقدر (اس رکن میں) ٹھہرے پھر امام کی پیروی کرے۔“ 

صاحب مصنف نے کتاب الصلوٰة میں باب الرَّجُلُ یَرفَعُ رَأسَهُ قَبْلَ الإِمَام، مَنْ قَالَ یَعُودُ فَیَسْجُدُ کے تحت حضرت عطاء ابن ابی رباحؒ کا یہ قول نقل کیا ہے: ”وَإِذَا رَفَعتَ رَأْسَکَ قَبْلَ الإِمَام فَعُدْ إِلٰی أَنْ تََریٰ، أَنَّ الإِمَامَ قَدْ رَفَعَ قَبْلَک“ (المصنف لإبن أبي شیبة، رقم الحدیث ٤٦٦١) ۔ (ترجمہ): ”اگر تم امام سے پہلے اپنا سر اٹھالو تو (اس رکن میں) واپس ہوجاؤ یہاں تک کہ دیکھ لو کہ امام نے تم سے پہلے سر اٹھا لیا ہے۔“ صاحب مصنف نے  مسابقت کرنے والے کے لئے سابقہ رکن میں لوٹنے کا اسی طرح کا قول حضرت عمرؓ، حضرت حسن بصریؒ، ابراهیم بن یزید نخعیؒ کا بھی اسی باب کے تحت نقل کیا ہے۔ اگر وہ سابقہ رکن میں نہیں لوٹا اور امام کے ساتھ یا اس کے بعد اس کو نہیں دہرایا تو احناف کے نزدیک اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اور اگر یہ مسابقت یعنی امام سے آگے بڑھنا جان بوجھ کر ہو تو بھی نماز کے باطل ہونے کا خدشہ ہے۔ فقہاء نے امام کی متابعت کو واجب اور اس سے آگے بڑھنے کو حرام لکھا ہے۔

 تکبیر تحریمہ میں امام سے پہل کرنے والے کے سلسلے مں سبھی ائمہ فقہ کی متفقہ رائے ہے کہ اس کی نماز باطل ہے۔ مالکیہ، شافعیہ اور حنابله کے نزدیک تو امام کے ساتھ ساتھ تکبیر کہنے پر بھی نماز باطل ہے یعنی امام کی تکبیر کے بعد ہی مقتدی کا تکبیر کہنا درست ہے۔ سلام پھیرنے کے سلسلے میں بھی احناف کے علاوہ باقی سبھی متفق ہیں کہ امام سے پہلے ایسا کرنے پر نماز باطل ہوجاتی ہے لیکن احناف کے نزدیک نماز کراہت کے ساتھ ہوجاتی ہے اگر کسی نے تشہد مکمل کرنے کے بعد ایسا کیا ہو۔ سلام پھیرنے کےطریقے کے سلسلے میں امام ابوحنیفہؒ کے علاوہ سبھی ائمہ جن میں امام یوسفؒ اور امام محمدؒ بھی شامل ہیں، کی متفقہ رائے ہے کہ مقتدی امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی سلام پھیرے۔  اس سلسلے میں امام ابوحنیفہؒ سے متعلق دو روایتیں ہیں؛ ایک کے مطابق مقتدی امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیرے گا لیکن ایسا کرنے میں خوف اس بات کا رہتا ہے اگر امام نے سلام کو کھینچ کر ادا کیا اور مقتدی اتنا نہیں کھینچ سکا یا اس کی سانس نہیں ٹھہر سکی تو اس کے سلام کے الفاظ امام سے قبل پورے ہوجائیں گے جس سے وہ نماز کے باطل ہونے کے دوسرے اماموں کے فتووں کی زد میں آجائے گا۔  دوسری روایت کے مطابق مقتدی امام کا انتظار کرے گا، اگر امام دائیں سلام سے فارغ ہو تو دائیں طرف سلام پھیرے گا اور بائیں سلام سے فارغ ہو تو بائیں طرف سلام پھیرے گا یعنی کسی بھی طرف امام سے پہلے اپنے چہرے کو نہیں پھیرے گا۔ اسی کو امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کا صحیح قول قرار دیا ہے اور اسی کو امام طحاویؒ نے اختیار کیا ہے لیکن احناف کے یہاں امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیرنے کا طریقہ ہی عام طور پر رائج ہے جو کہ قباحت سے خالی نہیں۔ ہاں مسبوق (یعنی وہ نمازی جس کی ایک یا کچھ رکعتیں امام کے ساتھ چھوٹ گئیں) کے لئے احناف کی بھی رائے یہی ہے کہ وہ اپنی بقیہ رکعتوں کو پورا کرنے کے لئے امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کا انتظار کرے پھر کھڑا ہو تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ امام پر سجدہ سہو ہے یا نہیں ۔ دیگر ارکان میں امام سے پہل کرنے کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے لیکن امام احمدؒ کے ہاں کسی جگہ بھی پہل کرنے سے نماز باطل ہوجائے گی جیسا کہ انہوں نے اپنے رسالہ ”کتاب الصلوٰة“ میں لکھا ہے۔ ائمہ فقہ کی آراء کے لئے احقر نے علامہ وهبة الزحیلیؒ کی تصنیف ”الفقه الإسلامي و أدلته“، امام کاسانیؒ کی ”بدائع الصنائع“، شيخ أسعد محمد سعید الصاغرجيؒ کی ”الفقه الحنفي و أدلته“، السید سابقؒ کی ”فقہ السنة“ اور مولانا احمد اللہ (احمد جنگ) کی تالیف  ”المبسوط ۔ فقہ شافعی“ پر اعتماد کیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ نماز میں امام کی اقتدا کا احسن طریقہ یہی ہے کہ ہر عمل میں امام کے متصل پیچھے پیچھے چلا جائے، امام تکبیر کہہ لے تب مقتدی تکبیر کہے، امام ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہوجائے تب مقتدی اس میں منتقل ہو اور امام دونوں طرف سلام پھیر لے تب مقتدی سلام پھیرے، اس طرزعمل کو ہی احقر نے شروع میں ’معاقبت‘ لکھا تھا۔ امام سے کسی بھی عمل میں آگے بڑھنا جسے ’مبادرت‘ یا ’مسابقت‘ کہتے ہیں فقہاء کے نزدیک حرام ہے ۔ اب رہی بات ہر عمل میں امام کے ساتھ ساتھ چلنے کی تو یہ بھی قباحتوں سے خالی نہیں بلکہ بعض ائمہ کے نزدیک درست نہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ’معاقبت‘ کو ہی اختیار کیا جائے، یہی مسنون طریقہ ہے اور یہی احتیاط کا بھی تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت کرے۔ آمین!

 [رابطہ : mwzafar.pu@gmail.com]



No comments:

Post a Comment