Sunday, 22 September 2024

کیا ہمارے لئے نبی کریم ﷺ کی سنّتیں کافی نہیں؟

 -----------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

 تاریخ عالم پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے اللہ رب العزت نے ہر دور میں دو ذرائع استعمال فرمائے ہیں؛ ایک تو اپنی کتابیں اور صحائف نازل کئے جس میں انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق احکام ہوتے تھے اور دوسرے اپنے منتخب بندوں کو بھیجا جو عام انسانوں تک نہ صرف ان نازل شدہ احکام کو پہنچائے اور انہیں سمجھنے میں ان کی مدد کرے بلکہ ان کے لئے خود کو عملی نمونہ بناکر پیش کرے۔ نیز عام انسانوں کے لئے یہ لازم کیا گیا کہ وہ اپنی حقیقی فلاح و کامیابی کے لئے اللہ کے احکام کو وقت کے نبی کے طریقے پر پورا کریں اور تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اس شرط کو پورا کردیا، وہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوئی اور جس نے اللہ کے احکام اور نبی کے طریقے سے منہ موڑا وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئی اور دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت اور عذاب ان کا مقدر بنی ۔ اسی ضابطہ کے تحت اس آخری امت کے لئے بھی اللہ رب العزت نے قرآن حکیم جیسی نادر کتاب نازل فرمائی اور نبی کریم ﷺ جیسی عظیم شخصیت کو مبعوث فرمایا اور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو فلاح و کامیابی کے حصول کے لئے اپنی کتاب اور اپنے محبوب رسول ﷺ کی سنت کا پابند کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:﴿وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ "اور یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے برکت والی پس اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔" (الانعام:۱۵۵)۔ اور فرمایا:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ہ﴾ ترجمہ: "یقینا تمہارے لئے ہے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ، (ہر) اس شخص کے لئے جو اللہ اور روز آخرت پر امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔" (الاحزاب: ۲۱)۔ نبی کریم ﷺ نے بھی امت کو ہدایت پر باقی رہنے کے لئے کتاب و سنت کی پابندی کی تلقین کی۔ ارشاد فرمایا: "تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابَ اللّٰہِ، وَ سُنَّةَ نَبِیِّهِ" یعنی "میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، نہیں گمراہ ہوگے جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھوگے؛ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبیؐ کی سنّت۔" (امام مالکؒ، موطا، کتاب القدر، باب النَّھْي عَنِ القَوْلِ بِالْقَدَرِ، رقم الحدیث ۱۷۱۸)۔

                لیکن نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ امت مرحومہ نے ان سب ہدایات کو بالائے طاق رکھ دیا اور افراط و تفریط کا شکار ہوگئی، الا ماشاء اللہ ۔ ایک طرف تو ہم نے یہ ظلم کیا کہ کتاب و سنت سے اپنا ناطہ توڑ لیا، ارکان دین اور اللہ کے قائم کردہ حدود کی بھی پرواہ نہ کی تو دوسری طرف اس کو راضی کرنے کے لئے از خود ایسے اعمال گھڑ لئے جن کی کوئی اصل شریعت محمدیہ ﷺ میں موجود نہیں۔ پھران بدعات اور خرافات ہی کو ہم نے شعائر دین کا درجہ دے دیا ۔ یہ بات تھوڑی تلخ معلوم ہوتی ہے لیکن ایک حقیقت ہے اور دور حاضر میں شرک و بدعات کا جس تزک و اہتمام سے مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ کم از کم اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ علم کی کمی، خواہشات نفسانی کی اتباع، کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی نقالی، اور اندھی تقلید نے شرک و بدعات کے بازار کو گرم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان سب کے علاوہ طاغوتی حکومتیں بدعات کے فروغ اور ان کے نشر و اشاعت میں مختلف طریقوں سے امداد پہنچارہی ہیں کیونکہ اس سے اسلام کی صورت مسخ ہوتی اور بالآخر حقیقی اسلام کا خاتمہ ہوتا ہے جو ان کا منتہائے مقصود ہے۔ بدعات کی نشر و اشاعت اور دعوت اس اہتمام سے دی گئی اور انہیں اس طرح مزین کرکے پیش کیا گیا کہ بعض حق پرست علماء بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے اور ان کے جواز کے حیلے تلاشنے لگے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد صراحتاً موجود ہے: "كُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ" یعنی (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔ (سنن نسائی، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب کیف الخطبة، بروایت جابر بن عبداللہؓ، رقم الحدیث ۱۵۷۸)۔ برعکس اس کے جس اہتمام اور قوت سے سنت کی دعوت دیجانی چاہیے تھی اور بدعات کا رد کیا جانا چاہیے تھا اس درجہ سے یہ کام نہیں کئے گئے (چند علماء حق کی انفرادی کوششیں اس سے مستثنیٰ ہیں) جس کے نتیجے میں بدعات کو فروغ ملتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب سنت کی دعوت اور بدعات کا رد کرنے والے ہی مشکوک نگاہوں سے دیکھے جارہے ہیں۔ پیارے نبی ﷺ کی سنتیں ہی اجنبی معلوم ہونے لگیں اور آپؐ کے قول "بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْباً وَ سَیَعُوْدُ غَرِیْباً فَطُوبَی لِلْغُرَبَاءِ" کہ "ابتداء میں اسلام اجنبی تھا اور عنقریب پھر اجنبی (غیر معروف) ہوجائے گا پس خوشخبری ہے بیگانہ بن کر رہنے والوں کے لئے۔" (سنن ابن ماجہؒ، کتاب الفتن، باب بدأ الاسلام غریبا، بروایت ابوہریرہؓ، رقم الحدیث ۳۹۸۶) کی تعبیرظاہر ہوگئی۔

                جاننا چاہیے کہ اسلام رسول اللہ ﷺ کے اوپر مکمل ہوچکا اور﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً﴾ "آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو (بحیثیت) دین پسند کرلیا۔" ( المائدہ:۳) کا مژدہ سنایا جاچکا ہے لہٰذا بقول امام مالکؒ جو کام رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی ہمارے لئے دین نہیں ہوسکتا۔ ہماری دنیوی و اخروی فلاح کے لئے جن عقائد و اعمال کی ضرورت تھی اللہ کے رسول ﷺ نے وہ سب ہم تک پوری دیانتداری کے ساتھ پہنچا دیا اور نعوذ باللہ اس میں کوئی خیانت نہیں کی کہ اب ان کی تلاش کی ضرورت پیش آئے۔ اب جو لوگ دین میں نئی نئی باتیں نکال رہے ہیں وہ گویا اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ دین مکمل نہیں ہوا اور اس کی تکمیل اب ان کے ہاتھوں ہورہی ہے جب کہ اللہ کے حبیب ﷺ کا ارشاد ہے: "مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هٰذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ" یعنی "جس نے ہمارے اس امر (دین) میں از خود کوئی ایسی نئی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔" (صحیح بخاریؒ، کتاب الصُّلح، باب إِذَا الصْطَلَحُوا عَلَی صُلحِ جَورٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ، بروایت عائشہؓ، رقم الحدیث ۲۶۹۷)۔ امام مسلمؒ نے حضرت عائشہؓ سے ہی یہ روایت بھی نقل کی ہے:"مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ" یعنی "جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ نامقبول ہے۔" (صحیح مسلمؒ، کتاب الأقضیة، باب نقض الأحکام الباطلہ و رد محدثات الأمور، رقم الحدیث ۴۴۹۳)۔ اور آپؐ سے یہ ارشاد بھی منقول ہے: " فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " یعنی "بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔" (صحیح مسلمؒ، کتاب الجمعة، تخفیف الصلاۃ و الخطبة، بروایت جابر بن عبداللہؓ، رقم الحدیث ۲۰۰۵)۔ اللہ کے رسولﷺ کے ان واضح ارشادات کے باوجود دین کے اندر نئی باتیں اور نئے طریقے نکالنا، ان سے کسی بھی قسم کے خیر کی امید کرنا اور ان کے اہتمام میں اسلام کی شان و شوکت کا اظہارہونا سمجھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟

                یہ بھی جاننا چاہیے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی اتباع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس ضابطہ کو واضح کر رکھا ہے۔ ارشاد ہے:﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہ﴾ یعنی اے نبیﷺ "آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اورتمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔" (آل عمران۳:۳۱)۔ یعنی اپنی محبوبیت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی سنت کی اتباع کے ساتھ مشروط کردیا ہے اور اس پرگناہوں کے مغفرت کی بشارت بھی دی ہے۔ محبت نبویﷺ جو کہ تکمیل ایمان کے شرائط میں سے ہے کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ آپؐ کی سنتوں کی محبت اور وقعت ہمارے دل میں ہو اور جب کوئی حکم یا طریقہ ہمیں رسولﷺ کی طرف سے صحیح طور پر مل جائے تو اس کی تعمیل اور اتباع میں ہمیں ذرا تا مل نہ ہو۔ سنتوں کو اختیار کرنا اور ان کو زندہ کرنے کی فکر کرنا ہی محبت نبویﷺ کی صحیح علامت ہے صرف زبانی دعوائے محبت کافی نہیں۔ آپ ﷺ سے اس سلسلہ میں یہ ارشاد منقول ہے: " وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ " یعنی "جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا کہ اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔" (سنن ترمذیؒ، کتاب العلم، باب الاخذ بالسنة و اجتناب البدعة، بروایت انسؓ، رقم الحدیث ۲۶۷۸)۔ اس کے برعکس رسول پاک ﷺ اپنی سنتوں سے اعراض کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: " فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي" یعنی "جو میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔" (صحیح مسلمؒ، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن استطاع، بروایت انسؓ، رقم الحدیث ۳۴۰۳

                یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ سنت کی بھی وضاحت کردی جائے۔ سنّت عربی کے لفظ "السُنَّۃُ" کا اردو ترجمہ ہے جس کا لغوی معنی ہے "طریقہ خاص، اصول مقررہ، ضابطہ، طرز عمل، روش زندگی یا سیرت، فطرت، عادت" وغیرہ ۔ اس کے لئے عربی میں لفظ "الھَدْیُ"  کا استعمال بھی رائج ہے جس کا لغوی معنی بھی سیرت، نقش قدم یا طریقہ کے ہی آتے ہیں، اس لئے حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ دینی اصطلاح میں "سنت" نبی کریم ﷺ کے طریق عمل اور طرز زندگی کو کہتے ہیں جو قرآنی نظام حیات کی عملی تفسیر و تعبیر ہے اور احادیث و آثار صحیحہ سے ثابت ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس طرز حیات کے عینی شاہد اور رسول اللہ ﷺ سے براہ راست عملی تربیت حاصل کرنے والی جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت تھی، اس لئے ان کی روش زندگی بھی راہ ہدایت قرار پائی۔ آپؐ نے اپنی اور اپنے صحابہ کی سنت کو ہی راہ نجات قرار دیا۔ عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "بنی اسرائیل کے اکہتر یا بہتر فرقے بن گئے تھے جب کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی جو ایک کو چھوڑ کر سب کے سب جہنم میں جائیں گے، اس پر یہ پوچھا گیا کہ وہ ایک کون سا ہوگا ؟ فرمایا : "مَا أَنَا عَلَیْهِ الْیَوْمَ وَ أَصْحَابِي" یعنی "وہ جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔" (المستدرک علی الصحیحین للحاکمؒ، کتاب العلم، رقم الحدیث ۴۴۴)۔ اس لئے اہل سنت و الجماعة کی جو اصطلاح رائج ہے اس میں "جماعت" سے مراد "جماعت صحابہؓ " ہے اور اس کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات، عبادات، اصول حیات، اخلاقیات، معاملات اور معاشرت کا محور نبی کریم ﷺ کی سنت صحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہو۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں خلفاء راشدین کا خاص مقام ہے، اس لئے ان کی سنتوں کو لازم قرار دیا گیا۔ آپؐ نے وصیت فرمائی تھی کہ "جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین (ہدایت یافتہ) کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے مضبوط پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔" (سنن ابو داؤد، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، بروایت حجر بن حجر بحوالہ عرباض بن ساریہؓ، رقم الحدیث ۴۶۰۷)۔ پیارے نبیﷺ کی ان ہدایات کی اگر تھوڑی بھی وقعت دل کے اندر ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین خصوصاً خلفاء راشدین کی سنتوں تک ہی محدود رکھیں اور اس سے تجاوز نہ کریں ۔ اصحاب رسول ﷺ ایمان، علم، تفقہ، تقویٰ، فکر آخرت، حب رسول ﷺ و جانثاری، اخلاق و کردار ہر اعتبار سے اس امت کے بہترین افراد تھے جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی ترویج و اشاعت کے لئے چن لیا تھا اور انہیں رضی اللّٰہ عنھم و رضوا عنہ (راضی ہوا اللہ ان سے اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ) کا مژدہ دنیا ہی میں سنا دیا تو ان سے زیادہ ہدایت پر اور کون ہوسکتا ہے اور جب ان کے طریقوں میں کامیابی اور نجات کی ضمانت مل گئی تو دوسروں کے طور طریقوں کو اپنانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟

                خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بدعات کے سلسلہ میں احتیاط بھی قابل توجہ اور قابل اتباع ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ کی موجودگی میں ایک آدمی نے چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ کہا تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اس پر رد کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ کہنے کی تعلیم دی ہے، نہ کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ کی۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکمؒ، کتاب الأدب، رقم الحدیث ۷۶۹۱)۔ غور کیجئے کہ یہ کس درجہ کا احتیاط ہے؟ ایک مسنون دعا میں تبدیلی رسول پاک ﷺ پر سلامتی کے الفاظ کے ساتھ کی گئی تھی لیکن پھر بھی عبداللہ بن عمرؓ نے اس کا رد کیا ۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ نعوذ باللہ گستاخ رسول تھے؟ اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ حلقوں میں بیٹھ کر اجتماعی طور پر کسی ایک شخص کی ہدایت پرکنکریوں پر سو سو مرتبہ تسبیح (سبحان اللّٰہ)، تہلیل (لا الٰہ الا اللّٰہ) اور تکبیر (اللّٰہ اکبر) پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے انہیں بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولنے والا قرار دے کر ملامت کیا جبکہ ان لوگوں نے اللہ کی قسم کھا کر انہیں (یعنی عبداللہ ابن مسعودؓ کو) یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ ان کا ارادہ صرف بھلائی کا تھا۔ ( دیکھیں سنن دارمی، کتاب العلم، باب في کَرَاھِیَةِ أَخْذِ الرَّأْي، رقم الحدیث ۲۲۲، نوٹ: راقم نے طوالت سے بچنے کے لئے اس روایت کو من و عن نقل نہیں کیا ہے)۔ ذرا غور کیجئے کہ ان کلمات میں کیا برائی تھی لیکن چونکہ ان کا پڑھنا انفرادی طور پر ثابت ہے اجتماعی طور پر نہیں اس لئے عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے بدعت قرار دے کر اس کا رد فرمایا۔ اس اثر سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ عبادت کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا یا ثابت شدہ عبادتوں میں اپنی طرف سے حدود و قیود متعین کرنا اور نئی شرطیں عائد کرنا مثلاً ان کی ادائیگی کو کسی خاص وقت یا طریقہ سے مخصوص کرنا جسے شارع نے نہیں کیا شریعت محمدیہ ﷺ میں ترمیم و تحریف کے مترادف ہے اور باعث ضلالت و گمراہی ہے۔ اسی لئے عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔ کیا کسی کو عبداللہ بن مسعودؓ کی فقاہت پر شک و شبہ ہوسکتا ہے؟ یہ وہ عبداللہ بن مسعودؓ ہیں جن کو رسول پاک ﷺ کی حیات میں ہی فتوے دینے کا اختیار ملا ہوا تھا اور جن کے بیشتر اقوال پر ہی حنفی فقہ کی بنیاد ہے۔ انہیں عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: "اتَّبِعُوا وَ لَا تَبْتَدِعُوا فَقَدْ کُفِیتُمْ" یعنی "(سنّت کی) اتباع کرو اور بدعت مت نکالو، تمہیں یہی کافی ہے۔" (سنن دارمی، باب في کَرَاھِیَةِ أَخْذِ الرَّأْي، بروایت عبد الرحمٰن، رقم الحدیث ۲۲۴)۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا: "الْقَصْدُ فِي السُّنَّةِ خَیْرٌ مِنَ الاجْتِھَادِ فِي الْبِدْعَةِ" یعنی "سنّت میں درمیانی چال چلنا، بدعت میں بہت کوشش کرنے سے بہتر ہے۔" (سنن دارمی، باب في کَرَاھِیَةِ أَخْذِ الرَّأْي، بروایت عبد الرحمٰن بن یزید، رقم الحدیث ۲۳۶)۔ ظاہر ہے جو چیز اللہ کے نزدیک غیر مقبول ہو اس میں بہت زیادہ مجاہدہ کرنے کا بھی کیا فائدہ ہے۔

                اب زیر بحث مسئلہ پر ذرا ان کی بھی رائے معلوم کرلیں جن کا نام لے لے کر ابلیس کے آلہ کار دنیا پرست علماء اور اولیاء و صوفیاء کا لبادہ اوڑھنے والے جہلا نے دین کے اندر کیا کیا خرافات پیدا کردیں۔ راقم کی مراد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں: "ہر دانش و عاقل صاحب ایمان کو چاہیے کہ وہ سنت رسولؐ کی اطاعت کرے، بدعات سے راہ فرار اختیار کرے، دین میں مبالغہ، غلو تکلف و عمق سے احتیاط کرے مبادا کہ صراط مستقیم سے گمراہی کے ساتھ پھسل کر ہلاک ہوجائے۔" (غنیۃ الطالبین اردو ترجمہ حافظ مبشر حسین لاہوری، نعمانی کتب خانہ، لاہور، صفحہ ۲۰۴)۔ آگے فرماتے ہیں: "ہرصاحب ایمان پرسنت رسولؐ اور جماعت کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ سنت سے مراد رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے اور جماعت کی پیروی سے مراد خلفائے اربعہ کے ادوار کے متفقہ مسائل ہیں۔ بدعتیوں سے بحث و مباحثہ، رکھ رکھاؤ، دعا سلام درست نہیں۔" (ایضاً)۔ ایک جگہ بدعات کے فروغ کے اسباب میں سے ایک بڑے سبب کا قلع قمع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: "ان صلحاء و اولیاء کے اقوال و افعال کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی طرف توجہ کرنی چاہیے کیوں کہ احادیث ہی باعث اعتماد ہیں جن پر عمل کرکے انسان کو دوسروں (یعنی احادیث کے مقابلہ میں بزرگوں کے اقوال و افعال کو ترجیح دینے والوں) سے ممتاز ہوجانا چاہیے۔" (ایضاً، صفحہ ۴۹۴) ۔ یہاں عربی عبارت بھی نقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ کسی کو ترجمہ میں خیانت کا شبہ نہ ہو۔ عبارت اس طرح ہے: "و لا ینظرالی أحوال الصالحین (و أفعالھم)، بل إلی ما روی عن الرسول ﷺ و الاعتماد علیہ حتی یدخل العبد فی حالة ینفرد بھا عن غیرہ۔" (الغنیة، دار الکتب العلمیة، بیروت۔ لبنان، ۱۹۹۷م، الجزء الثاني، صفحہ ۱۴۹)۔ یہ ظاہر ہے کہ ترجمہ میں الفاظ کے انتخاب میں مترجم کی زبان دانی کا اہم رول ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی دوسرا شخص اس عبارت کا ترجمہ کرے توالفاظ بدل جائیں گے مثلاً اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے : "صالحین (علماء و مشائخ ) کے احوال وافعال کو پیش نظر نہ رکھا جائے بلکہ اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے جو آنحضرتؐ سے مروی ہے اور اسی مروی (حدیث) پر اعتماد کیا جائے حتیٰ کہ (اس طرح کرنے سے) کوئی شخص اس حال کو پہنچ جائے جو اسے دوسروں سے منفرد ہی کیوں نہ کردے۔" لیکن اس میں کوئی تردد نہیں کہ عبارت اسی خیال کی ترجمانی کر رہی ہے جو اوپر گزری۔ حقیقت یہ ہے کہ کتنا ہی بڑا عالم، فقیہ اور ولی اللہ کیوں نہ ہو علمی، تحریری، تقریری اور عملی سہو سے کوئی بھی مبرا نہیں سوائے رسول اللہ ﷺ کی ذات اطہر کے اور صوفیاء سے تو غلبہ حال میں قولی و عملی سہو کی سیکڑوں مثالیں ہیں، تو انسان اگر ان کی اتباع ان کی باتوں کو قرآن و سنت کے میعار پر پرکھے بغیر کرے گا تو خطا کا شکار ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ بدعات کی راہ کھولنے والا بھی بن جائے۔ اسی اندھی تقلید کی طرف حضرت شیخ علیہ الرحمۃ نے یہاں توجہ دلائی ہے۔ امام غزالی علیہ الرحمۃ جنہیں حجۃ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے نے تو اس سے بھی وزنی بات کہی ہے۔ بقول ان کے "جو بات سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ماثور نہ ہو ایسی نئی بات پر ایک زمانہ کا اتفاق ہونا بھی تجھے دھوکہ میں نہ ڈالے اور تو اسی طریقہ سلف پر مضبوطی اختیار کر۔ (نقل کردہ مولانا سیّد امیر علیؒ مترجم فتاویٰ ہندیہ، مقدمہ فتاویٰ عالمگیری جدید اردو، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاہور، جلد۱، صفحہ۱۰۰)۔ اس سے زیادہ ٹھوس بات کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟ ان نفوس قدسیہ نے تو اپنی طرف سے حجت قائم کردی، اس کے بعد بھی اگر کوئی کسی کی اندھی تقلید کرے تو ظاہر ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہی ہوگا۔

                اب ذرا بدعات کو جاری یا اختیار کرنے کے نقصانات کا بھی ملاحظہ کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہوچکی تھی تو اس کے لئے بھی اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کے لئے باوجود اس کے ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت نکالی جسے اللہ اور اس کا رسول ﷺ پسند نہیں کرتے تواس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں پر اور اس سے ان کے گناہوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔" (جامع ترمذی، ابواب العلم، باب الاخذ بالسنة و اجتناب البدعة، بروایت کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی، رقم الحدیث ۲۶۷۷)۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صاحب بدعت کا اللہ تعالیٰ روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمرہ، جہاد، فرض، نفل (غرض کوئی بھی نیک عمل) قبول نہیں فرماتے، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح بال آٹے سے نکل جاتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمة، بابُ اجْتِنَابِ البِدَعِ وَ الْجَدَلِ، رقم الحدیث ۴۹)۔ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اس وقت تک بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جب تک کہ وہ بدعت نہ چھوڑدے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمة، بابُ اجْتِنَابِ البِدَعِ وَ الْجَدَلِ، رقم الحدیث ۵۰)۔ ان دونوں روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بدعات اصل ایمان میں خلل انداز ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ بدعتی اللہ کے رسول ﷺکے طریقہ سے ہٹ کر کسی اور کے طریقہ میں کامیابی دیکھتا ہے پھر جب ایمان میں ہی خلل آگیا توکوئی بھی عبادت کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ بدعات کی طرف قدم بڑھانے کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ مبتدی یعنی صاحب بدعت کو توبہ نصیب نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اپنے گناہ کو گناہ ہی کب سمجھتا ہے جو اس سے توبہ کرے، اسے تو وہ دین سمجھ کر کرتا ہے اس لئے اسے توبہ کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے سارے گناہوں میں بدعات شیطان کو زیادہ پسندیدہ ہے۔

مذکورہ بالا مباحثہ سے قارئین گرچہ سمجھ گئے ہوں گے کہ بدعت کیا ہے لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ اس کی ایک جامع تعریف یہاں کردی جائے تاکہ اللہ کے مخلص بندے اور رسول کریم ﷺ کے سچے متبعین انہیں پہچان سکیں اور ان سے اپنے آپ کو بچا سکیں کیونکہ تمام بدعات کی نشاندہی یہاں ممکن نہیں معلوم ہوتی۔ بدعت عربی کے لفظ "اَلْبِدْعَۃُ" کا اردو ترجمہ ہے جس کا لغوی معنی ہے "کسی نمونہ کے بغیر بنی ہوئی چیز" یعنی بالکل نئی چیز۔ عربی میں اس کا ایک مترادف لفظ "اَلْمُحْدَثُ" (ج : مُحْدَثَات) بھی ہے جس کے معنی بھی وہی ہیں یعنی نئی ایجاد کردہ چیز یا نئی نکالی ہوئی بات۔ شریعت کی اصطلاح میں بدعت، عبادت کے طور پر، ثواب اور رضائے الٰہی کے حصول کی نیت سے دین اسلام کے عقائد یا اعمال میں کسی ایسی چیزکی ایجاد یا اضافہ کو کہتے ہیں جس کا داعیہ اور سبب رسول پاک ﷺ اور صحابہ کے عہد مبارک میں موجود ہونے کے باوجود اس کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہ ہو یعنی نہ تو وہ بات قرآن سے ثابت ہو اور نہ ہی اس کا ثبوت رسول پاک ﷺ یا صحابہ سے قولاً ہو نہ فعلاً نہ صراحتاً نہ اشارۃً ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بدعت دین میں وہ نیا عقیدہ، نیا عمل یا نئی رسم ہے جس کی کوئی اصل یا نظیر قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر میں نہ ملے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کیوں کہ جس بات کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہ ہوگی اس کی نظیر قرون ثلاثہ مشہور و لہا بالخیر میں کہاں سے ملے گی؟ مثال کے طور پر وہ تمام رسومات جو شادی بیاہ، اموات، یوم عاشورہ، ۱۲؍ ربیع الاول ، ۱۱؍ ربیع الثانی (گیارہویں شریف)، شب ۱۵؍ شعبان کے مواقع پررائج ہیں بدعت قرار پائیں گی جن کا ثبوت عہد رسالت و عہد خلفاء راشدین میں نہ ملتا ہو کیوں کہ ان کا سبب اور داعیہ اس دور میں بھی موجود تھا ۔ ہاں ایسی چیزیں اور ضرورتیں جو سائنسی اور معاشی ترقیات کی پیداوار ہیں اور جو عہد صحابہ میں نہ تھیں مثلاً بلڈ بینک، اعضا کی پیوندکاری، بینک ولائف انسورنس وغیرہ کے سلسلہ میں فقہاء کی اکثریت کا اختیار کردہ موقف اسلامی قرار پائے گا اور اس کا شمار بدعات میں نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہم لوگ تحقیق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ہر عمل سے پہلے علماء حق سے صرف یہ معلوم کرلیا کریں کہ اس عمل کا ثبوت عہد رسالت و عہد خلفاء راشدین میں ہے یا نہیں، تو بہت سی بدعات سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ اس خاکسار کو بھی ان باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت کرے اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنے کے سلسلہ میں کی گئی بندہ کی اس حقیر کوشش کو درجہ قبولیت عطا کرے۔ آمین!            

Friday, 5 July 2024

سچّا مومن قرآن کی نظر میں

-----------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ


[𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧, Haqeeqat Today, Lucknow, Vol. 13, Issue 213, Friday, 5th July 2024, P. 04]


[
𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 12, Issue 180, Friday, 5th July 2024, P. 06]


[𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐑𝐨𝐬𝐡𝐧𝐢 𝐌𝐞𝐢𝐧 𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐊𝐚𝐮𝐧 𝐇𝐚𝐢, The Daily Srinagar-e-Jang, Srinagar, Kashmir, Vol. 27, Issue 151, Friday, 5th July 2024, P. 06]


[𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧, Pindar Urdu Daily, Patna, Vol. 51, Issue 181, Friday, 5th July 2024, P. 07]

سچّا مومن قرآن کی نظر میں
----------------------------

    ایمان کے لغوی معنی ہیں یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا، قبول کرنا وغیرہ ۔ شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں اس حقیقت کے قبول و اعتراف کو کہ اللہ ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے، وہی تمام کائنات کا پروردگار ہے، اس کے تمام ذاتی اور صفاتی کمالات برحق ہیں، حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور اللہ کی طرف سے قرآن وسنت کی شکل میں جو دین وشریعت لے کر آپؐ اس دنیا میں تشریف لائے اس کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں۔ شریعت کی اس اصطلاح میں ہر وہ آدمی ایمان والا ہے جو کلمہ طیبہ کی صدق دل سے گواہی دیتا ہو اور اس کی توفیق مل جانا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا اس دنیا میں سب سے بڑا انعام ہے کیوں کہ انسان کی دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں اسی کلمہ کے اقرارسے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ دنیا کی زندگی میں انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے پاکیزہ زندگی، اپنی مدد، اطمینان قلب، عزت، عافیت، رحمت، راحت، دعاؤں کی قبولیت اور لوگوں کی دلوں میں محبوبیت دینے کا وعدہ کیا ہے اور اجتماعی طور پر زمین کی خلافت دینے کا وعدہ کیا ہے اور آخرت کی زندگی میں ہر مرحلہ میں ہونے والی رسوائیوں سے بچا کر اپنے مہمان خانہ یعنی جنت میں جگہ عطا کرنے اور اپنی رضا کا پروانہ دینے کا وعدہ کیا ہے جو بڑی اور ابدی کامیابی ہے ۔

    اب ایک غور طلب بات یہ ہے کہ کیا مذکورہ تمام کامیابیوں کی ضمانت ہمیں صرف ایک کلمہ کے اقرار سے مل جاتی ہے یا یہ کلمہ ہماری زندگی میں کچھ تبدیلیاں بھی چاہتا ہے اور اس کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں؟ اس سوال پر غور و فکر ہم دو پیرائے میں کر سکتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ ہم اپنی زندگی کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ دنیوی زندگی میں اللہ رب العزت کے مذکورہ انعامات ہماری طرف متوجہ ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو یہ حالت پریشان کن نہیں لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے توہمیں دو پہلوؤں پر غور کرناچاہیے؛ اول یہ کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کے نتیجہ میں ہم اللہ کے انعامات سے محروم ہیں اور دوئم یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں وہ کون سی صفات تھیں جن کی وجہ سے ان پر اللہ کی خصوصی رحمتیں متوجہ تھیں؟ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم کتاب وسنت سے رجوع کریں اور یہ معلو م کریں کہ کلمہ طیبہ کے عملی تقاضے کیا ہیں؟

    ہم لوگ اپنے طرز عمل سے تو یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ صرف کلمہ طیبہ کا اقرار کر لینا دنیا اور آخرت کی زندگی کو بنانے کے لئے کافی ہے، اعمال کا صالح ہونا یا نہ ہونا ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اپنی اس حالت پر ہم لوگ نہ صرف یہ کہ مطمئن ہیں بلکہ کامل مومن ہونے کا دعوی بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے جب ہم پر کبھی برے حالات آجاتے ہیں یا ہم اللہ کی نعمتوں سے محروم کردئے جاتے ہیں تو ہماری نگاہیں اپنی ان بد اعمالیوں کی طرف نہیں جاتی جو ان کا سبب بنی ہیں بلکہ الٹاہم اللہ تعالیٰ کا ہی گلہ شکوہ شروع کردیتے ہیں۔ ہماری یہ حالت انتہائی افسوسناک ہے ۔ قرن اول کے کفار و مشرکین بھی کلمہ طیبہ کے عملی تقاضوں سے واقف تھے اور اسی لئے انہیں اسے قبول کرنے میں تامل بھی ہوا۔ ہم لوگ چونکہ نسلی مسلمان ہیں اس لئے نہ ہمیں فریضہ شہادت حق کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور نہ ہی ہم نے ایمان کے تقاضوں پر غور کرنے کی کبھی ضرورت محسوس کی۔ قرآن و احادیث کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ایک ایسی امت کی تشکیل تھا جو خاص صفات کی متحمل ہو جسے خیر امت کے لقب سے بھی نوازا جانا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید اور کتب احادیث میں جابجا ان صفات کا تذکرہ ملتا ہے جو ایمان والوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو مطلوب ہیں۔ ان تمام صفات کا احاطہ ایک مضمون میں کرنا دشوار ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اپنے محاسبہ کے لئے ہم لوگ قرآن کریم کی چند جامع آیات پر غور کریں اور معلوم کریں کہ ہمارے ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ سورۃ الانفال کے پہلے رکوع میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ہ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنفِقُونَ ہ أُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ ہ﴾ (ترجمہ): "بس ایمان والے تو وہ لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے ) اللہ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں،(نیز) وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ سچے ایمان والے یہی لوگ ہیں، ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ '' (الانفال:۲-۴)۔

            ان آیات کے اندراللہ رب العزت نے چند صفات کا ذکر سچے اور پکے مومن کی علامات کے طور پر کیا ہے۔ ان میں پہلی صفت خشیت الٰہی ہے یعنی سچے مومن ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کاذکر آجائے تو اس کی عظمت اور کبریائی کے استحضار سے ان کے دل سہم جاتے ہیں بالخصوص ان مواقع پر جب کہ اللہ کا کوئی حکم ٹوٹ رہا ہو یا ٹوٹنے والا ہو اور کوئی مخلص بندہ اللہ کا خوف دلادے تو ایمان والے کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ڈر کر اللہ کی نافرمانی سے رک جائے اورتوبہ کرکے اللہ سے رجوع کرلے۔ اپنی غلطیوں کو دلائل سے صحیح ٹھہرانا شیطانی صفت ہے جو اللہ کے غیظ و غضب کا موجب ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ خوف خدا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفات جلالیہ کی معرفت سے ہے، اگر اللہ کی معرفت نہ ہوگی تو اللہ کا خوف بھی نہ ہوگا اور اگر اللہ کی معرفت حاصل ہے جس کا لازمی تقاضہ خوف خدا ہے تو مومن ہونے میں پھر کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو جو خوف خدارکھتے ہیں درجات کی بلندی، مغفرت اور رزق کریم کی خوشخبری دی ہے۔

    مومن کی دوسری صفت مذکورہ آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تواس کا ایمان بڑھ جاتا ہے یعنی اس کے کیفیت ایمانی میں ترقی ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت تب ہی ہو سکتی ہے جب اللہ رب العزت کی عظمت کے ساتھ ساتھ اس کے کلام کی بھی عظمت دل میں ہو۔ اسی لئے علمائے دین نے قرآن پاک کی تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب بتائے ہیں جن کی رعایت کے توسط سے اس کیفیت کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قارئین کو اس سلسلے میں کم از کم امام غزالیؒ کی تصنیف "کیمیائے سعادت" یا "إِحیاء علوم الدین" کا متعلقہ باب ضرور پڑھنا چاہیے۔ اگر قرآن پاک کی تلاوت سے ایمانی کیفیت میں ترقی نہ ہو اور نیک اعمال کا شوق نہ ابھرے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کلام اور صاحب کلام کی عظمت ابھی ہمارے دلوں میں پوری طرح نہیں آئی اور یہ ضعف ایمان کی علامت ہے ۔

    مومن کی تیسری صفت سورۃ الانفال کی مذکورہ آیات میں توکل علی اللہ بتائی گئی ہے جس کا مطلب ہے اپنے ہر معاملہ میں اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا۔ یہ صفت بھی معرفت خداوندی یا توحید حق کا ہی ثمرہ ہے۔ جب انسان اللہ رب العزت کو صدق دل سے فاعل حقیقی، مختار کل اور تمام صفات کمالیہ میں یکتا تسلیم کرلیتا ہے تو اس کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ اس سے ایسے اعمال سرزد ہوں جن سے اللہ پر توکل ظاہر ہو۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اسباب سے یقین ہٹ کر مسبب الاسباب پر یقین جم جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسباب کو اختیار ہی نہ کرے، اسباب مشروعہ کا اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ ان کا اختیار کرنا جبکہ اس پر قادر ہو سنت رسول ﷺ ہے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جس طرح تمام اسباب اپنے وجود میں آنے کے لئے اللہ کے حکم کے محتاج ہیں ٹھیک اسی طرح نتائج برآمد کرنے اور نفع یا نقصان پہنچانے میں بھی اللہ ہی کے حکم کے محتاج ہیں اور اللہ پاک اپنے کسی ارادہ کو پورا کرنے میں کسی سبب کا محتاج نہیں۔ مومن کے اندر اس کیفیت کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (ترجمہ): "اور مومنوں کو صرف اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔" (آل عمران:۱۲۲، ۱۶۰)۔ ایک جگہ فرمایا : ﴿وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُوْآ إِنْ کُنتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (ترجمہ): "اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر ہی رکھو اگر تم واقعی مومن ہو۔" (مائدہ:۲۳) اور ایک جگہ یہ بشارت بھی دی ہے: ﴿إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾ (ترجمہ): "حق تعالیٰ شا نہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں۔" (آل عمران:۱۵۹)۔

            مومن کی چوتھی صفت زیر بحث آیات میں اقامت صلوٰۃ بتائی گئی ہے یعنی نماز کو قائم کرنا۔ نماز قائم کرنے سے مراد اوقات کی پابندی، کامل وضو، رکوع و سجود کی تکمیل، خشوع و خضوع کے لحاظ اور فرائض، سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ نے اس سلسلے میں سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۳؍ کے تحت عبد اللہ بن عباسؓ، قتادہؒ اور مقاتل بن حیانؒ کے جو اقول نقل کئے ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اقامت صلوٰۃ کے حکم میں مداومت کا پہلو بھی مضمر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس فکر و اہتمام سے ادا کی جائے کہ اسے ترک کرنے کا تصور بھی ذہن میں باقی نہ رہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اسے محافظت علی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ بھی ہے کہ نماز قائم کرنے سے مراد ذاتی طور پر نماز ادا کرنا ہی نہیں بلکہ اس بات کی کوشش بھی کرنا ہے کہ محلہ کے تمام افراد مسجد میں یکجا ہوکر جماعت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کریں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کوشش یہ ہو کہ نظام صلوٰۃ پورے معاشرے میں اس طرح برپا ہوجائے کہ مسلمانوں کے تمام شعبہ حیات کو متاثر کئے بغیر نہ رہے۔ گویا کہ ایک مومن سے نماز کے سلسلے میں یہ سارے توقعات وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کی چند دوسری آیتوں میں بھی نماز کو اسلام کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً کافروں کے سلسلے میں اللہ کا ارشاد ہے: ﴿فَإِن تَابُوْا وَأَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکٰوۃَ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ﴾ "اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔" (التّوبۃ:۱۱)۔ گویا اسلامی برادری میں کسی کی شمولیت کو تب ہی تسلیم کیا جائے گا جب وہ نماز قائم کرنے لگے۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے:﴿إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾ "اللہ کی مسجدوں کو تووہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔" (التّوبۃ:۱۸)۔

     جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی نماز کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے، آپؐ کا ارشاد ہے: "بَیْنَ الْکُفْرِ وَ الإِیمَانِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ" (مفہوم): "کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز کا ترک کرنا ہے۔" (سنن الترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۶۱۸، بروایت جابرؓ)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَ الْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ" (مفہوم): "بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز کا ترک(حائل) ہے۔" (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ۲۴۶، بروایت جابرؓ)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اَلْعَھْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمُ الصَّلَوٰۃُ، فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ" "وہ عہد جو ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان ہے نماز ہے، پس جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔" (سنن الترمذیؒ ، رقم الحدیث ۲۶۲۱، بروایت بریدہؓ )۔ امام ترمذیؒ نے عبداللہ بن شقیق عقیلیؒ سے روایت نقل کی ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اعمال میں سے کسی بھی چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نمازکے۔ (سنن الترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۶۲۲)۔ گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایسی قوم کا تصور بھی نہیں تھا جو نماز نہ پڑھے اور خود کو مسلمان سمجھے لیکن ہمارے زمانے کے لگ بھگ اسّی فیصد کلمہ گو نماز کے اہتمام سے غافل ہیں اور کامل مومن ہونے کا دعوی بھی رکھتے ہیں، انہیں اپنی اس حالت پر غور کرنا چاہیے۔

     ایمان والوں کی پانچویں صفت مذکورہ آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انہیں رزق دیا ہے وہ لوگ اس میں سے اللہ کی راہ میں محض اس کی رضاجوئی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک صورت تو زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے رشتہ داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، فقیروں، مسکینوں، بیکسوں، قیدیوں اور غلاموں کی مالی امداد کرنا ہے جس کا اشارہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷؍، آیت نمبر ۲۱۵؍ اور ان جیسی چند دیگر آیات میں دیا گیا ہے۔ اس کی دوسری صورت ہے اسلام کو زندہ کرنے، اسے دوسرے تمام ادیان پر غالب کرنے اور اس راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جو کہ ہر ایک مومن کامطلوبہ مقصد حیات ہے، اپنے مال کو بے دریغ خرچ کرنا۔ اس کا اشارہ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۱؍، سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۶۰؍، اور ان جیسی متعدد آیات میں ملتا ہے۔ سورۃ التوبہ کی ۱۱۱؍ویں آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ انہیں جنت ملے گی جس کا تقاضہ بھی یہی ہے ان چیزوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں خرچ کیا جائے کیوں کہ یہ سب اسی کی امانت ہے۔ اب شہرت، ناموری اور ریاکاری سے دور رہ کر خلوص و للہیت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ وہی شخص کرسکتا ہے جو واقعی مومن ہو، جسے جان و مال کے اللہ کی امانت ہونے کا احساس ہو اور آخرت میں اس کے انعامات کے وعدوں پر بھروسہ اور یقین ہو۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو کسی کے لئے بھی کسی نیک راہ میں مال خرچ کرنا آسان نہیں، اگر کرے گا بھی تو اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں اسی دنیا میں چاہے گا۔ مسلمانوں میں بھی بہت سے مالدار لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ تو ملت کے غرباء و مساکین کے اصلاح حال کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی تجدید و احیاء دین کی جب کہ منگنی، شادی بیاہ، برتھ ڈے، میرج ڈے وغیرہ کے نام پر لاکھوں روپے کی فضول خرچی بے دریغ کرتے ہیں۔ انہیں اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے کہ کل بروز حساب خدا کو کیا جواب دیں گے اگر یہ پوچھ لیا گیا کہ میں نے تمھیں مال و دولت سے نوازا تھا ، تو نے اس کا کیا حق ادا کیا؟

     ایمان والون کی مذکورہ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ سچے ایمان والے وہی ہیں جو ان صفات سے متصف ہوں اور ان کے لئے ہی ان کے رب کے پاس بلند درجات ہیں، مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ اب ان آیات کی روشنی میں ہم لوگوں کو اپنی حالت پرغور کرنا چاہیے کہ ہمارے اندر یہ صفات کس درجہ تک موجود ہیں؟ کیا اللہ کا ذکر سن کر واقعی ہمارے دل کانپ جاتے ہیں؟ کیا قرآن کریم کی آیات پڑھ کر یا سن کر ہمارا ایمان واقعی میں بڑھ جاتا ہے؟ کیا واقعی ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں؟ کیا ہم نماز کو قائم کرنے کی فکر کرتے ہیں یا کم از کم خود نماز کا اہتمام کرتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اللہ کی راہ میں اور دین کی سربلندی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا جذبہ ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایمان کی حقیقت نصیب فرمادی اور اگر ان کا جواب نفی میں ہے یا ان میں سے کوئی صفت موجود نہیں تو ہمیں اس کو حاصل کرنے کی فکر میں لگ جانا چاہیے کیونکہ یہ ضعف ایمان کی علامت ہے۔ کامل ایمان کا مطلب ہی ہوتا ہے اقرار باللسان، تصدیق بالقلب اور اعمال بالجوارح سب کی موجودگی ۔ اتنا ضعیف ایمان جو شریعت کے احکام کی جسمانی بجا آوری پر آمادہ نہ کرسکے، نہ تو دنیا میں اللہ کے انعامات کو اتارنے کے لئے ہی کافی ہے اور نہ ہی آخرت کی کامیابی دلانے کے لئے۔ اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب کرے۔آمین!

٭٭٭٭٭

Thursday, 30 May 2024

اپنے متعلقین کی نماز جنازہ خود پڑھائیں

-------------------------------------------------------------------------

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر 


[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Siyasi Taqdeer, New Delhi, Vol. 12, Issue No. 361, Thursday, 30 May 2024, P. 05.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 12, Issue No. 146, Thursday, 30 May 2024, P. 06.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Jamhuriyat Times Urdu Daily, Ranchi, Vol. 15, Issue No. 101, Thursday, 30 May 2024, P. 05.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Aawami News, Kolkata, Vol. 11, Issue No. 146, Thursday, 30 May 2024, P. 07.]

[Apney Muta’alliqeen Ki Namaz-e-Janaza Khud Padhaen, Haqeeqat Today, Lucknow, Vol. 13, Issue No. 179, Thursday, 30 May 2024, P. 04.]

اپنے متعلقین کی نماز جنازہ خود پڑھائیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام کے جملہ احکام پر عمل پیرا ہونے کے لئے جہاں یقین محکم (Conviction) اور عزم مصمم (Determination) کی ضرورت ہوتی ہے وہیں علم شریعہ کا ہونا بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ علم کو عمل کا امام کہا گیا ہے، اگر علم ہی نہ ہو تو چاہ کر بھی انسان شریعت کے احکام پر کاربند نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے دینی معاملات میں علم کے اعتبار سے ہر مسلمان کو خود کفیل بننے کی کوشش کرنا چاہیے یعنی اسے بنیادی دینی مسائل کو ضرور سیکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے مذہبی امور کو خود بحسن خوبی انجام دے سکے۔ یہ ہر مسلمان کے اوپر ایک فرض ہے۔ اور اسلام کی یہ بہت بڑی خوبی بھی ہے کہ یہاں دینی علوم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی دینی علوم پر اجارہ داری ہے تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے، اسلام کا مزاج نہیں ! یہ کوئی پنڈتوں والا دین نہیں ہے کہ ہر معاملہ میں جب تک علاقہ کے پنڈت جی نہیں آئیں گے آپ کا کوئی مذہبی امر پورا ہی نہیں ہو گا ۔

اسی سلسلے کی ایک چیز نماز جنازہ بھی ہے ۔ ہر شخص کو نماز جنازہ پڑھنے یا پڑھانے کا طریقہ سیکھنا چاہیے اور حسب ضرورت اپنے والدین، اولاد یا متعلقین کا جنازہ خود پڑھانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ آپ جس محبت اور خلوص سے نماز پڑھائیں گے اور میت کی مغفرت کی دعا فرمائیں گے وہ کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا اور جو پروفیشنل امام ہے وہ تو قطعاً نہیں کرسکتا الا یہ کہ اسے میت سے کوئی مخلصانہ تعلق رہا ہو۔ احقر نے بعض پروفیشنل امام کو نماز جنازہ پڑھاتے وقت ایسا رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے مانو وہ میت کے ورثاء پر کوئی احسان کررہے ہوں حالانکہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ مرجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور جنازے کے ساتھ قبرستان جائے۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث 2736)۔

اور ہاں نماز بھی ایسی کہ اللّٰہ کی پناہ، جیسے تیسے جلدی جلدی بس پڑھ ڈالی، اطمینان و سکون تو گویا لوگوں کی نماز سے اٹھ ہی چکا ہے۔ ان پروفیشنل لوگوں کو اگر سماج کی لعنت ملامت کا خوف نہ ہو تو یہ لوگ نکاح کی طرح نماز جنازہ کی بھی فیس باندھ لیں لیکن شکر ہے کہ ابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ البتہ خفیہ طور پر نذرانہ دینے کی بنیاد پڑ چکی ہے ۔ اس کی اطلاع احقر کو چند دنوں قبل ہی ایک رفیق نے دی۔ ان کے ایک عزیز کے یہاں کسی کی وفات ہوئی تھی اور وہ جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے تھے تو انہوں نے بچشم خود میت کے وارث کو امام جنازہ کو پانچ سو روپے نذرانہ دیتے ہوئے دیکھا جسے اس پروفیشنل امام نے خاموشی سے اپنی جیب میں رکھ لیا اور ایک بار بھی دینے والے کو یہ نہیں کہا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ کیا پتا کل کو اس کے جواز کا کوئی فتویٰ بھی لے آئیں! یہ کہیں اور کی نہیں پٹنہ کی ہی بات ہے۔ انہوں نے جب یہ واقعہ سنایا تو بے ساختہ میرے منہ سے انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا۔ افسوس کہ ہم کہاں پہنچ گئے، ہم نے اسلام کو پنڈتوں والا دین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے۔

احقر نے ان پروفیشنل لوگوں کو عوام کو اپنے مذہبی امور میں ان پر منحصر ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے بھی سنا ہے، اگر آپ ان کی اصلاح کی کوئی بات کہہ دیں جسے یہ لوگ اپنی تنقید اور مخالفت سمجھتے ہیں تو یہی کہیں گے کہ مولویوں کی مخالفت کرتے ہو، مولوی کے بغیر تمھارا عقیقہ، قربانی، نکاح اور جنازہ کچھ بھی نہیں ہوسکتا، گویا یہ خود کو اسلام کے پنڈت سمجھتے ہیں۔ افسوس ہے ایسی سوچ کے لوگوں پر، ان پر یہ ذمےداری عائد تھی کہ وہ عوام کو ضروری دین سکھاتے اور ان معاملات میں انہیں خودکفیل بناتے لیکن یہ پنڈت بن بیٹھے، اور اپنی ناکارکردگی پر افسوس کرنے کے بجائے اس کے نتائج پر الٹا انہیں طعنے دینے لگے ۔ دراصل جن لوگوں نے دین کو کمانے کھانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ دین کے معاملے میں خود کفیل ہوں۔ وہ تو یہی چاہیں گے کہ آپ جاہل بنے رہیں تاکہ دین کے نام پر وہ آپ کا استحصال کرتے رہیں۔

آپ اپنے اطراف میں غور کیجئے، آپ کو شاید ہی کوئی ایسا امام ملے جس نے اپنے تمام یا اکثر مقتدیوں کی نماز ہی درست کرادی ہو یا اس کی فکر رکھتا ہو اور متعلقہ کوششوں میں مصروف ہو، کامل نماز تو چھوڑ دیجئے کسی نے اپنے سارے مقتدیوں کو نماز جنازہ ہی سکھا دیا ہو الا ماشاء اللّٰہ ۔ اگر کوئی ایسا مل جائے تو ان کی قدر کیجئے اور ان کا ساتھ دیجئے، ایسے لوگ علماء سلف کے نمونے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ۔ ایسا اس لئے کہ یہ ان کا مشن ہی نہیں ہوتا، وہ دیگر لوگوں کی طرح اپنی نوکری کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اگر وہ چاہیں اور ٹھان لیں تو ان کو اتنے مواقع میسر ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مقتدین کو کچھ بھی سکھا سکتے ہیں اور ان کی فکروں کو کسی بھی مثبت رخ پر موڑ سکتے ہیں لیکن آپ کو ایسا دیکھنے کو شاید ہی ملے۔ ہاں ان کے جمعہ کے بیانات ضرور لچھے دار اور فلسفیانہ ہوسکتے ہیں جن کا اکثر اوقات عام لوگوں کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان کے مقتدیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وضو کیسے ٹوٹ جاتا ہے یہ انہیں معلوم نہیں!

اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہر شخص ضروری دین سیکھے اور دینی معاملات میں خود کفیل بنے۔ یہی اسلام کا مزاج بھی ہے، مطالبہ بھی اور ہماری آپ کی ذمےداری بھی۔ نماز جنازہ کوئی ایسی مشکل چیز نہیں جو آدمی نہیں سیکھ سکتا ہو۔ نماز جنازہ میں چار چیزیں پڑھی جاتی ہیں، ثناء، سورۃ الفاتحہ، درود شریف اور جنازے کی دعا ۔ ثناء، سورۃ الفاتحہ اور درود شریف تو لگ بھگ سارے مسلمانوں کو یاد ہوتا ہی ہے یا کم از کم ان کو جو نماز کے پابند ہوتے ہیں، صرف جنازے کی دعائیں یاد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کتب احادیث میں جنازے کی کئی دعائیں وارد ہوئی ہیں، ان میں سے کسی ایک یا دو کو نماز یا مسنون دعاؤں کی کسی مستند کتاب سے یاد کر لینا چاہیے اور اس کے معنی کو بھی سمجھ لینا چاہیے تاکہ دعا مانگتے وقت زبان اور دل کے مابین مطابقت ہو۔ کسی امام کے پیچھے بھی جنازہ کی نماز پڑھ رہا ہو تو دعا مقتدیوں کو پڑھنا ہی ہے لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی یہ دعا یاد نہیں ہوتی ۔ یہ سخت محرومی کی بات ہے ۔ افسوس تب ہوتا ہے جب ایک شخص دور دراز سے سفر کر کے اپنے والدین یا کسی رشتے دار کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لیے آتا ہے لیکن نماز جنازہ دوسروں سے پڑھواتا ہے اور خود اس میں دعا بھی نہیں پڑھ پاتا کیوں کہ یاد ہی نہیں ہوتی۔

کچھ۔ لوگ نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے، ایسے لوگوں سے نماز جنازہ کی امامت بالکل نہیں کروانی چاہیے کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز جنازہ کی سنت ہے اور صحیح روایت سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے فرمایا : "صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , قَالَ : لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ " (مفہوم): "میں نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورۃ فاتحہ (تھوڑا جہر کے ساتھ) پڑھی، پھر فرمایا: (ایسا میں نے اس لئے کیا) تاکہ تم جان لو کہ یہی سنت نبوی ہے ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 1335، نیز سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 3198)۔

اس لئے جو لوگ جان بوجھ کر نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے وہ سنت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف بعض فقہاء نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ کی فرضیت کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز جنازہ ایک نماز ہی ہے کیونکہ کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صَلُّوا عَلىٰ صَاحِبِكُمْ" "تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔" (صحيح بخارى، رقم الحدیث 2295) اور نماز کے لئے آپ نے فرمایا ہے: "لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" یعنی سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز نہیں۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 756)۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ سورۃ الفاتحہ نماز جنازہ میں ضرور ہی پڑھی جائے اور جو لوگ نہیں پڑھتے ان سے نماز نہ پڑھوائی جائے۔

نماز کا مختصر طریقہ یہ ہے: سب سے پہلے نماز جنازہ کی نیت کرنا چاہیے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں۔ کچھ لوگ لمبی چوڑی نیت کے الفاظ یاد کرواتے ہیں اس کی کوئی اصل نہیں۔ صرف دل میں یہ نیت رکھیں کہ میت کی مغفرت کے لئے اور اللّٰہ کو راضی کرنے کے جذبہ سے نماز جنازہ پڑھتا ہوں پھِر اللّٰہ اکبر (پہلی تکبیر) کہیں، اس کے بعد نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر ثناء اور سورۃ الفاتحہ پڑھیں پھر اللّٰہ اکبر (دوسری تکبیر) کہیں، اس کے بعد درودشریف پڑھیں جو عام  نمازوں میں پڑھتے ہیں پھر اللّٰہ اکبر (تیسری تکبیر) کہیں،  اس کے بعد میت کے لئے دعائیں ہیں، جو دعا یاد ہو وہ پڑھ لیں۔ نماز جنازہ کی ایک دعا یہ ہے: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ" (ترجمہ): "اے اللّٰہ! بخش دے ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو، ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللّٰہ ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے۔" (سنن ترمذی، رقم الحدیث 1024)۔ اس دعا کے بعد پھر اللّٰہ اکبر (چوتھی تکبیر) کہیں۔ اس کے بعد سلام پھیر کر نماز ختم کریں۔ بعض روایات میں چوتھی تکبیر کے بعد بھی مختصر سی دعائیں وارد ہوئی ہیں پھر سلام ہے تو ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ یہ سنت بھی ہمارے دیار میں متروک ہے۔ اس جگہ بعض فقہاء کے مطابق "ربنا آتنا فی الدنیا" والی دعا پڑھی جاسکتی ہے جو عموماً سب کو یاد ہوتی ہے۔ مختصر بات یہ کہ جب علم حاصل کریں گے تب ہی عبادات کو سنت کے مطابق ادا کرسکیں گے اور عبادات میں حسن پیدا ہوگا۔ جب علم ہی نہیں ہوگا تو اس کا احساس بھی نہیں ہوگا کہ ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے؟

ہاں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام مسجد سے نماز جنازہ پڑھوانے میں کوئی فضیلت ہے اور بعض فقہاء نے نماز جنازہ کی امامت کے مستحقین کے سلسلے میں لمبی چوڑی ترتیب بھی لکھ دی ہے۔ سنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا واقعہ ہوا ہے کہ کسی صحابی یا صحابیہ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا اور ان کی تجہیز و تکفین ہوگئی اور  آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بعد میں اس کی اطلاع ہوئی ۔ اگر نماز جنازہ میں امیر شہر، قاضی یا حاکم یا امام وقت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا تو لازماً رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی آپ نے اس کی تاکید کی۔ اس لئے اس کی کوئی اصل نہیں، اپنے قریبی متعلقین میں سے جو شخص علم اور تقویٰ کے لحاظ سے برتر ہو وہ نماز جنازہ پڑھائے یہی بہتر ہے۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قریبی رشتے داروں کا دل اس حادثہ کی وجہ سے مغموم اور ٹوٹا ہوا ہوتا ہے اور اللّٰہ کے یہاں ٹوٹے ہوئے دل کی بڑی قدر ہوتی ہے، اس لئے وہ جو دعائیں کریں گے وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہوگی۔ تاہم اگر مرنے والے شخص نے کسی کو اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کردی ہو تو سب سے پہلا حق امامت کا اسی شخص کو ہوگا یعنی مرنے والے شخص کی وصیّت کا لحاظ رکھا جائے گا، صحابہ کرام کے طرز عمل سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ حضرت عمر ان کے جنازے کی نماز پڑھائیں، اسی طرح حضرت عمر نے حضرت صہیب، حضرت عائشہ نے حضرت ابوہریرہ، اور حضرت ام سلمہ نے حضرت سعید بن زید کے بارے میں اپنی نماز جنازہ پڑھانے کی وصیت کی تھی جس کا صحابہ کرام نے لحاظ رکھا ۔ اس۔ لئے اگر آپ چاہیں تو اپنی نماز جنازہ کی امامت کے لئے کسی متقی اور پرہیزگار شخص کے بارے میں وصیت کر سکتے ہیں جو آپ سے محبت رکھتا ہو۔ امید ہے کہ میری یہ تحریر آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور ہی جھنجھوڑے گی اور عملی اقدام پر آمادہ کرے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے علم پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین! وما علینا الاالبلاغ!