-----------------------------------------------------------
ڈاکٹر
محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
[𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧, Haqeeqat Today, Lucknow, Vol. 13, Issue 213, Friday, 5th July 2024, P. 04]
[𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧, Taasir Urdu Daily, Patna, Vol. 12, Issue 180, Friday, 5th July 2024, P. 06]
[𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐑𝐨𝐬𝐡𝐧𝐢 𝐌𝐞𝐢𝐧 𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐊𝐚𝐮𝐧 𝐇𝐚𝐢, The Daily Srinagar-e-Jang, Srinagar, Kashmir, Vol. 27, Issue 151, Friday, 5th July 2024, P. 06]
[𝐒𝐚𝐜𝐡𝐜𝐡𝐚 𝐌𝐨𝐦𝐢𝐧 𝐐𝐮𝐫’𝐚̄𝐧 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧, Pindar Urdu Daily, Patna, Vol. 51, Issue 181, Friday, 5th July 2024, P. 07]
ایمان کے لغوی
معنی ہیں یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا، قبول کرنا وغیرہ ۔ شریعت کی اصطلاح میں
ایمان کہتے ہیں اس حقیقت کے قبول و اعتراف کو کہ اللہ ایک ہے، وہی عبادت کے لائق
ہے، وہی تمام کائنات کا پروردگار ہے، اس کے تمام ذاتی اور صفاتی کمالات برحق ہیں،
حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور اللہ کی طرف سے قرآن وسنت کی شکل میں
جو دین وشریعت لے کر آپؐ اس دنیا میں تشریف لائے اس کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں۔ شریعت
کی اس اصطلاح میں ہر وہ آدمی ایمان والا ہے جو کلمہ طیبہ کی صدق دل سے گواہی دیتا
ہو اور اس کی توفیق مل جانا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا اس دنیا میں سب سے بڑا انعام ہے
کیوں کہ انسان کی دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں اسی کلمہ کے اقرارسے وابستہ ہیں۔
قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ دنیا کی زندگی میں انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ نے
ایمان والوں سے پاکیزہ زندگی، اپنی مدد، اطمینان قلب، عزت، عافیت، رحمت، راحت،
دعاؤں کی قبولیت اور لوگوں کی دلوں میں محبوبیت دینے کا وعدہ کیا ہے اور اجتماعی
طور پر زمین کی خلافت دینے کا وعدہ کیا ہے اور آخرت کی زندگی میں ہر مرحلہ میں
ہونے والی رسوائیوں سے بچا کر اپنے مہمان خانہ یعنی جنت میں جگہ عطا کرنے اور اپنی
رضا کا پروانہ دینے کا وعدہ کیا ہے جو بڑی اور ابدی کامیابی ہے ۔
اب ایک غور طلب بات یہ ہے کہ کیا
مذکورہ تمام کامیابیوں کی ضمانت ہمیں صرف ایک کلمہ کے اقرار سے مل جاتی ہے یا یہ
کلمہ ہماری زندگی میں کچھ تبدیلیاں بھی چاہتا ہے اور اس کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں؟
اس سوال پر غور و فکر ہم دو پیرائے میں کر سکتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ ہم اپنی زندگی
کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ دنیوی زندگی میں اللہ رب العزت کے مذکورہ انعامات
ہماری طرف متوجہ ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو یہ حالت پریشان کن نہیں لیکن اگر معاملہ
اس کے برعکس ہے توہمیں دو پہلوؤں پر غور کرناچاہیے؛ اول یہ کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں
جن کے نتیجہ میں ہم اللہ کے انعامات سے محروم ہیں اور دوئم یہ کہ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کی زندگی میں وہ کون سی صفات تھیں جن کی وجہ سے ان پر اللہ کی خصوصی
رحمتیں متوجہ تھیں؟ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم کتاب وسنت سے رجوع کریں اور یہ معلو م
کریں کہ کلمہ طیبہ کے عملی تقاضے کیا ہیں؟
ہم لوگ اپنے طرز عمل سے تو یہی ظاہر کر
رہے ہیں کہ صرف کلمہ طیبہ کا اقرار کر لینا دنیا اور آخرت کی زندگی کو بنانے کے
لئے کافی ہے، اعمال کا صالح ہونا یا نہ ہونا ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور
اپنی اس حالت پر ہم لوگ نہ صرف یہ کہ مطمئن ہیں بلکہ کامل مومن ہونے کا دعوی بھی
رکھتے ہیں۔ اس لئے جب ہم پر کبھی برے حالات آجاتے ہیں یا ہم اللہ کی نعمتوں سے
محروم کردئے جاتے ہیں تو ہماری نگاہیں اپنی ان بد اعمالیوں کی طرف نہیں جاتی جو ان
کا سبب بنی ہیں بلکہ الٹاہم اللہ تعالیٰ کا ہی گلہ شکوہ شروع کردیتے ہیں۔ ہماری یہ
حالت انتہائی افسوسناک ہے ۔ قرن اول کے کفار و مشرکین بھی کلمہ طیبہ کے عملی
تقاضوں سے واقف تھے اور اسی لئے انہیں اسے قبول کرنے میں تامل بھی ہوا۔ ہم لوگ
چونکہ نسلی مسلمان ہیں اس لئے نہ ہمیں فریضہ شہادت حق کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا
اور نہ ہی ہم نے ایمان کے تقاضوں پر غور کرنے کی کبھی ضرورت محسوس کی۔ قرآن و احادیث
کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ایک ایسی
امت کی تشکیل تھا جو خاص صفات کی متحمل ہو جسے خیر امت کے لقب سے بھی نوازا جانا
تھا۔ چنانچہ قرآن مجید اور کتب احادیث میں جابجا ان صفات کا تذکرہ ملتا ہے جو ایمان
والوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو مطلوب ہیں۔ ان تمام صفات کا احاطہ ایک
مضمون میں کرنا دشوار ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اپنے محاسبہ کے لئے ہم لوگ قرآن کریم
کی چند جامع آیات پر غور کریں اور معلوم کریں کہ ہمارے ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ سورۃ
الانفال کے پہلے رکوع میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ
إِذَا ذُکِرَ اللّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ
زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ہ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ
الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنفِقُونَ ہ أُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ
حَقًّا لَّہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ ہ﴾
(ترجمہ): "بس ایمان والے تو وہ لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے ) اللہ کا ذکر آتا
ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو
وہ ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں،(نیز)
وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ
میں) خرچ کرتے ہیں۔ سچے ایمان والے یہی لوگ ہیں، ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب
کے پاس اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ '' (الانفال:۲-۴)۔
ان آیات کے اندراللہ رب العزت نے چند
صفات کا ذکر سچے اور پکے مومن کی علامات کے طور پر کیا ہے۔ ان میں پہلی صفت خشیت
الٰہی ہے یعنی سچے مومن ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کاذکر آجائے تو اس کی
عظمت اور کبریائی کے استحضار سے ان کے دل سہم جاتے ہیں بالخصوص ان مواقع پر جب کہ
اللہ کا کوئی حکم ٹوٹ رہا ہو یا ٹوٹنے والا ہو اور کوئی مخلص بندہ اللہ کا خوف
دلادے تو ایمان والے کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ڈر کر اللہ کی نافرمانی سے رک جائے
اورتوبہ کرکے اللہ سے رجوع کرلے۔ اپنی غلطیوں کو دلائل سے صحیح ٹھہرانا شیطانی صفت
ہے جو اللہ کے غیظ و غضب کا موجب ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ خوف خدا کا تعلق اللہ
تعالیٰ کی صفات جلالیہ کی معرفت سے ہے، اگر اللہ کی معرفت نہ ہوگی تو اللہ کا خوف
بھی نہ ہوگا اور اگر اللہ کی معرفت حاصل ہے جس کا لازمی تقاضہ خوف خدا ہے تو مومن
ہونے میں پھر کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو جو خوف
خدارکھتے ہیں درجات کی بلندی، مغفرت اور رزق کریم کی خوشخبری دی ہے۔
مومن کی دوسری صفت مذکورہ آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب اس کے
سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تواس کا ایمان بڑھ جاتا ہے یعنی اس کے کیفیت
ایمانی میں ترقی ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت تب ہی ہو سکتی ہے جب اللہ رب العزت کی عظمت
کے ساتھ ساتھ اس کے کلام کی بھی عظمت دل میں ہو۔ اسی لئے علمائے دین نے قرآن پاک کی
تلاوت کے ظاہری اور باطنی آداب بتائے ہیں جن کی رعایت کے توسط سے اس کیفیت کو حاصل
کیا جاسکتا ہے۔ قارئین کو اس سلسلے میں کم از کم امام غزالیؒ کی تصنیف "کیمیائے
سعادت" یا "إِحیاء علوم الدین" کا متعلقہ باب ضرور پڑھنا چاہیے۔
اگر قرآن پاک کی تلاوت سے ایمانی کیفیت میں ترقی نہ ہو اور نیک اعمال کا شوق نہ
ابھرے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کلام اور صاحب کلام کی عظمت ابھی ہمارے دلوں میں
پوری طرح نہیں آئی اور یہ ضعف ایمان کی علامت ہے ۔
مومن کی تیسری صفت سورۃ الانفال کی
مذکورہ آیات میں توکل علی اللہ بتائی گئی ہے جس کا مطلب ہے اپنے ہر معاملہ میں
اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد کرنا۔ یہ صفت بھی معرفت خداوندی یا توحید حق کا ہی
ثمرہ ہے۔ جب انسان اللہ رب العزت کو صدق دل سے فاعل حقیقی، مختار کل اور تمام صفات
کمالیہ میں یکتا تسلیم کرلیتا ہے تو اس کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ اس سے ایسے اعمال
سرزد ہوں جن سے اللہ پر توکل ظاہر ہو۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اسباب سے یقین ہٹ کر
مسبب الاسباب پر یقین جم جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسباب کو اختیار ہی نہ
کرے، اسباب مشروعہ کا اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں بلکہ ان کا اختیار کرنا جبکہ
اس پر قادر ہو سنت رسول ﷺ ہے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جس طرح تمام اسباب اپنے وجود
میں آنے کے لئے اللہ کے حکم کے محتاج ہیں ٹھیک اسی طرح نتائج برآمد کرنے اور نفع یا
نقصان پہنچانے میں بھی اللہ ہی کے حکم کے محتاج ہیں اور اللہ پاک اپنے کسی ارادہ
کو پورا کرنے میں کسی سبب کا محتاج نہیں۔ مومن کے اندر اس کیفیت کا ہونا ضروری ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (ترجمہ): "اور
مومنوں کو صرف اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔" (آل عمران:۱۲۲، ۱۶۰)۔ ایک جگہ فرمایا : ﴿وَعَلَی اللّہِ
فَتَوَکَّلُوْآ إِنْ کُنتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (ترجمہ): "اور اپنا بھروسہ صرف
اللہ پر ہی رکھو اگر تم واقعی مومن ہو۔" (مائدہ:۲۳) اور ایک جگہ یہ بشارت بھی دی ہے:
﴿إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾ (ترجمہ): "حق تعالیٰ شا نہ توکل
کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں۔" (آل عمران:۱۵۹)۔
مومن کی چوتھی صفت زیر بحث آیات میں
اقامت صلوٰۃ بتائی گئی ہے یعنی نماز کو قائم کرنا۔ نماز قائم کرنے سے مراد اوقات کی
پابندی، کامل وضو، رکوع و سجود کی تکمیل، خشوع و خضوع کے لحاظ اور فرائض، سنن و
آداب کی رعایت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے۔ علامہ ابن کثیرؒ نے اس سلسلے میں سورۃ
البقرۃ کی آیت نمبر ۳؍ کے تحت عبد اللہ بن عباسؓ، قتادہؒ اور مقاتل بن حیانؒ کے جو اقول
نقل کئے ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اقامت صلوٰۃ کے
حکم میں مداومت کا پہلو بھی مضمر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس فکر و اہتمام سے
ادا کی جائے کہ اسے ترک کرنے کا تصور بھی ذہن میں باقی نہ رہے۔ قرآن مجید میں دوسری
جگہ اسے محافظت علی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ بھی ہے کہ
نماز قائم کرنے سے مراد ذاتی طور پر نماز ادا کرنا ہی نہیں بلکہ اس بات کی کوشش بھی
کرنا ہے کہ محلہ کے تمام افراد مسجد میں یکجا ہوکر جماعت کی پابندی کے ساتھ نماز
ادا کریں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کوشش یہ ہو کہ نظام صلوٰۃ پورے معاشرے میں اس طرح
برپا ہوجائے کہ مسلمانوں کے تمام شعبہ حیات کو متاثر کئے بغیر نہ رہے۔ گویا کہ ایک
مومن سے نماز کے سلسلے میں یہ سارے توقعات وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کی چند دوسری آیتوں
میں بھی نماز کو اسلام کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً کافروں کے سلسلے میں اللہ
کا ارشاد ہے: ﴿فَإِن تَابُوْا وَأَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکٰوۃَ
فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ﴾ "اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں
اور زکوٰۃ دینے لگیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔" (التّوبۃ:۱۱)۔ گویا اسلامی برادری میں کسی کی شمولیت
کو تب ہی تسلیم کیا جائے گا جب وہ نماز قائم کرنے لگے۔ اسی طرح ارشاد ربانی
ہے:﴿إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾
"اللہ کی مسجدوں کو تووہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان
رکھتا ہے۔" (التّوبۃ:۱۸)۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی نماز کو ایمان
کی علامت قرار دیا ہے، آپؐ کا ارشاد ہے: "بَیْنَ الْکُفْرِ وَ الإِیمَانِ
تَرْکُ الصَّلَاۃِ" (مفہوم): "کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز
نماز کا ترک کرنا ہے۔" (سنن الترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۶۱۸، بروایت جابرؓ)۔ دوسری روایت میں ہے
کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَ
الْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ" (مفہوم): "بے شک آدمی اور شرک و کفر کے
درمیان نماز کا ترک(حائل) ہے۔" (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ۲۴۶، بروایت جابرؓ)۔ ایک اور روایت میں ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اَلْعَھْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمُ
الصَّلَوٰۃُ، فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ" "وہ عہد جو ہمارے اور ان
(کافروں) کے درمیان ہے نماز ہے، پس جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔"
(سنن الترمذیؒ ، رقم الحدیث ۲۶۲۱، بروایت بریدہؓ )۔ امام ترمذیؒ نے عبداللہ بن
شقیق عقیلیؒ سے روایت نقل کی ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اعمال میں سے کسی بھی چیز کے ترک
کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نمازکے۔ (سنن الترمذیؒ، رقم الحدیث ۲۶۲۲)۔ گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایسی
قوم کا تصور بھی نہیں تھا جو نماز نہ پڑھے اور خود کو مسلمان سمجھے لیکن ہمارے
زمانے کے لگ بھگ اسّی فیصد کلمہ گو نماز کے اہتمام سے غافل ہیں اور کامل مومن ہونے
کا دعوی بھی رکھتے ہیں، انہیں اپنی اس حالت پر غور کرنا چاہیے۔
ایمان والوں کی پانچویں صفت مذکورہ آیات میں یہ بتائی گئی ہے کہ جو
کچھ اللہ نے انہیں رزق دیا ہے وہ لوگ اس میں سے اللہ کی راہ میں محض اس کی رضاجوئی
کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک صورت تو زکوٰۃ و صدقات کے
ذریعے رشتہ داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، فقیروں، مسکینوں، بیکسوں، قیدیوں اور
غلاموں کی مالی امداد کرنا ہے جس کا اشارہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷؍، آیت نمبر ۲۱۵؍ اور ان جیسی چند دیگر آیات میں دیا گیا
ہے۔ اس کی دوسری صورت ہے اسلام کو زندہ کرنے، اسے دوسرے تمام ادیان پر غالب کرنے
اور اس راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جو کہ ہر ایک مومن کامطلوبہ مقصد
حیات ہے، اپنے مال کو بے دریغ خرچ کرنا۔ اس کا اشارہ سورۃ الصف کی آیت نمبر ۱۱؍، سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۶۰؍، اور ان جیسی متعدد آیات میں ملتا
ہے۔ سورۃ التوبہ کی ۱۱۱؍ویں آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے ان کی
جانوں اور مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ انہیں جنت ملے گی جس کا تقاضہ بھی
یہی ہے ان چیزوں کو اللہ کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں خرچ کیا جائے کیوں کہ یہ
سب اسی کی امانت ہے۔ اب شہرت، ناموری اور ریاکاری سے دور رہ کر خلوص و للہیت کے
ساتھ انفاق فی سبیل اللہ وہی شخص کرسکتا ہے جو واقعی مومن ہو، جسے جان و مال کے
اللہ کی امانت ہونے کا احساس ہو اور آخرت میں اس کے انعامات کے وعدوں پر بھروسہ
اور یقین ہو۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو کسی کے لئے بھی کسی نیک راہ میں مال
خرچ کرنا آسان نہیں، اگر کرے گا بھی تو اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں اسی دنیا میں
چاہے گا۔ مسلمانوں میں بھی بہت سے مالدار لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ تو ملت کے غرباء و
مساکین کے اصلاح حال کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی تجدید و احیاء دین کی جب کہ منگنی،
شادی بیاہ، برتھ ڈے، میرج ڈے وغیرہ کے نام پر لاکھوں روپے کی فضول خرچی بے دریغ
کرتے ہیں۔ انہیں اپنا محاسبہ ضرور کرنا چاہیے کہ کل بروز حساب خدا کو کیا جواب دیں
گے اگر یہ پوچھ لیا گیا کہ میں نے تمھیں مال و دولت سے نوازا تھا ، تو نے اس کا کیا
حق ادا کیا؟
ایمان والون کی مذکورہ پانچ صفات بیان
کرنے کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ سچے ایمان والے وہی ہیں جو
ان صفات سے متصف ہوں اور ان کے لئے ہی ان کے رب کے پاس بلند درجات ہیں، مغفرت ہے
اور عزت کی روزی ہے۔ اب ان آیات کی روشنی میں ہم لوگوں کو اپنی حالت پرغور کرنا
چاہیے کہ ہمارے اندر یہ صفات کس درجہ تک موجود ہیں؟ کیا اللہ کا ذکر سن کر واقعی
ہمارے دل کانپ جاتے ہیں؟ کیا قرآن کریم کی آیات پڑھ کر یا سن کر ہمارا ایمان واقعی
میں بڑھ جاتا ہے؟ کیا واقعی ہم اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں؟ کیا ہم نماز کو قائم
کرنے کی فکر کرتے ہیں یا کم از کم خود نماز کا اہتمام کرتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر
اللہ کی راہ میں اور دین کی سربلندی کے لئے اپنا مال خرچ کرنے کا جذبہ ہے؟ اگر ان
سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایمان
کی حقیقت نصیب فرمادی اور اگر ان کا جواب نفی میں ہے یا ان میں سے کوئی صفت موجود
نہیں تو ہمیں اس کو حاصل کرنے کی فکر میں لگ جانا چاہیے کیونکہ یہ ضعف ایمان کی
علامت ہے۔ کامل ایمان کا مطلب ہی ہوتا ہے اقرار باللسان، تصدیق بالقلب اور اعمال
بالجوارح سب کی موجودگی ۔ اتنا ضعیف ایمان جو شریعت کے احکام کی جسمانی بجا آوری
پر آمادہ نہ کرسکے، نہ تو دنیا میں اللہ کے انعامات کو اتارنے کے لئے ہی کافی ہے
اور نہ ہی آخرت کی کامیابی دلانے کے لئے۔ اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب
کرے۔آمین!
٭٭٭٭٭

.jpg)

.png)
No comments:
Post a Comment