Friday, 19 January 2024

جمعہ کی ادائیگی کو آسان بنائیں

 --------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ


 [𝐉𝐮𝐦𝐚 𝐊𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐞𝐠𝐢 𝐊𝐨 𝐀𝐚𝐬𝐚𝐧 𝐁𝐚𝐧𝐚𝐞𝐧𝐔𝐫𝐝𝐮 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲 𝐇𝐚𝐦𝐚𝐫𝐚 𝐒𝐚𝐦𝐚𝐣, 𝐍𝐞𝐰 𝐃𝐞𝐥𝐡𝐢, 𝐕𝐨𝐥. 𝟏𝟕, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝟏𝟏𝟏, 𝟏𝟗𝐭𝐡 𝐉𝐚𝐧𝐮𝐚𝐫𝐲 𝟐𝟎𝟐𝟒, 𝐏. 𝟎𝟓]

https://hamarasamajdaily.com/012024/19012024/delhi/page05b.html



 [𝐉𝐮𝐦𝐚 𝐊𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐞𝐠𝐢 𝐊𝐨 𝐀𝐚𝐬𝐚𝐧 𝐁𝐚𝐧𝐚𝐞𝐧, 𝐔𝐫𝐝𝐮 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲 𝐌𝐞𝐫𝐚 𝐖𝐚𝐭𝐚𝐧, 𝐍𝐞𝐰 𝐃𝐞𝐥𝐡𝐢, 𝐕𝐨𝐥. 𝟎𝟖, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝟑𝟒𝟑, 𝟏𝟗𝐭𝐡 𝐉𝐚𝐧𝐮𝐚𝐫𝐲 𝟐𝟎𝟐𝟒, 𝐏. 𝟎𝟒]

https://roznamamerawatan.com/e/epage/4/1/20240119



 [𝐉𝐮𝐦𝐚 𝐊𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐞𝐠𝐢 𝐊𝐨 𝐀𝐚𝐬𝐚𝐧 𝐁𝐚𝐧𝐚𝐞𝐧, 𝐔𝐫𝐝𝐮 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲 𝐌𝐞𝐫𝐚 𝐖𝐚𝐭𝐚𝐧, 𝐍𝐞𝐰 𝐃𝐞𝐥𝐡𝐢, 𝐕𝐨𝐥. 𝟏𝟕, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝟏𝟗, 𝟏𝟗𝐭𝐡 𝐉𝐚𝐧𝐮𝐚𝐫𝐲 𝟐𝟎𝟐𝟒, 𝐏. 𝟎𝟕]


 [𝐉𝐮𝐦𝐚 𝐊𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐞𝐠𝐢 𝐊𝐨 𝐀𝐚𝐬𝐚𝐧 𝐁𝐚𝐧𝐚𝐞𝐧, 𝐔𝐫𝐝𝐮 𝐃𝐚𝐢𝐥𝐲 𝐒𝐚𝐧𝐠𝐚𝐦, 𝐏𝐚𝐭𝐧𝐚, 𝐕𝐨𝐥. 𝟕𝟐, 𝐈𝐬𝐬𝐮𝐞 𝟏𝟗, 𝟏𝟗𝐭𝐡 𝐉𝐚𝐧𝐮𝐚𝐫𝐲 𝟐𝟎𝟐𝟒, 𝐏. 𝟎𝟑]


جمعہ کی ادائیگی کو آسان بنائیں

دعوت و تبلیغ اور فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ دین کے اندر تنگی پیدا نہ کی جائے بلکہ آسانیاں پیدا کی جائیں نیز لوگوں کو بشارتیں سنائی جائیں، نفرت نہ دلائی جائے۔ اس بات کا حکم نبی کریم ﷺ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اس وقت دیا تھا جب آپ انہیں دین کی تعلیم و تبلیغ کے لئے یمن روانہ کررہے تھے۔ آپ کے الفاظ یہ تھے: "يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا ، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا ، وَتَطَاوَعَا" یعنی آسانی پیدا کرنا اور تنگی نہ کرنا اور خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق رکھنا۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 7172)

 اس حکم کا اطلاق دین کے جملہ امور بالخصوص اجتماعی عبادات پر بھی ہوتا ہے۔ اسی لئے امام کو فرض نمازیں ہلکی پڑھانے کا حکم ہے تاکہ مقتدیوں میں موجود ضعیفوں، بیماروں، کمزوروں اور حاجت مندوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ حضرت عثمان بن ابوالعاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی قوم کی امامت کرنے کا حکم دیا تو یہ ارشاد فرمایا: «أُمَّ قَوْمَكَ، فَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَإِنَّ فِيهِمْ ذَا الْحَاجَةِ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ وَحْدَهُ، فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ» یعنی تم اپنی قوم کی امامت کرو اور جو شخص لوگوں کا امام بنے، وہ (نماز میں) تخفیف کرے کیونکہ ان میں بوڑھے ہوتے ہیں، ان میں بیمار ہوتے ہیں، ان میں کمزور ہوتے ہیں اور ان میں ضرورت مند ہوتے ہیں، اور جب تم میں سے کوئی اکیلا نماز ادا کرے تو جیسے چاہے ادا کرے ۔ (صحیح مسلم ، رقم الحدیث 1050)

 اسی وجہ سے جب ایک صحابی نے حضرت معاذ رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں بنی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ وہ قرآت میں سورۃ البقرۃ اور سورۃ النساء جیسی سورتیں اختیار کر کے عشاء کی نماز کو بہت طول دے دیتے ہیں جب کہ میں دن بھر اونٹ چَرانے کی وجہ سے رات میں تھک کر چکنا چور ہوجاتا ہوں اور طویل قرأت سننے کی طاقت نہیں رکھتا تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے فرمایا: اے معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ آپ نے أَفَتَّانٌ یا أَفَاتِنٌ لفظ تین مرتبہ فرمایا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم نے سَبْحِ اسْمَ رَبِّكَ الأعلَی، وَالشَّمسِ وَضُحَاهَا، وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشٰى (جیسی سورتوں) کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جب کہ تمہارے پیچھے عمر رسیدہ، کمزور اور حاجت مند لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔ (صحيح بخاری، رقم الحدیث 705)

 اسی طرح ایک اور صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے شِکایَتاً عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لیے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب فجر کی نماز بہت طویل کر دیتے ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر آپ اس قدر غصہ ہوئے کہ میں نے نصیحت کرتے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ کو کبھی نہیں دیکھا ۔ پھر آپ نے فرمایا: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَةِ "  یعنی اے لوگو ! تم میں سے بعض لوگ (نماز سے لوگوں کو) نفرت دلانے کا باعث بنتے ہیں۔ پس جو شخص لوگوں کی امامت کرے اسے اختصار سے کام لینا چاہئے کیوں کہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند سب ہی ہوتے ہیں ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 704)۔

 ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ علماء، فقہاء، داعیان دین اور اولوالامر حضرات دینی امور میں حتی الامکان کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ کریں جس کی وجہ سے عام مسلمان پریشانیوں میں مبتلا ہوں اور ان کے اندر اسلام یا اسلامی احکام کے تئیں نفرت و بیزاری پیدا ہو لیکن بدقسمتی سے مشاہدے میں یہ بات دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ معاملہ اکثر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جمعہ کی نماز کو ہی لے لیجئے جو کہ اس مضمون کا کلیدی موضوع ہے۔ بچپن سے دیکھتا آیا تھا کہ جمعہ کی اذان اور خطبہ کے دوران آدھ گھنٹے کا وقفہ رہتا تھا، اسی آدھ گھنٹے میں سے مقررین آخر کے پندرہ بیس منٹ مقامی زبان میں پند و نصائح اور تقاریر کے لئے نکال لیتے تھے لیکن اب شہر کی اکثر مساجد میں یہ وقفہ پون گھنٹہ ہوچکا ہے۔ مثلاً اذان کا وقت اگر 12.30 ہے تو خطبے کا وقت 01.15 ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ وقفہ صرف اس لئے بڑھایا گیا ہے تاکہ امام و خطیب صاحب اپنے فن خطابت کا بھرپور اظہار کر سکیں۔ یہ بات اس لئے لکھنا پڑ رہی ہے کہ 15 سے 20 منٹ گفتگو بھی کافی ہے اگر باتوں کو منظم اور منضبط طریقہ سے پیش کیا جائے لیکن اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ گفتگو کو لچھے دار بنانے کے چکر میں الفاظ اور جملے بدل بدل کر باتوں کا اعادہ کیا جاتا ہے جس میں وقت کا ضیاع لازمی ہے اور پوری تقریر کا اگر آپ خلاصہ نکالیں تو مشکل سے چند جملوں میں نکلے گا۔ اس پر بھی بعض خطیب اپنے جوش خطابت میں وقت کی پابندی کا لحاظ نہیں رکھتے، 5 سے 10 منٹوں کا اضافہ تو معمول میں شامل ہوتا ہے۔ ایک مسجد جس میں اذان کا وقت 12.30 بجے اور خطبے کا 01.15 بجے ہے، خطبہ ہمیشہ 01.25 یا 01.30 بجے ہی شروع ہو پاتا ہے جس کی وجہ سے نماز عموماً  01.35 میں شروع اور لگ بھگ 01.45 میں ختم ہوپاتی ہے۔ پھر اس کے بعد لمبی چوڑی دعائیں ہیں۔ اس طرح اذان سے خطبے میں ایک گھنٹہ اور نماز میں سوا گھنٹے کا وقفہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر اگر آپ سنن راتبہ و نوافل ادا کرنا چاہیں تو مزید وقت درکار ہے۔

 اب آپ غور کیجئے کہ اتنی دیر تک مسجد میں بیٹھنا اور وضو کو باقی رکھنا کتنا مشکل کام ہے۔ ادھیڑ عمر کے اکثر افراد آج کل یا تو پروسٹیٹ (Prostate) یا معدے سے متعلق (Gastric) مسائل یا گھٹنوں کے درد کا شکار ہوتے ہیں۔ پروسٹیٹ کے مریضوں کو بار بار پیشاب آنے کی شکایت رہتی ہے جسے وہ زیادہ دیر تک روک بھی نہیں سکتے اور سردی کے موسم میں یہ پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ گیسٹرک کے مریضوں کو ریح کو روکنا مشکل ہوتا ہے اور گھٹنوں کی تکلیف والے زیادہ دیر تک دوزانو یا چہارزانو بیٹھ نہیں سکتے لیکن ان سب کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایسے لوگ اپنی معذوری کی وجہ سے اگر دیر سے جمعہ میں شریک ہوں تو دوسرا مسئلہ نیچے کی منزل میں جگہ نہ ملنے کا سامنے آتا ہے اور ضعیف لوگ بالائی منزلوں کی سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکتے۔

 ان کے علاوہ بہت سے لوگ سرکاری یا غیرسرکاری ملازم ہوتے ہیں جنہیں مختصر وقفے کی مہلت جو عموماَ نصف سے ایک گھنٹے کے درمیان ہوتی ہے، جمعہ کی ادائیگی کے نام پر ملتی ہے جس میں ان کے آنے جانے کا وقفہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جو لوگ ملازمت پیشہ نہیں ہیں انہیں بھی دوسرے تقاضے ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگ مسافرت میں ہوسکتے ہیں اور کچھ کا سفر کا ارادہ بھی ہو سکتا ہے جن کے لئے بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کے اوقات کا لحاظ رکھنا لازم ہوتا ہے۔ قرب و جوار کے دیہاتوں سے بہت سے لوگ جمعہ کے دن شہر اس ارادے سے آتے ہیں تاکہ وہاں جمعہ بھی ادا کرلیں اور اپنے ذاتی تقاضوں کو بھی جو شہر سے وابستہ ہیں پورا کرلیں ۔ جمعہ کی ادائیگی میں بہت زیادہ وقت صرف ہو جانے کی وجہ سے ان سب کو کس قسم کی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے اس کی کوئی فکر نہ امام و خطیب صاحب کو ہوتی ہے نہ مسجد کمیٹی کے ذمے داران کو۔ تو پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر کہاں عمل ہوا کہ بوڑھوں، کمزوروں، مریضوں اور حاجت مندوں کا خیال رکھو؟ کیا ایسے تمام لوگوں کے لئے جمعہ کی ادائی کو مشکل نہیں بنایا جارہا ہے؟ جمعہ کے خطبے کے سلسلے میں تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت موجود ہے۔ آپ نے فرمایا: "إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ" جس کا مفہوم یہ کہ آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا اس کے دین کی سمجھداری کی علامت ہے لہٰذا تم نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو ۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث 2009، بروایت جابر رضی اللّٰہ عنہ)-

 یہ بھی قابل غور ہے کہ یہاں جس خطبے کو نماز کے مقابلے میں مختصر کرنے کی بات کہی گئی ہے وہ نماز جمعہ کا حصہ ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک واجب ہے، تو جو تقریر اس خطبے پر بھی اضافہ ہو اس کا بہت طویل ہونا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ویسے بھی بادلیل و مختصر کلام ہی عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ عریض کلام جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں مگر معنی کم ہوں پسند نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس کے لئے قبل از تقریر مطالعہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو شاید کیا بھی نہیں جاتا الا ماشاء اللّٰہ ۔ موضوعات بھی گھسے پٹے اور روایتی ہوتے ہیں جن کا لوگوں کے عمل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دین کی بنیادی باتوں کو ان تقاریر کا موضوع بنانا چاہیے کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ مسلمان کیوں کہے جاتے ہیں اور بحیثیت مسلمان ان کی کیا ذمے داریاں ہیں نیز ان کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ احقر نے جمعہ کی تقریر کے موضوعات اور طریقہ کار پر الگ سے ایک مضمون بہت قبل لکھا تھا جو ملک کے کئی اخبارات میں شائع بھی ہوا تھا اور انٹرنیٹ پر آج بھی موجود ہے جس کا عنوان تھا "علماء اپنی تقاریر کا انداز بدلیں"۔ اس مضمون سے مزید استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ جمعہ میں تقدیم و تعجیل مستحب ہے یعنی بعد از زوال وقت جمعہ شروع ہوتے ہی نماز جلدی ادا کر لینا بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا ۔ سلمہ بن اکوع رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے: "كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ فَنَرْجِعُ وَمَا نَجِدُ لِلْحِيطَانِ فَيْئًا نَسْتَظِلُّ بِهِ" یعنی ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے پھر لوٹتے تو ہمیں دیواروں کا اتنا بھی سایہ نہ ملتا تھا کہ ہم (سورج سے) اس کی اوٹ لے سکیں۔ (صحیح مسلم، رقم 1993) ۔ یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اول وقت پر ہی ادا کیا کرتے تھے ۔ اب اس مسجد کا حال دیکھئے جس کی احقر نے اوپر مثال دی ہے کہ وہاں ظہر تو ہمیشہ اول وقت میں (ایک بجے) ادا کی جاتی ہے لیکن جمعہ تاخیر سے یعنی 1.30 سے 1.45 کے دوران۔ اب اس کے پیچھے کیا حکمت ہے، یہ احقر کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

آخر میں ائمہ، خطباء اور مسجد کمیٹیوں کے ذمے داران سے ایک اپیل ہے کہ للہ مذکورہ بالا باتوں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں اور جمعہ کی ادائی کو سب کے لئے آسان بنائیں۔ جمعہ کی اذان سے خطبے کے وقفے کو کم کریں ۔ یہ آدھ گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور تقریر کے لئے آخر کے 15 سے 20 منٹ کافی ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ جمعہ مہینے میں ایک دن نہیں بلکہ چار سے پانچ مرتبہ آتا ہے۔ خطیب وقت کی پابندی کا پورا خیال رکھیں تاکہ کسی حاجت مند کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ وما علینا الاالبلاغ!

بصیرت آن لائن لنک

https://www.baseeratonline.com/archives/210111

 

 

Wednesday, 3 January 2024

ज़बरदस्ती का इस्लाम अल्लाह को पसंद नहीं!

 -------------------------------------------------------------------

✍️डॉ. मो. वासे ज़फ़र


इस्लाम के संदर्भ में अक्सर यह भ्रांति फैलाई जाती रही है कि यह धर्म तलवार के ज़ोर पर फैला है और लोग ज़बरदस्ती इस्लाम क़ुबूल करने पर मजबूर किए गए हैं हालांकि धर्म और आस्था का संबंध दिल से है और किसी को मजबूर कर के उसके दिल में बैठी आस्था को नहीं बदला जा सकता है। मजबूर करने का नतीजा (परिणाम) यही हो सकता है कि एक व्यक्ति लोगों को दिखाने के वास्ते या किसी अपेक्षित ज़ुल्म या ख़तरे से बचने के लिए तात्कालिक तौर पर खु़द को किसी धर्म का ज़ाहिर तो करे लेकिन उसके दिल में आस्था वही हो जो पहले से स्थापित है। इस दिखावटी धर्म परिवर्तन का कोई मतलब नहीं क्योंकि धर्म ज़ाहिरदारी (दिखावे) से ज़्यादा बंदे और उसके परवरदिगार के बीच के संबंध का नाम है और एक व्यक्ति ऐसा कर के लोगों को तो धोका दे सकता है लेकिन अपने सर्वज्ञानी पालनहार को कभी धोका नहीं दे सकता ! उस से कोई भी चीज़ छुपी हुई नहीं है। 

यही कारण है कि इस्लाम धर्म में इस तरह की हरकत को बिल्कुल भी पसंद नहीं किया गया है। जो व्यक्ति लोगों को दिखाने के लिए या किसी सांसारिक लाभ के लिए इस्लाम में अपनी आस्था जताए और उसके दिल में ईश्वर-अल्लाह का इंकार हो या शिर्क (बहुदेववाद) हो, उसे क़ुरआन में "मुनाफिक़" (Hypocrite) कहा गया है जिसकी सज़ा आख़िरत (परलोक) में जहन्नम बताई गई है जबकि सच्चे ईमान और इस्लाम पर जन्नत की ज़मानत (गारंटी) दी गई है। तो ऐसे दिखावटी इस्लाम का क्या फ़ायदा जो इंसान को आख़िरत में कामयाबी नहीं दिला सके जो अस्ल में मक़्सूद (उद्दिष्ट) है। इसलिए अल्लाह कभी नहीं चाहेगा कि लोग ज़बरदस्ती इस्लाम क़ुबूल करने पर मजबूर किए जाएं और अन्ततः मुनाफिक़ बन जाएं, ही क़ुरआन में ऐसा कोई आदेश दिया गया है l

क़ुरआन में अल्लाह रब्बुल इज़्ज़त का संदेश है: 

تِلۡکَ اٰیٰتُ  الۡکِتٰبِ  الۡمُبِیۡنِ ﴿۲﴾ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾ اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ  اٰیَۃً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُہُمۡ  لَہَا خٰضِعِیۡنَ ﴿۴﴾ وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ مُحۡدَثٍ  اِلَّا  کَانُوۡا عَنۡہُ  مُعۡرِضِیۡنَ  ﴿۵﴾ 

"ये खुली किताब की आयतें हैं। ( नबी !) शायद आप इस ग़म में अपनी जान खोदेंगे कि ये लोग ईमान नहीं लाते। हम चाहें तो आसमान से ऐसी निशानी उतार सकते हैं कि इनकी गर्दनें उसके आगे झुक जाएँ। (लेकिन) इन लोगों के पास रहमान (मेहरबान ख़ुदा) की तरफ़ से जो भी नई नसीहत आती है ये उस से मुँह मोड़ लेते हैं।" [पवित्र क़ुरआन, सूरह शोअरा 26: 2-5]

पैग़म्बर मुहम्मद ... को इंसानियत से जो हमदर्दी और उनकी हिदायत (सत्य मार्ग की पहचान कराने) की जो फ़िक्र (चिंता) और दिली तड़प थी उसका इज़हार (बयान) अल्लाह रब्बुल इज़्ज़त ने इन आयतों (Verses) में किया है और उन्हें एक तरह की तसल्ली दी है कि आप तो अपना काम बहुस्न ख़ूबी (अच्छी तरह) अंजाम दे ही रहे हैं, अब अगर वह लोग ईमान नहीं लाते तो इस के ग़म में और उनकी हिदायत की हद से ज़्यादा फ़िक्र में क्या आप अपनी जान को हलाकत में डाल देंगे? साथ ही अल्लाह रब्बुल इज़्ज़त ने एक और बात कही जो बहुत ही अहम (महत्वपूर्ण) है, वह यह कि अगर हम चाहते तो आसमान से एक ऐसी निशानी उतार देते जिस के सामने गर्दनें झुकाने के अलावा उनके पास कोई चारा होता अर्थात वे ईमान लाने पर मजबूर हो जाते लेकिन इस तरह उसमें एक तरह से जब्र (ज़बरदस्ती मजबूरी या Compulsion) का पहलू शामिल हो जाता जबकि अल्लाह ने इंसान को इरादे और इख़्तियार की आज़ादी (Free Will) दी है ताकि उसकी आज़माइश की जाए, इसी लिए ऐसी निशानी भी नहीं उतारी जिस से उसका यह क़ानून प्रभावित हो और केवल अंबिया और रसूलों (Prophets) को भेजने और किताबें नाज़िल करने तक ही मामला सीमित रखा एवं मानने मानने की ज़िम्मेदारी लोगों पर छोड़ दी। 

इसी तरह की बात सूरह शूरा के आयत संख्या 8 में भी कही गई है: 

وَ لَوۡ شَآءَ  اللّٰہُ  لَجَعَلَہُمۡ  اُمَّۃً  وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ  یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ  فِیۡ  رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا  نَصِیۡرٍ ﴿۸﴾

"और अगर अल्लाह चाहता तो उन सब को एक ही जमाअ़त (अर्थात मुसलमान) बना देता, लेकिन वह जिसको चाहता है अपनी रहमत में दाख़िल करता है, और जो ज़ालिम लोग हैं उनका कोई रखवाला है, कोई मददगार।" [पवित्र क़ुरआन, सूरह अल-शूरा 42: 8]

यहां यह बात कही गई है कि अगर अल्लाह चाहता तो सारे इंसानों को एक जमा'अत (गिरोह या समुदाय) अर्थात मुसलमान बना देता, क्योंकि यह उस की क़ुदरत से बाहर नहीं था लेकिन यह एक तरह की ज़बरदस्ती होती हालांकि इंसान को पैदा करने का उद्देश्य ही यह था कि लोग ज़बरदस्ती नहीं बल्कि ख़ुद अपने इख़्तियार से सोच समझ कर हक़ (सत्य) को क़ुबूल करें, इसी में उनका इम्तिहान (परीक्षा) है जिस पर आख़िरत (परलोक) में जज़ा (अच्छे काम का बदला या इन'आम) एवं सज़ा मिलने वाली है, इसी लिए अल्लाह ने किसी को ज़बरदस्ती मुसलमान बनाना नहीं चाहा।

इस से साबित हुआ कि अल्लाह को वह ईमान और इस्लाम पसंद है जो इंसान स्वेच्छा से अर्थात अपनी ख़ुशी से क़ुबूल करे, ज़बरदस्ती और मजबूरी वाला ईमान और इस्लाम अल्लाह को पसंद नहीं। अगर वह इसको पसंद करता तो ख़ुद ऐसी निशानी आसमान से उतार देता जिससे लोग ईमान लाने पर मजबूर हो जाते। जब उसने यह पसंद नहीं किया तो वह मुसलमानों से यह कैसे अपेक्षा रख सकता है या इसको पसंद कर सकता है कि वे दूसरों को ईमान लाने पर मजबूर करें? ऐसे में उनकी आज़माइश का क्या होगा जो अस्ल में मक़्सूद (अपेक्षित) है? 

इसी लिए दूसरी जगह क़ुरआन ने यह स्पष्ट संदेश दिया है: 

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ  لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۵۶﴾

"दीन (धर्म) के मामले में कोई ज़बरदस्ती नहीं है। हिदायत का रास्ता गुमराही से मुमताज़ (अलग) होकर वाज़ेह (स्पष्ट) हो चुका। उसके बाद जो शख़्स ताग़ूत (शैतान) का इन्कार करके अल्लाह पर ईमान ले आयेगा, उसने एक मज़बूत कुन्डा थाम लिया, जिसके टूटने की कोई संभावना नहीं। और अल्लाह ख़ूब सुनने वाला, सब कुछ जानने वाला है।" [पवित्र क़ुरआन, सूरह अल-बक़रह: 256]

 इसी प्रकार का संदेश सूरह यूनुस में दिया गया है; 

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۹﴾

"और अगर अल्लाह चाहता तो रू--ज़मीन (धरती) पर बसने वाले सब के सब ईमान ले आते। तो क्या तुम लोगों पर ज़बरदस्ती करोगे ताकि वे सब मोमिन (ईमान वाला) बन जायें?" [पवित्र क़ुरआन, सूरह यूनुस 10: 99] 

इस लिए ज़बरदस्ती मुसलमान बनाने की theory जो फैलाई जाती रही है सरासर गलत और झूठ पर आधारित है। क़ुरआन में ऐसा कोई आदेश दिया गया है और ही पैग़म्बर मुहम्मद सल्लल्लाहु 'अलैहि वसल्लम या उनके साथियों ने ऐसा किया है। पैग़म्बर मुहम्मद .. . ने जो जंगे लड़ीं वह लोगों को इस्लाम धर्म ज़बरदस्ती क़ुबूल करवाने के लिए नहीं बल्कि उनकी दावत, उनके मिशन के रास्ते में लोग जो बाधाएं डाल रहे थे, उन्हें समाप्त करने के लिए लड़ी हैं, इसी लिए जहां भी उनकी या उनके ख़लीफ़ाओं की जीत हुई और इस्लामी हुकूमत स्थापित हुई वहाँ किसी को इस्लाम क़ुबूल करने पर मजबूर नहीं किया गया बल्कि जो अपने धर्म पर रहना चाहे उन्हें उन पर रहने दिया गया और उनकी सुरक्षा एवं मानवाधिकारों की रक्षा की ज़िम्मेदारी इस्लामी स्टेट पर रही। 

यहां यह भी स्पष्ट कर दूं कि सूरह अल-शूरा की आयत संख्या 8 में जो फ़रमाया गया है कि अल्लाह जिसको चाहता है अपनी रहमत में दाख़िल करता है, यहां रहमत से तात्पर्य हिदायत और इस्लाम है, और क़ुरआन की दूसरी आयतों में यह बताया गया है कि अल्लाह हिदायत (सत्य मार्ग की पहचान) उसी को देता है जिसको उसे प्राप्त करने की तड़प हो, जो लोग सत्य मार्ग को पहचानने के बावजूद उसकी मुख़ालिफ़त (विरोध) करते हैं अल्लाह उन्हें हिदायत कभी नहीं देता!

*******