Friday, 17 October 2025

𝐊𝐞𝐲𝐚 𝐒𝐡𝐚𝐝𝐢 𝐒𝐚𝐝𝐠𝐢 𝐒𝐞 𝐍𝐚𝐡𝐢 𝐇𝐨 𝐒𝐚𝐤𝐭𝐢

------------------------------------------

کیا شادی سادگی سے نہیں ہو سکتی ؟

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

            یوں تو احقر اپنے سن شعور سے ہی شادیوں میں دولت کی نمائش، بے جا اخراجات، تلک و جہیز کے مطالبات اور بارات کی رسم کا شدید مخالف رہا ہے لیکن وہ واقعہ جو اس تحریر کا سبب بنا سنہ۲۰۱۱ء کا ہے۔ بندہ حسب معمول جامع مسجد، فقیر باڑہ، پٹنہ جو شعبۂ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی کے قریب ہی واقع ہے، میں ظہر کی نمازادا کرنے گیا تھا۔ جیسے ہی فرض نماز ختم ہوئی ادھیڑ عمر کے ایک صاحب جو اپنی ظاہری ہیئت سے ہی بڑے مفلوک الحال نظر آرہے تھے،  وسط مسجد میں دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور نہایت ہی الحاح و زاری کے ساتھ چاروں طرف کے مصلّیان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بچی کی شادی میں مالی امداد کی درخواست کی۔ لڑکی کی شادی کے لیے امداد کی درخواست کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو میرے سامنے پیش آیا، آئے دن مسجدوں میں اس طرح کی درخواست کبھی کسی مفلوک الحال باپ کی طرف سے تو کبھی کسی غریب اور یتیم بھائی کی طرف سے سننے کو ملتی ہے لیکن اس دن درخواست کنندہ کی حالت اور ان کی درخواست کے انداز نے اس ناچیز کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔  مجھے نہیں معلوم کہ اور لوگوں کے دلوں پر کیا گزری لیکن میں یہی سوچتا رہا کہ ان نبیؐ کا امتی جنھوں نے لڑکیوں کو رحمت اور اس نکاح کو جس میں کم سے کم اخراجات کئے گئے ہوں، برکت والا نکاح بتایا، مسلم معاشرے کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے آج اپنی بیٹی کی خاطر بھرے مجمع میں کیسے ذلیل ہو رہا ہے؟ اس واقعہ کو ۱۴؍ سال گزر گئے لیکن وہ منظر آج بھی میری یاددں کے نہاں خانے میں محفوظ ہے جسے کسی بیٹی کا مفلس باپ یا بھائی اپنی اسی قسم کی درخواست سے اکثر تازہ کرجاتا ہے۔ اصلاح معاشرے کی تمام تر کوششوں جلسے جلوس، تحریر و تقریر کے باوجود حالات لگ بھگ جوں کا توں ہیں۔ آئے دن ہم کسی مسلم بیٹی کے نادار باپ یا بھائی کو لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوتے دیکھتے ہیں لیکن ہائے افسوس کہ اس کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں اور ہمارا ضمیر بیدار نہیں ہوتا!

            جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو کتنا آسان بنایا تھا لیکن غیروں سے متاثر ہوکرہم نے اپنے معاشرے میں ایسے رسومات داخل کرلیے جن کی وجہ سے نکاح مشکل ہو گیا۔ کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں میں اپنے سہاگ کا سپنا سجائے بوڑھی ہو رہی ہیں، زنا جیسی برائی مسلم معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں سے اوباش لڑکوں یہاں تک کہ غیر قوموں کے لڑکوں کے ہمراہ فرار ہورہی ہیں اور مرتد ہورہی ہیں، کتنی جسم فروشی کے دھندھوں میں پھنس رہی ہیں، کتنے گھرانے مقروض ہورہے ہیں اور کتنے سود کی لعنت میں گرفتار ہوکر تباہ و برباد ہو رہے ہیں لیکن ہماری آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ کیا تعلیم یافتہ اور کیا جاہل، کیا عالم اور کیا غیر عالم، کیا امیر اور کیا غریب اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں۔ ہمیں تو اپنا بینک بیلنس بڑھانا ہے، اپنے مکان کی تعمیر بھی کرنی ہے، اور اسے عیش و عشرت کے سامانوں سے مزیّن بھی کرنا ہے اور اپنی زندگی کے اور بھی بہت سے شوق و ارمان پورے کرنے ہیں لیکن یہ سب دوسرے یعنی بیٹی والے کے پیسے کے بل بوتے پر کرنے ہیں۔ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ پیسے کہاں سے آرہے ہیں؛ کسی کے قرض لی گئی رقم سے، سود کی رقم سے، رشوت خوری سے یا کمائی کے دیگر حرام ذرائع سے یا پھر عوامی چندہ اور بھیک کی رقم سے۔ لالچ اور جھوٹی شان کے مظاہرے کی آرزونے ہماری عقلوں کو بالکل ماؤف کردیا ہے۔

            یوں تو مسلم گھرانے کی شادیوں میں اب سوائے خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کے کچھ بھی اسلامی نہیں رہا لیکن بندہ کی نظر میں ان سے متعلق تین برائیاں نہایت ہی سنگین نوعیت کی ہیں جنہوں نے معاشرے کو تباہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ تین ہیں؛ تلک یعنی لڑکی والوں سے شادی کے نام پر موٹی رقم کا مطالبہ، جہیز یعنی ضروریات زندگی سے متعلق تمام اشیاء بلکہ یہ کہا جائے کہ عیش و عشرت کی تمام اشیاء کا لڑکی والوں سے مطالبہ یا ان کی امید رکھنا اوربارات لے کر جانا اور لڑکی والوں سے ان کی اعلیٰ سے اعلیٰ ضیافت کی توقع رکھنا۔ اول الذکر دو چیزوں کے پیچھے لالچ کار فرما ہے اور آخر الذکر کے پیچھے جھوٹی شان کا مظاہرہ۔ ان تینوں مطالبات یا  توقعات کو پورا کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہے اور یہی سارے فتنوں کی جڑ ہے۔

            جہاں تک تلک کا تعلق ہے اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ شریعت نے نکاح کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کی تمام تر ذ مہ داری مردوں پرڈالی ہے اور اسی کو ازدواجی زندگی میں مردوں کی قوامیت اور برتری کی بنیاد قرار دیا ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر ۳۴؂ اس امر پر شاہد ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَّ بِمَآ أَنفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ﴾۔ (ترجمہ) : " مردنگراں ہیں عورتوں پر اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔" چنانچہ مہر کی ادائیگی کو مرد کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے لیکن ہمارے معاشرے نے اس کا تعلق بھی طلاق سے قائم کردیا حتیٰ کہ بہت سے نوجوان تو مہر کی ادائیگی کی نیت بھی نہیں رکھتے اور اس طرح بعض روایات کے مطابق تاعمر زنا کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو یہ روایت ملاحظہ کیجیے: "قَالَ النَّبِیُّ ﷺ: مَنْ نَکَحَ امْرَأَۃً وَھُوَ یُرِیْدُ أَنْ یَذْہَبَ بِمَھْرِہَا فَھُوَ عِنْدَاللّٰہِ زَانٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ" (ترجمہ): "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کی نیت یہ تھی کہ اس (عورت) کا مہر اپنے پاس رکھے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن زنا کرنے والا شمار ہوگا۔" (المصنف لابن أبي شیبۃؒ، حدیث نمبر۱۷۶۸۸، نیز دیکھیں مجمع الزوائد و منبع الفوائد للھیثمیؒ، حدیث نمبر ۶۶۵۴)۔ اسی طرح ولیمہ کے اخراجات اوردلہن کا نان و نفقہ سب مردوں کے ذمے ہے۔ لیکن افسوس ہم لڑکی والوں کو ان کا حق کیا دیتے الٹا ان سے ہی وصول کرلیتے ہیں اور فرمان خدواندی ﴿وَلَا تَاْکُلُوٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۔ البقرۃ: ۱۸۸﴾ (ترجمہ: "اور تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ") کے تحت حرام خوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور کچھ افراد تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ولیمہ بھی لڑکی والوں سے اینٹھی ہوئی رقم سے کرتے ہیں اور اس طرح اپنی حرام خوری میں اپنے تمام متعلقین کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔

            جہیز کے سلسلے میں بھی اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ حضرت فاطمہؓ کو دئے گئے چند سامان کو بنیاد بناکر لوگ جہیز کے لین دین کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ حضرت علیؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہی کفالت میں تھے اور ان کی خانگی ضروریات کی فکر کرنا آپؐ کے ہی ذمے تھا۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکمؒ، حدیث نمبر ۶۴۶۳)۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ انتظامات حضرت علیؓ کی رقم (۴۸۰؍ درم ) سے کئے جو انھوں نے اپنی زرہ بیچ کر مہر کے عوض میں آپؐ کے حوالہ کیا تھا ۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للھیثمیؒ، حدیث نمبر ۱۵۲۱۰، ۱۵۲۱۱)۔ اس لیے یہ کہنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا، قطعاً غلط ہے ۔ اگر جہیز دینا شریعت میں درست ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مساوات کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی دوسری بیٹیوں کو بھی جہیز دیتے لیکن ایسا کسی روایت سے ثابت نہیں اور نہ ہی کسی روایت سے کسی صحابی کا اپنی بیٹی کو جہیز دیناثابت ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کئی نکاح کئے جن میں سے دو بیویاں حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ آپ کے دو جانثار صحابہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی(علی الترتیب) بیٹیاں تھیں، جو اپنے مال و دولت کو رسول پاکؐ کے قدموں پر نچھاور کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے لیکن کسی کا بھی اپنی بیٹی کو جہیز دیناثابت نہیں۔ اس لیے حضرت فاطمہؓ کے واقعہ کو جہیز کے لین دین کے لیے دلیل بنانا قطعاً درست نہیں۔

            دلہن کی رخصتی کے لیے بارات لے کر جانا بھی ایک غیر اسلامی تصور ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ یہ دوسرے کی جیب کے بل پر اپنی شان دکھانے کے مترادف ہے۔ لوگ صرف اپنی شان دکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں باراتی لے کر جاتے ہیں اور لڑکی والوں سے ان کی بہترین ضیافت کی توقع رکھتے ہیں بلکہ بعض کم ظرف تو کھانے کا مینو تک بتاتے ہیں۔ لڑکی والے طوعاً و کرہاً ان کے پرتکلف قیام و طعام کا نظم کرتے ہیں جس میں اچھی خاصی رقم کا صرفہ ہوتا ہے جس کا بوجھ لڑکی کے اولیاء کی جیب پر ہی پڑتا ہے۔ بعض دفعہ باراتیوں کی تعداد کو لے کرفریقین کے مابین تنازعہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مسلمان کے مال کو اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنے کو ناجائز بتایاہے، اس لیے لڑکی کے اولیاء کے دل میں بارات کی آمد یا باراتیوں کی تعداد کے سلسلے میں اگر ذرا بھی تنگی ہوئی تو باراتیوں کا وہاں کھانا پینا بھی حرام ٹھہرے گا (کیوں کہ سارا نظم بجبر و اکراہ ہی ہوگا)۔ اس طرح نہ صرف لڑکے کے اولیاء بلکہ ان کے وہ تمام متعلقین جو بارات کی شکل میں وہاں گئے ہوں، حرام کھانے کے مرتکب ہوں گے اور اس کی ذمہ داری بھی لڑکے کے اولیاء کے اوپرعائد ہوگی۔

            لیکن ان تمام باتوں کو ہم سمجھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جواز کے لیے طرح طرح کی دلیلیں لاتے ہیں۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے تلک یا جہیز کا مطالبہ تھوڑا ہی کیا ہے، یہ تو لڑکی والوں نے اپنی مرضی سے دیا ہے؟  کوئی لڑکی والا اپنی مرضی سے جہیز نہیں دیتا، یا تو اس خوف سے دیتا ہے کہ کبھی آگے چل کر لڑکی کو اس کی وجہ سے اذیت نہ دے یا پھر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دیتا ہے کہ نہیں دے گا تو سماج میں اس کی ناک کٹ جائے گی خواہ اسے اپنی زمین و جائداد بیچنی یا گروی رکھنی پڑے، قرض لینا پڑے، سودخوری، رشوت خوری اور حرام خوری کے دیگر ذرائع استعمال کرنا پڑیں، یا پھر چندہ کرنے اور بھیک مانگنے کی نوبت آجائے۔ کچھ افراد ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کے یہاں ان میں سے کچھ بھی نہ ہونے کا دعویٰ ہولیکن شان بازی اور ریاکاری سے وہ بھی خالی نہیں ہوسکتے۔ آخر یہ جہیز کی نمائش شادی کے موقع پر ہی کیوں ہوتی ہے؟ اگر جذبہ صادق ہو تو ساری عمر اپنی بیٹیوں کے ساتھ عنایت کا معاملہ کیا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے شادی کے بعد نہ تو نمائش ہوسکے گی اور نہ ہی شان میں اضافہ؟ پھر جب وراثت کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو وہی حضرات اپنی بیٹیوں کا حق دینے میں دائیں بائیں کرنے لگتے ہیں۔

             بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہر شخص شادی میں اپنی وسعت کے موافق خرچ کرے یعنی امیر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب اپنی وسعت کے مطابق؟ تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کی سماج کا نچلا اور متوسط طبقہ تو ہمیشہ سے اعلیٰ طبقہ کی نقل کرتا آیا ہے۔ نیچے طبقہ والے ان مفاسد کو بھی جو اونچے طبقہ کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں، اعلیٰ میعار زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور نفسیاتی طور پر ان کے حصول کو ہی اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ اس اعلیٰ طبقہ کو قرآن نے مُتْرَفِیْن کے لفظ سے ذکر کیا ہے اور اس بات کی گواہی بھی دی ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے جس نے تاریخ کے ہر دور میں انسانوں کی گمراہی میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اس لیے ملت کے سربرآوردہ اور خوشحال لوگ جب تک شادی میں سادگی کو نہیں اپنائیں گے تلک ، جہیز اور بارات کی یہ قبیح رسمیں ہمارے معاشرے سے جانے والی نہیں ہیں۔

            کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کی شادی میں جہیز دیا ہے تو پھر ہم کیو ں نہیں لیں گے؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ قتل کسی اور نے کیا اور قصاص کسی اور سے لیا جائے۔ اپنے نقصان کی تلافی دوسروں سے کرنے کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہے تو قیامت تک یہ رسومات ختم نہیں ہوسکتے اور اس اصول کو اگر دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی نافذ کیا جائے تو ساری زمین فساد سے بھر جائے گی۔ بارات کے سلسلے میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ لڑکی والوں نے بارات لانے کی فرمائش کی اس لیے ہم بارات لے جارہے ہیں۔ بلا شبہہ بعض لڑکی والے ایسا کرتے بھی ہیں لیکن ان کا مقصد بھی اپنی شان کا مظاہرہ ہی ہوتا ہے۔ ان جیسے لوگوں کو اگر دوسرے مواقع پر فی سبیل اللہ کچھ خرچ کرنے کو کہا جائے تو معاملہ چند سینکڑے یا ہزار سے آگے نہیں جاتا۔ اور بالفرض اگر مذکورہ تمام مفاسد نہ بھی ہوں، مثلاًلڑکی والے پوری خوش دلی اور نیک نیتی سے جہیز دیں اورباراتیوں کی ضیافت بھی کریں وغیرہ، جب بھی مسلم معاشرے پر اس کے جو اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ ہی ان امور کو لعنت کا مستحق ٹھہرانے کے لیے کافی ہیں۔

            اس لیے قوم و ملت کے اے غیرت مند نوجوانوں!  ذرا ترس کھاؤ اپنی ان نادار بہنوں پر جو نکاح کا سپنا سجائے بوڑھی ہو رہی ہیں اور آنکھیں کھول کر عبرت کی نگاہ سے شادی کے مروجہ رسوم کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کو دیکھو کہ شاید اللہ پاک دل میں اس دیوانے کی یہ باتیں اتار دے۔ شادی سادگی سے بھی ہوسکتی ہے۔ اُس موقع پر کی جانے والی دولت کی نمائش اور بے جا اخراجات کی مثال چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کے مانند ہے جسے کوئی صاحب عقل پسند نہیں کرتا۔ نیز تلک و جہیز کے نام پر ناجائز طریقے سے آیا ہوا مال اپنے ساتھ بے برکتی لاتا ہے اور دیرپا نہیں ہوتا۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو نکاح سنت طریقے پر مسجد میں کرو، دلہن کی رخصتی سادگی کے ساتھ کراؤ اور اپنے ولیمہ میں غریبوں کا بھی خیال رکھو۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید میں تمھاری یہ بہت ہی بڑی خدمت ہوگی۔ علامہ اقبال کے اس شعر کو اپنے فلسفہ زندگی کی بنیاد بناؤ :

؂                                مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

                    خودی نہ بیچ غریبی میں نام  پیدا کر

 اللہ پاک ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے۔ آمین!

٭٭٭٭٭



[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Roznama Tasdeeque, Patna, Vol. 16, Issue No. 275, Thursday, 16ٌ ْْOctober 2025, P. 05]



[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Roznama Jadeed Bharat, Patna, Vol. 05, Issue No. 277, Friday, 17 October 2025, P. 05; Ranchi Edition, Vol. 10, Issue No. 278, Friday, 17 October 2025, P. 05, Kolkata Edition, Vol. 05, Issue No. 275, Friday, 17 October 2025, P. 05.]


[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Daily Srinagar-e-Jang, Kashmir, Vol. 28, Issue No. 249, Saturday, 18 October 2025, P. 06]


[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Farooqui Tanzeem, Patna, Vol. 22, Issue No. 287, Monday, 20 October 2025, P. 07, Ranchi Edition, Vol. 42, Issue No. 280, Monday, 20 October 2025, P. 07, Delhi Edition, Vol. 21, Issue No. 282, Monday, 20 October 2025, P. 05.]

[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Weekly Pukar, Srinagar, Kashmir, Vol. 19, Issue No. 39, 20- 26 October, 2025, P. 05.]


[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Urdu Daily Siyasi Ufuque, New Delhi, Vol. 31, Issue 255, Saturday, 25 October 2025, P. 04.]




Saturday, 11 October 2025

𝐃𝐫. 𝐌𝐝. 𝐖𝐚𝐬𝐚𝐲 𝐙𝐚𝐟𝐚𝐫 𝐊𝐢 𝐐𝐚𝐛𝐢𝐥-𝐞-𝐐𝐚𝐝𝐫𝐚 𝐓𝐚𝐥𝐞𝐞𝐟 "𝐀𝐮𝐫𝐚𝐭 𝐑𝐚𝐬𝐨𝐨𝐥-𝐞-𝐀𝐤𝐫𝐚𝐦 ﷺ 𝐊𝐢 𝐍𝐚𝐳𝐚𝐫 𝐌𝐞𝐢𝐧

 ------------------------------------------------------------------------

ڈاکٹر محمد واسع ظفر کی قابل قدر تالیف: "عورت رسول اکرم ﷺ کی نظر میں"

انوار الحسن وسطوی

رابطہ: 94306 49112

زیر تذکرہ کتاب "عورت رسول اکرم ﷺ کی نظر میں"  معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد واسع ظفر استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ کی ایک قابل قدر تالیف ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف درس و تدریس کی دنیا کے ایک بافیض استاد کے ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی تقریباً نصف درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ موصوف کو دینیات اور اسلامیات سے گہرا شغف ہے۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً اخبارات و رسائل میں ان کی تحریریں اسلامیات اور دینیات کے تعلق سے شائع ہوتی رہتی ہیں اور قارئین کے درمیان بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ زیر تذکرہ کتاب بھی ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب کی اسلامیات اور دینیات سے ان کے گہرے تعلق کا بیّن ثبوت ہے۔ اس کتاب کی تالیف میں ان کا مقصد اسلامی نظام معاشرت میں عورتوں کے مقام و مرتبہ کو بتانا اور مختلف حیثیتوں سے ان کی پوزیشن اور ان کے مقام کو واضح کرنا ہے۔ دوم یہ کہ اہل مغرب نے مرد و عورت کے درمیان مساوات قائم کرنے کا نعرہ لگاکر اسلامی نظام معاشرت کو جس طرح تنقید و ملامت کا نشانہ بنایا اور مسلم عورتوں کو احساس کمتری کا شکار بنانے کی کوشش کی ہے، اس کا بھی مدلل جواب یہ کتاب ہے۔ مؤلف کتاب نے اپنی اس تالیف کے منظر عام پر لانے کا جو مقصد بیان کیا ہے ، اسے ان کے "پیش لفظ"  کی تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

            "احقر نے میڈیا کے پروپیگنڈوں کے اثرات کو زائل کرنے اور نوجوان نسل کو عورتوں کے حقوق سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آگہی فراہم کرنے کی غرض سے سنہ ۲۰۰۶ء میں ایک مقالہ لکھا تھا۔۔۔ یہ اسی مقالے کی توسیع ہے جو کتابچہ کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس میں مختلف حیثیتوں میں عورت کے مقام و حقوق کے حوالے سے اسلامی نقطۂ نظر کو قرآن و حدیث اور سیرت نبویہ ؐکی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ناقدین کے الزامات کا دلائل کے ساتھ رد کیا گیا ہے اور اپنوں کے شکوک و شبہات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز عورتوں کے حقوق کی تلفی کرنے والوں کے لئے اس میں تنبیہات بھی ہیں اور ان کی رعایت کرنے والوں کے لئے بشارتیں بھی۔" (صفحہ نمبر ۲۱-۲۲)

            زیر تذکرہ کتاب "عورت رسول اکرم ﷺ کی نظر میں" ۱۲۶؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا آغاز  "تقریظ" کی دو تحریروں سے ہوا ہے۔ پہلی تحریر معروف عالم دین مولانا نور الحق رحمانی، استاذ، المعہد العالی للتدریب فی القضاء والإفتاء، پھلواری شریف، پٹنہ کی ہے جب کہ دوسری تحریر کے قلم کار ڈاکٹر سرور عالم ندوی، استاذ و صدر شعبہ عربی، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ ہیں۔  مذکورہ دونوں حضرات کا شمار بہار کے نامور اسلامی اسکالروں میں ہوتا ہے۔ دونوں حضرات نے ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب کی اس تالیف کی بے حد پذیرائی کی ہے اور موجودہ حالات میں جب اسلامی گھرانے کی لڑکیاں دین سے دور ہوتی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں بے راہ روی کی شکار بھی ہورہی ہیں تو ایسے ناگفتہ بہ حالات میں یہ کتاب مسلم لڑکیوں کے لیے بلکہ پورے مسلم معاشرے کے لیے بہترین رہنما ثابت ہوسکتی ہے۔ دونوں شخصیات کی تحریروں سے ایک ایک اقتباس یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ قارئین یہ اندازہ لگاسکیں کہ ہمارے مذہبی اسکالروں کی نگاہ میں اس کتاب کی کتنی ضرورت اور کتنی اہمیت ہے؟

"کتاب کی اہمیت کا اندازہ کتاب کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے خصوصاً اس دور میں اس کی اہمیت پہلے سے زیادہ ہے کیوں کہ اہل مغرب نے مرد و زن کے درمیان کامل مساوات قائم کرنے کا نعرہ لگاکر اسلامی نظام معاشرت کو بری طرح تنقید و ملامت کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں یورپ میں خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا، جس کا سب سے زیادہ نقصان خود عورت کو ہوا کہ اسے کسب معاش کے لئے گھر سے باہر نکلنا پڑا ۔۔۔۔گرچہ اس کتاب کا براہ راست یہ موضوع نہیں ہے بلکہ مقصد اسلامی نظام معاشرت میں عورت کے مقام و مرتبہ سے بحث کرنا ہے اور مختلف حیثیتوں سے اس کی پوزیشن کو واضح کرنا ہے، ضمنی طور پر طلاق اور تعدد ازدواج وغیرہ کے مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ قیمتی رسالہ اہل مغرب کے پھیلائے گئے شکوک و شبہات کے ازالہ میں بھی معاون ثابت ہوگا۔"  (ماخوذ از تقریظ اول بقلم مولانا نورالحق رحمانی، صفحہ ۹)

            "اسلام دشمن عناصر نے عورتوں کی آزادی اور مسلم معاشرے میں ان کے مقام و مرتبہ کو لے کر اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔۔۔ ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں کے حقوق اور معاشرے میں ان کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو تقریر و تحریر کے ذریعہ منظر عام پر لایا جائے۔ اللہ جزائے خیر دے ہمارے محترم ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب کو جنہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھا کر نہایت بسط و وضاحت کے ساتھ مدلل انداز میں ایک بیش قیمت تحریر کو وجود بخشا ہے جس کا مطالعہ اس سلسلے کے بیشتر شکوک و شبہات اور اسلام مخالف خیالات و نظریات کی تردید و تنکیر کے ساتھ اسلام کے آفاقی اور ہمہ گیر نظام حیات ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردے گا۔۔۔۔زیر نظر کتاب "عورت رسول اکرم ﷺ کی نظر میں"  اس موضوع پر موجود اسلامی لٹریچر کے ذخیرے میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔"  (ماخوذ از تقریظ دوم بقلم ڈاکٹر سرور عالم ندوی، صفحہ۱۵ – ۱۶)  

            مذکورہ تقریظی تحریروں کے بعد مؤلف کتاب نے اپنے  "پیش لفظ"  اور  "تمہیدی کلمات" کے بعد اپنے اصل موضوع پر آتے ہوئے ترجیحی بنیاد پر عورتوں کی مختلف حیثیتوں پر الگ الگ عنوان سے سیر حاصل گفتگو کی ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:  "عورت بحیثیت ماں"، "عورت بحیثیت خالہ"، "عورت بحیثیت بیوی"، "عورت بصورت بیوہ و مطلقہ" ،  "عورت بحیثیت بیٹی و بہن"،  "عورت بحیثیت باندی؍مملوکہ و خادمہ"۔ مؤلف کتاب ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب نے مذکورہ تمام عنوانات پر بڑی جامعیت کے ساتھ قرآن و حدیث کے علاوہ مستند و معتبر محققین کی کتابوں کے حوالے سے بہت عمدہ اور مدلل گفتگو کی ہے۔ مؤلف موصوف نے عورتوں کے تعلق سے جتنی اہم باتوں کو سوا سو (۱۲۵) صفحے میں جمع کردیا ہے، اتنی جانکاری اور اتنا علم حاصل کرنے کے لئے درجنوں کتابوں اور برسوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص عورتوں کے تعلق سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریات کو یکجا دیکھنا چاہے تو اسے ڈاکٹر محمد واسع ظفر کی اس کتاب کا مطالعہ لازمی طور پر کرنا چاہیے۔ مؤلف کتاب واقعی اپنی اس کاوش کے لئے نہ صرف مبارکباد کے مستحق ہیں بلکہ ہماری جانب سے شکریہ کے بھی مستحق ہیں۔

            کتاب ہٰذا میں ایک عنوان "اختتامی کلمات"  کا بھی ہے جس کے تحت مؤلف کتاب نے عورتوں کے تعلق سے مذہب اسلام کے اصول و ضوابط کا مکمل دفاع کرتے ہوئے بہت عمدہ اور قیمتی بات تحریر ہے۔ اس تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو: "سچ بات تو یہ ہے کہ اگر ہم عورتوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا معروضی اور منصفانہ جائزہ لیں تو یہ نتیجہ اخذ کیے بغیر نہیں رہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اقوام عالم کی اب تک کی تاریخ میں حقوق نسواں (Women's Rights) کے سب سے بڑے حامی و علم بردارتھے۔"  (صفحہ نمبر ۱۰۸ )

            کتاب کے اختتام میں ایک باب "ضمیمہ" کے نام سے بھی ہے جس کا عنوان ہے  "ملت کی بیٹیوں کے نام ایک پیغام"۔ یہ تحریر اس قدر پردرد اور پرسوز ہے جسے دل تھام کر ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ اس پیغام میں ملت کی بیٹیوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے ایمان اور عفت کی ہر قیمت پر حفاظت کریں اور کسی بھی قیمت پر کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرنے کی غلطی نہ کریں ورنہ ان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجائے گی۔ یہ وہ قیمتی پیغام ہے جسے ہر گھر کے والدین اور گارجین حضرات پہلے خود پڑھیں پھر اپنی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بھی پڑھوائیں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی لڑکی اردو زبان سے نابلد ہے تو اس کا ہندی یا انگریزی ترجمہ کرکے انھیں پڑھوایا جائے۔ اگر کسی گھر کی کوئی لڑکی یا لڑکا اردو سے نابلد ہے تو اس کے پورے طور پر ذمہ داران کے والدین اور گارجین ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تردد نہیں کہ جب سے ہم نے اردو کو اپنے گھر سے بے گھر کیا ہے، دین ہمارے گھر سے رخصت ہونے لگا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری نئی نسل میں مذہب سے دوری یا مذہب بیزاری کی بیماری لاحق ہوئی ہے۔

             ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب کی اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف عورتوں اور لڑکیوں کے لیے ضروری ہے بلکہ گھر کے مردوں کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ معاشرہ اسی وقت سدھر سکتا ہے جب ہمارے معاشرے کے مرد و عورت دونوں اسلامی احکامات کی پیروی کرنے کے لیے خود کو تیار کریں گے۔ سچائی تو یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلے مرد کو ہی آگے آنا ہوگا۔ اگر کسی گھر میں بے شرمی، بے حیائی، بے پردگی، اور فحاشی پائی جاتی ہے تو اس کے پورے ذمہ دار گھر کے مرد ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اکبرؔ الہ آبادی کو یہ شعر کہنے کی کیوں ضرورت پیش آتی؟

بے  پردہ کل جو  آئیں نظر چند  بیبیاں

اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا

             ڈاکٹر محمد واسع ظفر صاحب نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ مسلم معاشرے کو صحیح اسلامی نہج پر لانے کی ایک قابل قدر کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں جو کچھ بھی مواد جمع کیا ہے وہ پورے دلائل اور حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ امید قوی ہے کہ مسلم معاشرے کے لیے یہ کتاب ضرور مفید ثابت ہوگی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس نیکی کو شرف قبولیت بخشیں اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے والوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین! 

٭٭٭٭٭


[Tabsira-A.H.Wastavi, Tasdeeque Urdu Daily, Patna Vol. 16, Issue 265, 06.10.2025, P.05b]


[Tabsira-A.H.Wastavi, Qaumi Tanzeem, Patna Vol. 57, Issue 271, 08.10.2025, P.06b]

[Tabsira-A.H.Wastavi, Sangam, Patna Vol. 73, Issue 270, 09.10.25, P.03]


[Tabsira-A.H.Wastavi, Srinagar Jang,  Vol. 28, Issue 241, 09.10.2025, P.05]


[Tabsira-A.H.Wastavi, Siyasi Ufuque, New Delhi, Vol. 31, Issue 243, 10.10.2025, P.04b]