-----------------------------------------------------
ڈاکٹر محمد واسع ظفر
[Uhdey Amaanat Hain, Muraa'aat Nahi, Weekly Pukar, Srinagar, Vol. 17, Issue No. 24,
12-18 June, 2023, P. 10.]
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عہدے داران کے انتخاب کے بعد ایک عجیب قسم کی صورتحال سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بعض وہ لوگ ہیں جو ان فیصلوں کے ناقد ہیں اور جن کے نزدیک فلاں صاحب کی جگہ فلاں صاحب کو اور فلاں کی جگہ فلاں کو فائز کیا جانا چاہیے تھا ! بعضوں نے اس بات کو موضوع بنایا کہ بورڈ میں تمام مسالک کے علماء کی نمائندگی ہونی چاہیے اور بعضوں نے تو امت کے پسماندہ طبقے کی ان دیکھی تک کی بات اٹھادی۔ نیز بعضوں کو ان فیصلوں میں سیاست کا دخل بھی نظر آیا۔ دوسری طرف ایک طبقہ ہے جس نے سوشل میڈیا کو مبارکبادیوں سے بھر رکھا ہے جیسے کسی دنیادار انسان کو کسی بڑے دنیوی عہدے کے حاصل ہونے پر دیئے جاتے ہیں۔
اسی طرح کی صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملی تھی جب مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کو 2021 میں امارت شرعیہ ہند کی سربراہی کے لئے امیر الہند خامس منتخب کیا گیا تھا ۔ سارے اردو اخبارات اور سوشل میڈیا مبارک بادیوں سے پٹے پڑے تھے، حضرت کی ایک خاص حلیہ میں تصویریں شیئر کی جارہی تھیں، جگہ جگہ استقبالیے دئیے جارہے تھے اور ان کے مناقب ان کے سامنے ہی بیان کئے جارہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ حضرت ہندوستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں اور امت مسلمہ کے سارے مسائل اب کافور ہوگئے۔ ٹھیک اسی طرح ابھی ایک گروہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کی حمایت میں کررہا ہے۔ احقر کو ان شخصیات سے کوئی بغض و اختلاف نہیں بلکہ ان حضرات کی خدمات کا معترف ہوں لیکن جس طرح ان عہدوں پر فائز ہونے کو glorify اور celebrate کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس سے لوگوں کے اندر جاہ طلبی کی ہوس پیدا ہونا لازمی ہے اور یہ وہ طبقہ کررہا ہے جسے معلوم ہے کہ اسلام میں عہدے امانت تصور کئے جاتے ہیں، مراعات نہیں !
مشہور صحابی ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک بار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امارت کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر آپ نے ارشاد فرمایا تھا:
”يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا ۔“ (صحیح مسلمؒ، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية ٢٠٠٠م، رقم الحديث ٤۷۱۹)
یعنی "اے ابوذر! تو کمزور ہے اور بلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلے میں جو ذمےداریاں اس پر عائد تھیں اس کو ادا کیا۔"
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ عہدوں کو امانت بتایا بلکہ اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ کردیا کہ جو شخص کسی منصب کی متعلقہ ذمےداریوں کو ادا کرنے کی مکمل صلاحیت نہ رکھتا ہو، اسے اس منصب سے باز رہنا چاہیے کیونکہ آخرت میں وہ اس کی رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بروز جزا اللہ تبارک و تعالیٰ ایک ایک عہدے دار اور ذمے دار سے اس کی ذمےداریوں کے سلسلے میں حساب لینے والا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ -“ (صحيح مسلمؒ، رقم الحديث ٤٧٢٤)
(مفہوم): "تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، لوگوں کا امیر (حکمران) ان کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگراں ہے اس سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا، اور آدمی کا غلام (خادم) اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، پس تم میں سے ہر ایک شخص نگراں ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔"
ایک دوسری روایت میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللهَ سَائِلٌ کُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ اَحَفَظَ اَمْ ضَیَّعَ“ (الإحسان في تقريب صحيح ابن حبانؒ، دار المعرفة، بيروت، لبنان، الطبعة الأولى ٢٠٠٤م، رقم الحديث ٤٤٩٢، بروایت انسؓ)۔
(مفہوم): "بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگراں سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرے گا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی یا اسے ضائع کردیا۔"
معاشرتی، سیاسی اور انتظامی امور میں امانت داری کا یہی وہ تصور ہے جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشرت و نظام حکومت میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اسلامی نظام میں جہاں عہدے اور ذمےداریاں امانت تصور کئے جاتے ہیں وہیں غیر اسلامی نظام میں انہیں مراعات (privileges) سمجھا جاتا ہے جو خدا کے سامنے جواب دہی کا تصور نہیں ہونے کی وجہ سے لازماً خیانت کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے نظام میں عہدوں کےلئے سیاست، رسہ کشی حتیٰ کہ قتل و غارتگری تک ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے ہم مسلمانوں نے عہدے کے امانت ہونے کے تصور کو بھلا دیا ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی عوام تو عوام، دین دار کہے جانے والے خواص کے طبقے میں بھی عہدے کے لئے ہوڑ مچی رہتی ہے جس کی وجہ سے ساری ملی تنظیمیں آپسی چپقلش، سیاست بازی اور انحطاط کا شکار ہیں اور امت مسلمہ کے مسائل اور رسوائی اپنی جگہ موجود۔
یاد رکھیے کہ ہر ملی ذمےداری ایک امانت ہے، مسجدوں کے متولی، امام و مؤذن، مدرسوں کے مدرسین و مہتمم، عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و سربراہان، دارالقضاء کے قاضی، بیت المال کے نگراں، اوقاف کے ذمےداران، فلاحی اداروں کے سکریٹری، صدر و منتظمین یہ سب امانت دار ہیں اور ان سب پر یہ لازم ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی ذمےداریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کریں بصورت دیگر اللہ کے سامنے جواب دہی کے لئے تیار رہیں۔ آج جن عہدوں کےلئے مبارکباد دئے اور قبول کئے جارہے ہیں، کل یہی عہدے ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس دن لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کاش مجھے کسی چیز کا ذمےدار نہ بنایا جاتا ! رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وَیْلٌ لِلْاُمَرَاءِ، لَیَتَمَنَّیَنَّ اَقْوَامٌ اَنَّھُمْ کَانُوا مُعَلَّقِیْنَ بِذَوَائِبِھِمْ بِالثُّرَیَّا، وَ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوا وُلُّوْا شَیْئًا قَطُّ “ (صحیح ابن حبان، رقم الحديث ٤٤٨٣، بروایت ابوہریرہؓ)۔
(مفہوم): "امراء کے لئے خرابی ہے، عنقریب کچھ لوگ اس بات کی آرزو کریں گے کہ انہیں ان کے بالوں کے ساتھ اوج ثریا پر لٹکا دیا جاتا، لیکن انہیں کسی چیز کا اہل کار مقرر نہ کیا جاتا۔"
اس لئے عہدہ اور ذمےداری کوئی اچھی چیز نہیں بلکہ ایک آزمائش و امتحان کی چیز ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امارت طلب کرنے سے منع کیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ جب عہدہ طلب کرنے پر ملتا ہے تو انسان آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر عہدہ بغیر کسی طلب کے ملتا ہے تو اس میں اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے صحابی عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا:
’’یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ ! لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَةَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وََ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا-“ (صحیح البخاری، رقم الحديث ٧١٤٨، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ)۔
(مفہوم): " اے عبدالرحمن بن سمرہ! کبھی امارت کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کر دئے جاؤگے اور اگر وہ عہدہ بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے) تمھاری اعانت کی جائے گی۔"
اس لئے حتی الامکان ملی عہدوں اور ذمےداریوں سے بچنا چاہیے اور اگر ملت کے سربرآوردہ لوگوں کی طرف سے یہ پیشکش کی جائے تو اپنی صلاحیت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ ان ذمےداریوں کو ہم کماحقہ ادا کرسکیں گے یا نہیں، اگر نہیں تو ہمیں وہ منصب قبول ہی نہیں کرنا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہ سکیں اور اگر قبول کریں تو عہدے کو امانت سمجھ کر اس کی ذمےداریوں کو ادا کرنا چاہیے اور خیانت سے بچنا چاہیے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ عہدے کوئی ایسی چیز نہیں بالخصوص اللہ والوں کے لئے جسے celebrate کیا جائے اور اس پر مبارکبادیاں پیش کی جائیں بلکہ ہم سب کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ اس فیصلے میں خیر کا معاملہ فرمائے اور صاحب منصب کو اس کی ذمےداریوں کی ادائیگی میں اپنی مدد نصیب فرمائے ۔ اور جن کو منصب یا ذمے داری نہیں ملی انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم آزمائش و امتحان سے بچ گئے ۔ اگر ہم ملی عہدوں کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے اور اسے glorify کریں گے تو لازماً لوگوں کے اندر ان کی طلب پیدا ہوگی اور لوگ ان کو حاصل کرنے کے لئے سیاست اور چالبازیاں کریں گے جیساکہ ہر ادارے میں دیکھنے کو ملتا ہے جب کہ یہ جاہ طلبی تمام بزرگوں کے نزدیک بھی خطرناک اخلاقی و روحانی امراض میں سے ایک ہے اور تزکیہ نفس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ دے اور امت کے اندر عہدے کے امانت ہونے کے تصور کو ایک بار پھر سے بیدار کردے ۔ آمین یا رب العالمین!

,%20P.%2005.jpg)


No comments:
Post a Comment