------------------------------------------
کیا شادی سادگی سے نہیں
ہو سکتی ؟
ڈاکٹر محمد واسع ظفر
یوں
تو احقر اپنے سن شعور سے ہی شادیوں میں دولت کی نمائش، بے جا اخراجات، تلک و جہیز
کے مطالبات اور بارات کی رسم کا شدید مخالف رہا ہے لیکن وہ واقعہ جو اس تحریر کا
سبب بنا سنہ۲۰۱۱ء
کا ہے۔ بندہ حسب معمول جامع مسجد، فقیر باڑہ، پٹنہ جو شعبۂ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی
کے قریب ہی واقع ہے، میں ظہر کی نمازادا کرنے گیا تھا۔ جیسے ہی فرض نماز ختم ہوئی
ادھیڑ عمر کے ایک صاحب جو اپنی ظاہری ہیئت سے ہی بڑے مفلوک الحال نظر آرہے تھے، وسط مسجد میں دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور
نہایت ہی الحاح و زاری کے ساتھ چاروں طرف کے مصلّیان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے
اپنی بچی کی شادی میں مالی امداد کی درخواست کی۔ لڑکی کی شادی کے لیے امداد کی
درخواست کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو میرے سامنے پیش آیا، آئے دن مسجدوں میں
اس طرح کی درخواست کبھی کسی مفلوک الحال باپ کی طرف سے تو کبھی کسی غریب اور یتیم
بھائی کی طرف سے سننے کو ملتی ہے لیکن اس دن درخواست کنندہ کی حالت اور ان کی
درخواست کے انداز نے اس ناچیز کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اور لوگوں کے دلوں پر کیا
گزری لیکن میں یہی سوچتا رہا کہ ان نبیؐ کا امتی جنھوں نے لڑکیوں کو رحمت اور اس
نکاح کو جس میں کم سے کم اخراجات کئے گئے ہوں، برکت والا نکاح بتایا، مسلم معاشرے
کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے آج اپنی بیٹی کی خاطر بھرے مجمع میں کیسے ذلیل ہو
رہا ہے؟ اس واقعہ کو ۱۴؍
سال گزر گئے لیکن وہ منظر آج بھی میری یاددں کے نہاں خانے میں محفوظ ہے جسے کسی بیٹی
کا مفلس باپ یا بھائی اپنی اسی قسم کی درخواست سے اکثر تازہ کرجاتا ہے۔ اصلاح
معاشرے کی تمام تر کوششوں جلسے جلوس، تحریر و تقریر کے باوجود حالات لگ بھگ جوں کا
توں ہیں۔ آئے دن ہم کسی مسلم بیٹی کے نادار باپ یا بھائی کو لوگوں کے سامنے ذلیل و
خوار ہوتے دیکھتے ہیں لیکن ہائے افسوس کہ اس کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں
اور ہمارا ضمیر بیدار نہیں ہوتا!
جناب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو کتنا آسان بنایا تھا لیکن غیروں سے متاثر
ہوکرہم نے اپنے معاشرے میں ایسے رسومات داخل کرلیے جن کی وجہ سے نکاح مشکل ہو گیا۔
کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں میں اپنے سہاگ کا سپنا سجائے بوڑھی ہو رہی ہیں، زنا جیسی
برائی مسلم معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں سے اوباش
لڑکوں یہاں تک کہ غیر قوموں کے لڑکوں کے ہمراہ فرار ہورہی ہیں اور مرتد ہورہی ہیں،
کتنی جسم فروشی کے دھندھوں میں پھنس رہی ہیں، کتنے گھرانے مقروض ہورہے ہیں اور
کتنے سود کی لعنت میں گرفتار ہوکر تباہ و برباد ہو رہے ہیں لیکن ہماری آنکھیں
کھلنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ کیا تعلیم یافتہ اور کیا جاہل، کیا عالم اور کیا غیر
عالم، کیا امیر اور کیا غریب اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں۔ ہمیں تو اپنا بینک بیلنس
بڑھانا ہے، اپنے مکان کی تعمیر بھی کرنی ہے، اور اسے عیش و عشرت کے سامانوں سے مزیّن
بھی کرنا ہے اور اپنی زندگی کے اور بھی بہت سے شوق و ارمان پورے کرنے ہیں لیکن یہ
سب دوسرے یعنی بیٹی والے کے پیسے کے بل بوتے پر کرنے ہیں۔ ہمیں اس کی کوئی پرواہ
نہیں کہ وہ پیسے کہاں سے آرہے ہیں؛ کسی کے قرض لی گئی رقم سے، سود کی رقم سے، رشوت
خوری سے یا کمائی کے دیگر حرام ذرائع سے یا پھر عوامی چندہ اور بھیک کی رقم سے۔
لالچ اور جھوٹی شان کے مظاہرے کی آرزونے ہماری عقلوں کو بالکل ماؤف کردیا ہے۔
یوں
تو مسلم گھرانے کی شادیوں میں اب سوائے خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول کے کچھ بھی
اسلامی نہیں رہا لیکن بندہ کی نظر میں ان سے متعلق تین برائیاں نہایت ہی سنگین نوعیت
کی ہیں جنہوں نے معاشرے کو تباہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ وہ تین ہیں؛
تلک یعنی لڑکی والوں سے شادی کے نام پر موٹی رقم کا مطالبہ، جہیز یعنی ضروریات
زندگی سے متعلق تمام اشیاء بلکہ یہ کہا جائے کہ عیش و عشرت کی تمام اشیاء کا لڑکی
والوں سے مطالبہ یا ان کی امید رکھنا اوربارات لے کر جانا اور لڑکی والوں سے ان کی
اعلیٰ سے اعلیٰ ضیافت کی توقع رکھنا۔ اول الذکر دو چیزوں کے پیچھے لالچ کار فرما
ہے اور آخر الذکر کے پیچھے جھوٹی شان کا مظاہرہ۔ ان تینوں مطالبات یا توقعات کو پورا کرنے کے لیے مال کی ضرورت ہے اور
یہی سارے فتنوں کی جڑ ہے۔
جہاں
تک تلک کا تعلق ہے اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ شریعت نے نکاح کے سلسلے میں
ہونے والے اخراجات کی تمام تر ذ مہ داری مردوں پرڈالی ہے اور اسی کو ازدواجی زندگی
میں مردوں کی قوامیت اور برتری کی بنیاد قرار دیا ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر ۳۴ اس امر پر شاہد ہے۔
ارشاد ربانی ہے: ﴿اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَّ
بِمَآ أَنفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ﴾۔ (ترجمہ) : "
مردنگراں ہیں عورتوں پر اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے
اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔" چنانچہ مہر کی ادائیگی کو
مرد کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے لیکن ہمارے معاشرے نے اس کا تعلق بھی طلاق سے
قائم کردیا حتیٰ کہ بہت سے نوجوان تو مہر کی ادائیگی کی نیت بھی نہیں رکھتے اور اس
طرح بعض روایات کے مطابق تاعمر زنا کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو یہ روایت
ملاحظہ کیجیے: "قَالَ
النَّبِیُّ ﷺ: مَنْ نَکَحَ امْرَأَۃً وَھُوَ یُرِیْدُ أَنْ یَذْہَبَ بِمَھْرِہَا
فَھُوَ عِنْدَاللّٰہِ زَانٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ"
(ترجمہ): "نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کسی
عورت سے نکاح کیا اور اس کی نیت یہ تھی کہ اس (عورت) کا مہر اپنے پاس رکھے گا تو
وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن زنا کرنے والا شمار ہوگا۔" (المصنف لابن أبي شیبۃؒ،
حدیث نمبر۱۷۶۸۸،
نیز دیکھیں مجمع الزوائد و
منبع الفوائد للھیثمیؒ، حدیث نمبر ۶۶۵۴)۔ اسی طرح ولیمہ کے
اخراجات اوردلہن کا نان و نفقہ سب مردوں کے ذمے ہے۔ لیکن افسوس ہم لڑکی والوں کو
ان کا حق کیا دیتے الٹا ان سے ہی وصول کرلیتے ہیں اور فرمان خدواندی ﴿وَلَا
تَاْکُلُوٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۔ البقرۃ:
۱۸۸﴾ (ترجمہ: "اور تم
لوگ آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ") کے تحت حرام خوری کے
مرتکب ہوتے ہیں۔ اور کچھ افراد تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ولیمہ بھی لڑکی والوں سے اینٹھی
ہوئی رقم سے کرتے ہیں اور اس طرح اپنی حرام خوری میں اپنے تمام متعلقین کو بھی
شامل کرلیتے ہیں۔
جہیز
کے سلسلے میں بھی اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ
حضرت فاطمہؓ کو دئے گئے چند سامان کو بنیاد بناکر لوگ جہیز کے لین دین کا جواز
ثابت کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ حضرت علیؓ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ و سلم کی ہی کفالت میں تھے اور ان کی خانگی ضروریات کی فکر کرنا آپؐ کے ہی
ذمے تھا۔ (مستدرک علی الصحیحین
للحاکمؒ، حدیث نمبر ۶۴۶۳)۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ انتظامات حضرت علیؓ کی رقم (۴۸۰؍ درم ) سے کئے جو انھوں
نے اپنی زرہ بیچ کر مہر کے عوض میں آپؐ کے حوالہ کیا تھا ۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للھیثمیؒ،
حدیث نمبر ۱۵۲۱۰،
۱۵۲۱۱)۔ اس لیے یہ کہنا کہ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہؓ کو جہیز دیا، قطعاً غلط ہے ۔ اگر جہیز دینا
شریعت میں درست ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مساوات کے اصول کو مدنظر
رکھتے ہوئے اپنی دوسری بیٹیوں کو بھی جہیز دیتے لیکن ایسا کسی روایت سے ثابت نہیں
اور نہ ہی کسی روایت سے کسی صحابی کا اپنی بیٹی کو جہیز دیناثابت ہے۔ خود نبی کریم
صلی اللہ علیہ و سلم نے کئی نکاح کئے جن میں سے دو بیویاں حضرت عائشہؓ اور حضرت
حفصہؓ آپ کے دو جانثار صحابہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی(علی الترتیب) بیٹیاں
تھیں، جو اپنے مال و دولت کو رسول پاکؐ کے قدموں پر نچھاور کرنے کے لیے موقع کی
تلاش میں رہا کرتے تھے لیکن کسی کا بھی اپنی بیٹی کو جہیز دیناثابت نہیں۔ اس لیے
حضرت فاطمہؓ کے واقعہ کو جہیز کے لین دین کے لیے دلیل بنانا قطعاً درست نہیں۔
دلہن
کی رخصتی کے لیے بارات لے کر جانا بھی ایک غیر اسلامی تصور ہے جو نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ یہ دوسرے کی جیب کے
بل پر اپنی شان دکھانے کے مترادف ہے۔ لوگ صرف اپنی شان دکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ
تعداد میں باراتی لے کر جاتے ہیں اور لڑکی والوں سے ان کی بہترین ضیافت کی توقع
رکھتے ہیں بلکہ بعض کم ظرف تو کھانے کا مینو تک بتاتے ہیں۔ لڑکی والے طوعاً و
کرہاً ان کے پرتکلف قیام و طعام کا نظم کرتے ہیں جس میں اچھی خاصی رقم کا صرفہ
ہوتا ہے جس کا بوجھ لڑکی کے اولیاء کی جیب پر ہی پڑتا ہے۔ بعض دفعہ باراتیوں کی
تعداد کو لے کرفریقین کے مابین تنازعہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ ہے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مسلمان کے مال کو اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال
کرنے کو ناجائز بتایاہے، اس لیے لڑکی کے اولیاء کے دل میں بارات کی آمد یا باراتیوں
کی تعداد کے سلسلے میں اگر ذرا بھی تنگی ہوئی تو باراتیوں کا وہاں کھانا پینا بھی
حرام ٹھہرے گا (کیوں کہ سارا نظم بجبر و اکراہ ہی ہوگا)۔ اس طرح نہ صرف لڑکے کے
اولیاء بلکہ ان کے وہ تمام متعلقین جو بارات کی شکل میں وہاں گئے ہوں، حرام کھانے
کے مرتکب ہوں گے اور اس کی ذمہ داری بھی لڑکے کے اولیاء کے اوپرعائد ہوگی۔
لیکن
ان تمام باتوں کو ہم سمجھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جواز کے لیے طرح طرح کی دلیلیں
لاتے ہیں۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ میں نے تلک یا جہیز کا مطالبہ تھوڑا ہی کیا ہے، یہ
تو لڑکی والوں نے اپنی مرضی سے دیا ہے؟ کوئی لڑکی والا اپنی مرضی سے جہیز نہیں دیتا، یا
تو اس خوف سے دیتا ہے کہ کبھی آگے چل کر لڑکی کو اس کی وجہ سے اذیت نہ دے یا پھر
معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دیتا ہے کہ نہیں دے گا تو سماج میں اس کی ناک کٹ جائے گی
خواہ اسے اپنی زمین و جائداد بیچنی یا گروی رکھنی پڑے، قرض لینا پڑے، سودخوری،
رشوت خوری اور حرام خوری کے دیگر ذرائع استعمال کرنا پڑیں، یا پھر چندہ کرنے اور
بھیک مانگنے کی نوبت آجائے۔ کچھ افراد ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کے یہاں ان میں سے
کچھ بھی نہ ہونے کا دعویٰ ہولیکن شان بازی اور ریاکاری سے وہ بھی خالی نہیں
ہوسکتے۔ آخر یہ جہیز کی نمائش شادی کے موقع پر ہی کیوں ہوتی ہے؟ اگر جذبہ صادق ہو
تو ساری عمر اپنی بیٹیوں کے ساتھ عنایت کا معاملہ کیا جا سکتا ہے لیکن ظاہر ہے شادی
کے بعد نہ تو نمائش ہوسکے گی اور نہ ہی شان میں اضافہ؟ پھر جب وراثت کی تقسیم کا
مرحلہ آتا ہے تو وہی حضرات اپنی بیٹیوں کا حق دینے میں دائیں بائیں کرنے لگتے ہیں۔
بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے
ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہر شخص شادی میں اپنی وسعت کے موافق خرچ کرے یعنی امیر
اپنی وسعت کے مطابق اور غریب اپنی وسعت کے مطابق؟ تو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا
چاہیے کہ کی سماج کا نچلا اور متوسط طبقہ تو ہمیشہ سے اعلیٰ طبقہ کی نقل کرتا آیا
ہے۔ نیچے طبقہ والے ان مفاسد کو بھی جو اونچے طبقہ کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں،
اعلیٰ میعار زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور نفسیاتی طور پر ان کے حصول کو ہی اپنی
زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ اس اعلیٰ طبقہ کو قرآن نے مُتْرَفِیْن کے لفظ سے ذکر کیا
ہے اور اس بات کی گواہی بھی دی ہے کہ یہی وہ طبقہ ہے جس نے تاریخ کے ہر دور میں
انسانوں کی گمراہی میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اس لیے ملت کے سربرآوردہ اور خوشحال
لوگ جب تک شادی میں سادگی کو نہیں اپنائیں گے تلک ، جہیز اور بارات کی یہ قبیح رسمیں
ہمارے معاشرے سے جانے والی نہیں ہیں۔
کچھ
لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کی شادی میں جہیز دیا ہے تو پھر ہم کیو ں نہیں
لیں گے؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ قتل کسی اور نے کیا اور قصاص کسی اور سے لیا جائے۔
اپنے نقصان کی تلافی دوسروں سے کرنے کا سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہے تو قیامت تک یہ
رسومات ختم نہیں ہوسکتے اور اس اصول کو اگر دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی نافذ کیا
جائے تو ساری زمین فساد سے بھر جائے گی۔ بارات کے سلسلے میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں
کہ لڑکی والوں نے بارات لانے کی فرمائش کی اس لیے ہم بارات لے جارہے ہیں۔ بلا شبہہ
بعض لڑکی والے ایسا کرتے بھی ہیں لیکن ان کا مقصد بھی اپنی شان کا مظاہرہ ہی ہوتا
ہے۔ ان جیسے لوگوں کو اگر دوسرے مواقع پر فی سبیل اللہ کچھ خرچ کرنے کو کہا جائے
تو معاملہ چند سینکڑے یا ہزار سے آگے نہیں جاتا۔ اور بالفرض اگر مذکورہ تمام مفاسد
نہ بھی ہوں، مثلاًلڑکی والے پوری خوش دلی اور نیک نیتی سے جہیز دیں اورباراتیوں کی
ضیافت بھی کریں وغیرہ، جب بھی مسلم معاشرے پر اس کے جو اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ ہی
ان امور کو لعنت کا مستحق ٹھہرانے کے لیے کافی ہیں۔
اس
لیے قوم و ملت کے اے غیرت مند نوجوانوں! ذرا ترس کھاؤ اپنی ان نادار بہنوں پر جو نکاح کا
سپنا سجائے بوڑھی ہو رہی ہیں اور آنکھیں کھول کر عبرت کی نگاہ سے شادی کے مروجہ
رسوم کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کو دیکھو کہ شاید اللہ پاک دل میں اس دیوانے کی
یہ باتیں اتار دے۔ شادی سادگی سے بھی ہوسکتی ہے۔ اُس موقع پر کی جانے والی دولت کی
نمائش اور بے جا اخراجات کی مثال چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کے مانند ہے
جسے کوئی صاحب عقل پسند نہیں کرتا۔ نیز تلک و جہیز کے نام پر ناجائز طریقے سے آیا
ہوا مال اپنے ساتھ بے برکتی لاتا ہے اور دیرپا نہیں ہوتا۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو
نکاح سنت طریقے پر مسجد میں کرو، دلہن کی رخصتی سادگی کے ساتھ کراؤ اور اپنے ولیمہ
میں غریبوں کا بھی خیال رکھو۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید میں تمھاری یہ بہت ہی
بڑی خدمت ہوگی۔ علامہ اقبال کے اس شعر کو اپنے فلسفہ زندگی کی بنیاد بناؤ :
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اللہ پاک ہم سب
کو عقل سلیم عطا کرے۔ آمین!
٭٭٭٭٭
[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Roznama Tasdeeque, Patna, Vol. 16, Issue No. 275, Thursday, 16ٌ ْْOctober 2025, P. 05]
[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Roznama Jadeed Bharat, Patna, Vol. 05, Issue No. 277, Friday, 17 October 2025, P. 05; Ranchi Edition, Vol. 10, Issue No. 278, Friday, 17 October 2025, P. 05, Kolkata Edition, Vol. 05, Issue No. 275, Friday, 17 October 2025, P. 05.]
[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Daily Srinagar-e-Jang, Kashmir, Vol. 28, Issue
No. 249, Saturday, 18 October 2025, P. 06]
[Keya Shadi Sadgi Se Nahi Ho Sakti, Weekly Pukar, Srinagar, Kashmir, Vol. 19,
Issue No. 39, 20- 26 October, 2025, P. 05.]










