Thursday, 25 April 2024

کامیابی کے لئے اللّٰہ کی قدرت اور اس کی سنت، دونوں کا سمجھنا ضروری

 -----------------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر



[Kaamyaabi Ke Liye Allah Ki Qudrat Aur Uski Sunnat Donon Ka Samajhna Zaroori, Siyasi Taqdeer, New Delhi, Vol. 12, Issue No. 326, Thursday, 25 April 2024, P. 05.]


[Kaamyaabi Ke Liye Allah Ki Qudrat Aur Uski Sunnat Donon Ka Samajhna Zaroori, Aawami News, Kolkata, Vol. 11, Issue No. 112, Thursday, 25 April 2024, P. 07.]


[Kaamyaabi Ke Liye Allah Ki Qudrat Aur Uski Sunnat Donon Ka Samajhna Zaroori, Pindar, Patna, Vol. 51, Issue No. 112, Thursday, 25 April 2024, P. 07.]


[Kaamyaabi Ke Liye Allah Ki Qudrat Aur Uski Sunnat Donon Ka Samajhna Zaroori, The Daily Lazawal, Jammu, Vol. 39, Issue No. 110, Thursday, 25 April 2024, P. 07.]

https://siyasimanzar.com/it-is-important-to-understand-both-the-power-of-allah-and-his-sunnah-for-success/

کامیابی کے لئے اللّٰہ کی قدرت اور اس کی سنت، دونوں کا سمجھنا ضروری!


از : ڈاکٹر محمد واسع ظفر 


بحیثیتِ مسلمان ہمارا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا، اس کو قائم رکھنے والا، اس کے تکوینی نظام کو چلانے والا، اور اس کو منطقی انجام تک پہنچانے والا صرف اور صرف اللّٰہ رب العزت ہے۔ یہاں صرف اسی ایک کا حکم چلتا ہے، کسی دوسرے کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ اس کے نظام میں کوئی مداخلت کرسکے۔ قرآن کریم کا اعلان ہے:  "اَلَا لَہُ  الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ" یعنی آگاہ ہوجاؤ کہ تخلیق دینا اور احکام جاری کرنا اسی کے لئے مخصوص ہے۔ (الاعراف: 54)۔ اس دنیا میں جہاں کہیں بھی اور جو بھی صاحب اختیار نظر آتا ہے خواہ اس کا دائرہ اختیار چھوٹا ہو یا بڑا، وہ اس رب کائنات کے اذن اور مرضی سے ہی موجود ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جو بھی فیصلے لیتا ہے وہ صحیح اور خدائی فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ انسان کو چونکہ اس نے بطور آزمائش ارادے اور اختیار کی آزادی دی ہے، اس لئے وہ اپنے اختیارات کا کبھی صحیح اور کبھی غلط استعمال کرتا ہے اور اسی کے مطابق دنیوی یا اخروی نتائج کا ذمےدار گردانا جاتا ہے۔ 

اگر ہم غور کریں تو اس کائنات میں جو کچھ بھی تخلیقی (constructive) یا تخریبی (destructive) عمل رونما ہوتا ہے یا جو بھی تغیرات و حادثات سامنے آتے ہیں ان سب کے پیچھے اللّٰہ رب العزت کی دو عظیم الشان صفات کا دخل ہوتا ہے؛ ایک اللّٰہ کی سنت ہے اور دوسرے اس کی قدرت۔ اللّٰہ کی سنت یہ ہے کہ اس نے اس کائنات میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے وجود میں آنے کے لئے ایک ضابطہ قائم کیا ہوا ہے، اس مخصوص ضابطہ کے تحت ہی کوئی مخصوص چیز وجود میں آتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسے ہم سائنس کی زبان میں قانون قدرت (Natural Law) کہہ سکتے ہیں۔ سائنسدان دراصل یہی کرتے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے کے پیچھے جو عوامل کار فرما ہوتے ہیں، وہ ان کا پتا لگاتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ عوامل ایک دوسرے سے کن حالات (conditions) میں اور کس طرز عمل (process) کے ذریعے مل کر ایک مخصوص نتیجہ فراہم کررہے ہیں۔ یکساں حالات میں کسی عمل کے متعدد مشاہدوں میں اگر نتائج یکساں رہتے ہیں تو اسی کو سائنس دان Natural Law کہتے ہیں۔ جب کوئی ایسی چیز رونما ہوتی ہے یا کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے جس کی وضاحت سائنس نہیں کر پاتی تو اسے accident of nature کہہ کر سائنسدان اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

 یہاں اسلامی عقیدہ یہ کہتا ہے کہ اسباب جس طرح اپنے وجود میں آنے کے لئے اللّٰہ کے حکم کے محتاج ہیں،  اسی طرح نتائج دینے میں بھی اللّٰہ ہی کے حکم کے محتاج ہیں لیکن اللّٰہ تعالیٰ کچھ بھی کرنے میں کسی سبب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا اسباب سے بالاتر ہونا ہی اس کی قدرت ہے یعنی وہ جب چاہے اور جو چاہے اسباب کے بغیر کرنے پر بھی قادر ہے۔ مثال کے طور پر عورت اور مرد کے ملاپ سے افزائش نسل کا عمل وجود میں آتا ہے، یہ اس کی قائم کردہ سنت ہے لیکن اس کی قدرت یہ ہے کہ اس نے آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے وجود عطا کیا، دادی حوا کو آدم علیہ السلام کی پسلیوں سے یعنی صرف مرد سے وجود بخشا اور عیسیٰ علیہ السلام کو صرف ماں مریم سے پیدا کردیا۔ یہ سارے واقعات اللّٰہ کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ لیکن اس نے رہتی دنیا تک کے لئے یہی سنت جاری کی ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی نسل آگے چلے تو اسے جنس مخالف سے شادی کرنا پڑے گی اور حق زوجیت بھی ادا کرنا پڑے گا، پھر اللّٰہ اگر چاہے گا یا یوں کہیے کہ اس کے حق میں مناسب سمجھے گا تو اسے اولاد سے نوازے گا۔ اسباب لازمہ کو اختیار کرنے کے باوجود اگر اللّہ نہ چاہے تو مطلوبہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تُمۡنُوۡنَ ﴿ؕ۵۸﴾ ءَاَنۡتُمۡ  تَخۡلُقُوۡنَہٗۤ  اَمۡ  نَحۡنُ  الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿۵۹﴾ ذرا یہ بتلاؤ کہ جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو ، کیا اسے تم  پیدا  کرتے ہو یا  پیدا  کرنے والے ہم ہیں؟ (الواقعہ: 58-59)۔ 

اس کے برعکس اگر کوئی مرد یا عورت افزائش نسل کا خواہشمند ہو لیکن وہ قانون الٰہی کی تابعداری نہ کرے یعنی اسباب لازمہ کو اختیار نہ کرے اور کسی مسجد میں حتیٰ کہ مسجد حرام میں معتکف ہوکر پورے خشوع وخضوع سے اللّٰہ سے اولاد کی دعا کرے تو اس کی آرزو کا پورا ہونا محال ہے گو کہ یہ اللّٰہ کی قدرت سے باہر نہیں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا لیکن اللّٰہ تعالیٰ اپنی قدرت کا خاص مظاہرہ ہر کسی کی خواہش اور مطالبہ پر نہیں کرتا اور نہ ہی یہ اس کا معمول ہے۔ اس کا معمول تو وہی قانون قدرت ہے جسے احقر "سنت اللّٰہ" کہہ رہا ہے۔ اس لئے اس انسان کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اسے قانون قدرت کی سمجھ نہیں۔

اس بات کو اب دوسری مثال سے سمجھیے۔ اگر کسی شخص کو آم کی پیداوار چاہیے تو سنت الٰہی کیا ہے کہ وہ آم کا پودا لگائے، اسے سینچے اور اس کی حفاطت کرے، پھر اللّٰہ سے اس میں پھل آنے کی دعا کرے، تب جاکر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اسے آم کی فصل نصیب ہو۔ اب اگر ایک شخص نے امرود کے باغ لگادئے اور اس کی سینچائی و حفاظت بھی خوب کی اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ پڑھ کر پورے خلوص سے اس باغ میں آم کی پیداوار ہونے کی اللّٰہ سے دعائیں کررہا ہے تو کیا امرود کے پیڑوں میں آم کا پھل نکل آئے گا، نہیں بالکل نہیں! ایک بار پھر میں یہ دہراؤں گا کہ یہ اللّٰہ کی قدرت میں ہے کہ امرود کے درختوں میں آم کا پھل لے آئے لیکن یہ اس کی جاری سنت نہیں ہے۔ سنت الٰہی یا ضابطہ خداوندی یہی ہے کہ آم کے پیڑوں میں آم اور امرود کے پیڑوں میں امرود ہی پھلتا ہے، و علی ھذا القیاس۔ 

اب ایک تیسری مثال لیجئے۔ ایک شخص کو پٹنہ سے دہلی جانا ہو تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ وہ شخص دہلی کی کسی ٹرین، بس یا ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے اور اس کے مطابق ہی سواری پر سوار ہو، پھر اللّٰہ سے دعا کرے کہ عافیت کے ساتھ اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچادے، تو امید ہے کہ وہ دہلی پہنچ جائے۔ ایک شخص نے دہلی کی کسی ٹرین کا ٹکٹ لیا لیکن وہ کولکاتہ کی کسی ٹرین میں بیٹھ گیا، اب وہ جتنا بھی گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرلے کہ اللّٰہ اسے دہلی پہنچا دے، ہر لمحہ اپنی منزل مقصود سے وہ دور ہی ہوتا جائے گا کیوں کہ اس نے سبب غلط اختیار کر لیا ہے۔ اب کوئی کرشمہ ہی اسے دہلی پہنچا سکتا ہے جس کا ظہور روز روز نہیں ہوا کرتا۔ 

ان مثالوں سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے، اللّٰہ رب العزت نے یہاں ہر چیز کو کسی نہ کسی سبب سے جوڑا ہے اور اس کے تمام امور میں اپنی ایک سنت جاری کی ہوئی ہے جس کو سجھنا اور اس کی تابعداری کرنا، پھر اللّٰہ سے دعا کرنا مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ اللّٰہ کی جاری کردہ سنت کو اختیار کیا جائے اور اس کی قدرت پر ایمان رکھا جائے۔ نیز اسباب کو صرف ضابطہ الہیٰ سمجھ کر اختیار کیا جائے لیکن ان پر بھروسہ نہ کیا جائے، بھروسہ صرف اور صرف اللّٰہ کی ذات پر ہو کیوں کہ اسباب نتائج دینے میں اسی کے حکم کے محتاج ہیں۔ پھر جب اسباب اپنے قدرت میں نہ ہوں تو اللّٰہ سے یوں دعا کیا جائے کہ یا اللّٰہ ! تو مسبب الاسباب ہے، یا تو میرے مطلوبہ کام کے لئے کوئی سبب پیدا کردے یا تو بغیر سبب کے ہی میرا کام بنا دے کیونکہ تو سبب کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی سبب ضرور کھڑا کردے گا یا پھر بغیر سبب کے ہی وہ کام بنادے گا اگر وہ کام اس کی مصلحت کے خلاف نہ ہو۔

 ان باتوں کی صحیح سمجھ نہیں ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اس معاملے میں بے اعتدالی کا شکار ہوتے ہیں، کچھہ تو اسباب کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ اللّٰہ اور اس کے احکام سے دوری کی شکل میں سامنے آتا ہے اور کچھ لوگ اسباب کا سرے سے ہی انکار کردیتے ہیں اور یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اللّٰہ کی مرضی ہوگی تو یہ کام خود بخود ہوجائے گا۔ یہ سوچ انسان کو ناکارگی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور ہر معاملے میں کرشمہ خداوندی کے منتظر رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللّٰہ تعالی اگر کسی چیز کا ارادہ کرلے تو اسے پورا کرنے کے لئے اسے کسی سبب کی محتاجی نہیں، وہ لفظ "کن" سے ہر کچھ کرنے پر قادر ہے لیکن نظام کائنات کو چلانے میں یہ اس کا عام ضابطہ نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اسباب جب کہ وہ اپنے دسترس میں ہوں، کا اختیار کرنا ضابطہ الہی کے دائرے میں ہے اور اسے اختیار کرنے کے بعد ہی اللہ پر توکل اور اس سے کامیابی کی دعا کا مرحلہ آتا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کیا: "يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ:‏‏‏‏ اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ" یعنی اے اللہ کے رسول! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا کھلا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ”اسے باندھ دو، پھر توکل کرو“۔ (سنن ترمذیؒ، رقم الحدیث 2517، بروایت انس بن مالکؓ)۔ 

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اونٹ کے فرار ہونے سے بچنے کا سبب اختیار کرو پھر اللّٰہ پر توکل کرو۔  اسباب لازمہ کا اختیار کرنا اگر توکل کے خلاف ہوتا تو اللہ رب العزت اپنے نبیؐ اور مسلمانوں کو سامان حرب اکٹھا کرنے اور دشمنوں سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنے کا حکم نہیں دیتا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ): "اور (مسلمانو !) جس قدر  طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں، ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن  کے ذریعے تم اللہ کے  دشمن  اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کے راستے میں تم جو کچھ  خرچ  کرو گے، وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا، اور تمہارے لیے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔" (سورۃ الانفال: 60). 

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے حکم خداوندی کے مطابق مذکورہ وسائل کی تیاری بھی کی۔ نیز غزوہ حنین کے موقع پر آپؐ نے صفوان بن امیہ سے سو زرہیں مع آلات و اوزار مستعار لئے جب کہ مکہ فتح ہو چکا تھا اور مقابلہ قبیلہ ہوازن سے ہونے والا تھا۔ یہ جنگ کی تیاری میں اسباب لازمہ کو اختیار کرنے کی آپؐ کی سمجھ بوجھ اور سنت کو ظاہر کرتا ہے۔ جنگ کے علاوہ بھی زندگی کے دوسرے امور میں آپؐ کا اسباب لازمہ کو اختیار کرنا صحیح بلکہ متواتر روایات سے ثابت ہے۔ اب ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ضابطہ خداوندی کو اختیار کئے بغیر یعنی اپنے حصے کا کام کئے بغیر لمبی چوڑی دعائیں کرتے ہیں اور اللّٰہ کی غیبی مدد کے متوقع رہتے ہیں۔ ہمارے ائمہ اور خطباء کا بھی یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ اللّٰہ ساری دنیا میں ہدایت کی ہوا چلادے لیکن ہدایت کے عمومی نزول کے لئے جو اسباب ہیں انہیں ہم اختیار نہیں کرتے۔ اگر ہدایت کا نزول صرف دعا سے ممکن ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں بیٹھ کر لوگوں کی عمومی ہدایت کے لئے دعا کردیتے اور اللّٰہ سب کو ہدایت دے دیتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیوں کہ دعوت کی بے لوث اور انتھک محنت، حکمت عملی، مخالفتوں کا سامنا، مصائب پر صبر اور جان و مال کی قربانی ہدایت کے نزول عام ہونے کے اسباب ہیں جن سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو گزارا گیا، پھر آپؐ نے اور آپؐ کے ساتھیوں نے طاغوتی طاقتوں سے مقابلہ آرائیاں بھی کیں اور دعائیں بھی کیں، تب جاکر ہدایت عام ہوئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔ ہم لوگ گھر بیٹھے صرف دعاؤں سے ہی ہدایت کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہم بعض مرتبہ زمین پر بسنے والے ایک ایک انسان کی ہدایت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جو اس کائنات میں اللہ کی منصوبہ بندی ہی کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ" (ترجمہ): "اور ہم نے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے لوگ جہنم کے لیے ہی  پیدا  کیے۔ ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ وہ ان سے بھی  زیادہ  بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔" (الاعراف: 179)۔ اب ایسے لوگوں کو آپ دعوت تو دے سکتے ہیں لیکن ہدایت کہاں سے دلوادیں گے۔ اسی طرح فرمایا: " لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ  وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ" "اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو (پہلے ہی) اس کی  ہدایت  دے دیتے، لیکن وہ بات جو میری طرف سے کہی گئی تھی، متحقق ہوچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات اور انسانوں سب سے ضرور بھر دوں گا ۔ (السجدۃ: 13)- پتا یہ چلا کہ ہماری بعض دعائیں بالکل خیالی نوعیت (Utopian Nature) کی ہوتی ہیں، بعض سنت اللّٰہ یا ضابطہ خداوندی کے خلاف تو بعض کائنات میں اس کی منصوبہ بندی ہی کے خلاف۔

اسی طرح ہم دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ اے اللّٰہ ہمیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ عطا فرما جب کہ قوموں کے عروج و زوال اور غلبہ کے سلسلے میں بھی اللہ کا ایک ضابطہ ہے جو دعا کے وقت ہمارے ذہنوں میں بھی نہیں ہوتا چہ جائیکہ کچھ عمل میں ہو۔ قرآن کریم میں بعض مقامات پر اس کی بھی نشاندہی کردی گئی ہے کہ کن صفات کی حامل قوموں کو وہ عروج اور غلبہ عطا کرتا ہے اور کیسی قوموں کو وہ ذلیل و خوار کرتا ہے۔ آپ بنی اسرائیل اور قوم عمالقہ کا واقعہ پڑھ لیجئے یا طالوت اور جالوت کے ٹکراؤ کا، بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ کاہل اور بزدل قوموں کو کبھی غلبہ عطا نہیں کیا کرتا، ان کے حصے میں ذلت و رسوائی ہی آتی ہے۔ اور اللّٰہ رب العزت نے قرآن کریم میں یہ بھی اعلان فرما دیا ہے کہ قوموں کے حشر کے سلسلے میں اس کی سنت نہ تو بدلتی ہے اور نہ ہی یک لخت اٹھ جاتی ہے۔ "فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ  لِسُنَّتِ  اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا " (ترجمہ): " تو تم اللہ کے طے شدہ دستور میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے، اور نہ تم اللہ کے طے شدہ دستور کو کبھی ٹلتا  ہوا  پاؤ گے ۔" (فاطر: 43)۔ 

اسی لئے کئی اکابر علماء کرام نے قوموں کے عروج و زوال کے دستور کو سمجھنے کی خصوصی کوشش کی اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ملت کو اس سے آگاہ بھی کیا ۔ مثال کے طور پر ابو محمد علی بن احمد بن حزم الاندلسیؒ کی تصنیف "الملل والنحل" (اردو ترجمہ: "قوموں کا عروج و زوال" از مولانا عبداللہ عمادی)، مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تصنیف "قرآن کا قانون عروج و زوال"، علامہ شکیب ارسلان کی کتاب "اسباب زوال امت" پروفیسر حبیب اللہ چشتی کی "امت مسلمہ کا عروج و زوال: اسباب، وجوہات اور تدارک" اور ڈاکٹر محمد امین کی کتاب"مغرب کا عروج اور متوقع زوال" دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے تو پڑھنا لکھنا بھی چھوڑ دیا الا ماشاءاللہ، تحقیق تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم صرف لمبی چوڑی دعائیں کرنا جانتے ہیں اور ضابطہ خداوندی کی تابعداری بالکل نہیں کرتے۔ ایسے میں نتیجے صفر رہنا ہوتا ہے اور صفر ہی رہتا ہے، البتہ ہم لوگ دعا کرکے خود کو تسلی ضرور دے لیتے ہیں کہ ہم بھی کچھ کررہے ہیں حالانکہ ہم کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے۔ اگر آپ پوری ملت کے عملی رویہ کا جائزہ لیں تو یہی صورتحال ملے گی سوائے معدودے چند کے جو واقعی کچھ کررہے ہوتے ہیں۔ اسی لئے ملت دن بہ دن پستیوں میں گرتی جارہی ہے اور اس کا مرض لاعلاج بنتا جارہا ہے۔ 

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام امور میں ہم ضابط خداوندی یا سنت اللّٰہ کو پہچانییں، خود کو اس کا تابعدار بنائیں اور اپنے دائرہ اختیار میں اسباب لازمہ پر زبردست محنت و مشقت کریں، پھر اللّٰہ سے بہترین نتائج کی دعائیں کریں تب ہی ہمیں ہر شعبے میں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔ اسی طرح قوموں کے عروج اور غلبہ کے سلسلے میں جو ضابطہ خداوندی ہے اسے سمجھنے اور پورا کرنے کی کوشش کریں پھر اللّٰہ سے اس کے لئے دعا کریں، تو امید ہے کہ ہمارے حالات بدل جائیں اور ہمیں قوموں کی امامت کا شرف پھر سے حاصل ہوجائے۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ احقر کی اس فکر کو عام کردے اور سارے مسلمانوں کو اس پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment